لیڈرکی خاصیت

پچھلی دو دہائیوں میں عالمی افق پر اجاگر ہونے والے گھمبیر مسائل کی ایک بڑی وجہ عالمی قیادت میں دور اندیشی کا فقدان، مسائل کے حل کیلئے غیر سنجیدہ رویہ اور غیر ضروری اہداف کا حصول ہے۔ جس طرح ہمارے سماجی اور معاشرتی رواج میں سے پنچائیت غائب ہو گئی ہے ‘ بالکل سی طرح دنیا میں چودھراہٹ کا خاتمہ ہوتا نظر آرہا ہے۔ امریکہ کا اقوام عالم پر آہستہ آہستہ کنٹرول ختم ہورہا ہے۔ افغانستان ہو یا ماحولیاتی تبدیلیوں کیلئے کی جانے والی کوششیں ، یا ایران ، امریکہ دنیا کی واحد سپر پاور ہونے کے باوجود ان مسائل کو اپنی غیر مؤثر پالیسیوں اور اندرونی حالات کی وجہ سے حل کرنے سے قاصر ہے۔عالمی سطح پر چھوٹے ممالک ، بڑی طاقتوں کی پالیسیوں کی پیروی کرتے ہیں۔ ملکی سطح پر بھی حکومتوں کے کئے گئے فیصلوں کی بازگشت ملک میں ہر طرف گونجتی ہے۔عوام کی سوچ ، سیاسی قیادت کی سوچ کا عکس ہوتی ہے۔ کمزور ہمیشہ رہنمائی کیلئے طاقت ور کی طرف دیکھتا ہے۔ اگر عالمی طاقتوں کے اہداف میں ابہام ہو گا تو دنیا تلاطم کا شکار ہوگی۔ اسی طرح اگر ملکی اہداف واضح نہیں ہونگے تو عوام میں بے چینی اور بے یقینی بڑھ جائے گی۔ اور یہی بے چینی دہائیوں سے ہمارے ساتھ سفر کرتی چلی آ رہی ہے۔ دھند ہے کہ چھٹنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔
غیر مربوط طبی پالیسیوں کی وجہ سے امریکہ واحد سپر پاور ہونے کے باوجود ، کرونا کی وجہ سے سب سے زیادہ متاثرہ ملک ہے۔ چین کی شفاف اور مربوط منصوبہ بندی کرونا کے خلاف جنگ میں ان کی اہم کامیابی ہے۔یہ صحیح ہے کہ ریاست کی ترقی کا دارو مدار ، اداروں کی مضبوطی میں پنہاں ہے ۔ لیکن آپ جرمنی کی انجیلا مرکل کی شخصیت اور ۱ن کے سیاسی کردار کو سامنے رکھیں تو اندازہ ہوگا کہ لیڈر کی شخصیت کس قدر ملکی ترقی پر اثر انداز ہوتی ہے۔ انجیلا مرکل کی طاقتور شخصیت اور بھارت کے نریندر مودی کی شعبدہ بازیوں کا موازنہ کریں تو آپ کو واضح نظر آئے گا کہ لیڈر کی شخصیت اس کے فیصلوں پر کس طرح اثر انداز ہوتی ہے اور قومیں کیسے سیاسی قیادت کے فیصلوں سے متاثر ہوتی ہیں۔ انجیلا مرکل نے کرونا کے ابتدائی ایام میں ہی لگی لپٹی رکھے بغیر پوری قوم کو خطرات سے آگاہ کر دیا تھا کہ خطرہ شدید ہے لہٰذا اس میں حکومتی اور شخصی سطح پر سستی کی گنجائش نہیں ہے اور پھر ایک منظم منصوبہ بندی اور بھر پور تیاری سے کرونا کا مقابلہ کیا۔ دوسری طرف ٹرمپ اور مودی حکومت اپنے اپنے ملکوں میں نہ صرف سچ کو چھپاتی رہیں بلکہ انتہائی سنگین غلطیوں کی بھی مرتکب ہوئیں۔ بورس جانسن اور مارگریٹ تھیچر کے ادوار کے برطانیہ کو سامنے رکھیں تو لیڈروں کی شخصیت اور انکے اثرات کے مزید پہلو نمایاںہونگے۔ 
