مکرمی ! امام شافعی کے ایک درخشندہ واقعہ کو بیان کرنے سے قبل امام شافعی کا مختصر تعارف پیش خدمت ہے۔ ان کا نام محمد بن ادریس اور کنیّت ابو عبد اللہ ہے۔ شافعی نسبت ہے کہ ان کے جدّ اعلیٰ کا نام شافعی تھا۔ ان کا سلسلہ عبدالمناف پر حضور اکرم ؐکے نسبت سے ملتا ہے آپ 150ھ (767ئ) میں فلسطین میں پیدا ہوئے۔ آپ نے تیرہ برس کی عمر میں مدینہ آکر امام مالک کے سامنے زانوئے تلمند تہ کیا، امام مالک کی وفات تک ان سے مؤطا پڑھتے رہے۔ امام شافعی کو قرأت، حدیث، فقہ، لغت، طب، تاریخ، ادب ، فراست میں کمال کا درجہ حاصل تھا۔ آپ نہایت خلیق، فیاض دل، حلیم الطبع اور قناعت پسند انسان تھے۔ رضا جوئی خدا اور اتباع سنت نبویؐکے عاشق شیدا تھے۔ آپ کی تصانیف کی تعداد 114 ہے۔ واقعہ یوں ہے کہ چند لوگ امام شافعی کی خدمت میںحاضر ہوئے پوچھا اللہ عزوجل کے وجود پر کوئی دلیل بیان کریں۔ امام شافعی نے پل بھر کے لئے سوچا اور ان سے فرمایا باری تعالیٰ کے وجود پر کسی دلیل کے لئے یہ شہتوت کا پتہ ہی کافی ہے۔ لوگوں نے اس عجیب و غریب جواب پر حیرانی کا اظہار کیا اور کہنے لگے: اللہ تعالیٰ کے وجود پر دلیل یہ شہتوت کا پتہّ؟ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ امام شافعی نے فرمایا:شہتوت کے پتے کا مزہ تو ایک ہی ہے‘مگر جب اسے ریشم کا کیڑا کھاتا ہے تو وہ ریشم نکالتا ہے جب شہد کی مکھی کھاتی ہے تو وہ شہد پیدا کرتی ہے اور جب ہرن کھاتا ہے تو مشک کی پیاری خوشبو دیتا ہے پھر وہ کون سی ہستی ہے‘جس نے ایک ہی چیز کو مختلف رنگ اور خاص دیے ہیں؟!یقیناً وہ ہستی اللہ تعالیٰ ہی کی ہے، جس نے اس عظیم کائنات کو تخلیق کیا ہے۔امام شافعی کے اس فیصلہ کن جواب نے سائلین کو حیرت زدہ کردیا اور انہیں شہتوت کے پتے میں اللہ تعالیٰ کے وجود پر مستحکم دلیل مل گئی۔ علامہ اقبال ’’اسرار خودی ‘‘ میںامام شافعی کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ حضرت امام شافعی کی قبر کو سرسبز رکھے۔ ان کے افکار نے آسمان سے تارے توڑے ہیں۔(محمد اسلم چوہدری، لاہور )