رچرڈ نکسن اپنی کتاب ’’لیڈر‘‘ میں لکھتے ہیں کہ عظیم قیادت دراصل ایک منفرد فن ہے جس کے لئے نہ صرف بے انتہا طاقت بلکہ اولین مقصد بھی درکار ہوتاہے۔ 
لیڈر کی سوچ کا دائرہ نہ ہی محدود ہوتا ہے اور نہ ہی غیر لچکدار کیونکہ اس کا ہدف شخصی نہیں عوامی مفاد ہوتا ہے۔ اس کا مطمع نظر لاکھوں ،کروڑوں زندگیوں کی حفاظت اور ان کو روز مرہ زندگی کے وسائل مہیا کرنا ہے ۔ ریاست کاپہیہ اچھے لباس، اچھی خوشبو، بڑی بڑی گاڑیوں میں سفر کرنے یا کھو کھلے نعروں اور شعبدہ بازیوں نعروں سے نہیں چلتا۔سیاست ایک مفاہمتی عمل ہے۔لیڈر کو اپنے فیصلوں کو عملی شکل دینے کیلئے بہت پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ لیڈر جب تک اپنی شخصی کمزورویوں اور ذاتی مفادات کی دلدل سے باہر نہیں نکلتا اس کے فیصلے قومی مفاد میں نہیں ہو سکتے۔ 
لیڈر کو اپنے لالچ اور پسند کو عوامی مفاد کیلئے قربان کرنا ہوتا ہے۔ عظیم لیڈر سچ کو ساتھ لے کے چلتا ہے ۔ فریب لومڑی کی فطرت ہے اور لومڑی جنگل میں رہتی ہے۔ وہ قومیں بہت خوش قسمت ہوتی ہیں جن کی سیاسی قیادت اکٹھے ہو کر ان کے مفادکیلئے سوچے۔ مشہور کتاب ’’قومیں کیوں فیل ہوتی ہیں‘‘ میں اسی غلطی کی نشاندہی کی گئی ہے کہ عوامی مفاد کیلئے فیصلے نہ کرنا قوموں کے زوال کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ پاکستان کی سیاست بہت خطرناک طریقے سے بٹی ہوئی ہے اور اس کی بڑی وجہ ذاتی سیاسی مفادات ہیں۔ لیڈر اگر فیصلہ کر لے تو کوئی اسے تبدیل نہیں کرا سکتا۔رچرڈ نکسن نے اپنی کتاب میں دنیا کے درجن بھر عظیم لیڈروں کے کردار کا احاطہ کیا ہے۔ ان سب میں ایک چیز مشترک تھی۔ وہ اپنے ملک اور عوام کیلئے بے لوث خدمت کا جذبہ رکھتے تھے اور اپنے ملک اور قوم کیلئے کوئی بھی قربانی دینے کو تیار تھے۔ان عظیم لیڈروں نے اپنے ملکوں اور قوموں کو مشکلات سے نکالنے کیلئے خود غرضی کی چادر پھینک کر انتہائی جذبے سے کام کیا۔پاکستان کے مسائل بہت گھمبیر ہیں اور ظاہر ہے ان حالات کی کوئی ایک وجہ نہیں ہو سکتی ۔ اس کی بہت سی اندرونی یاور بیرونی وجوہات ہیں۔ لیکن کیا الزام تراشی ان مسائل کا حل ہے، جس سے آج پوری قوم دو چار ہے۔ کیا خود غرضی کی چادر میں لپٹی ہماری سیاسی قیادت کی بے حسی ہمارے روشن مستقبل کا تعین کرپائے گی۔ کیا روزانہ کا شکوہ اور جواب شکوہ ان مسائل کا حل ہے۔ ان مسائل کے ڈھیر کو ہم سب نے بڑی محنت کر کے پروان چڑھایا ہے اور اب ان سے نبرد آزما ہونے کے لئے بھی اتنی ہی محنت کرنی پڑیگی۔مشکل حالات سی نکلنے کیلئے لیڈر کا کردار بہت اہم ہوتا ہے۔ لیڈر مسائل کی وجہ نہیں ، مسائل کا حل بنتے ہیں۔وسیع سوچ اور دور اندیشی لیڈر کا طرہ امتیاز ہے۔
 لیڈر ماضی سے سبق سیکھتا ہے، موجودہ حالات کا تجزیہ کرتا ہے اور پھر مستقبل کا لائحہ عمل تیار کرنا ہے۔ سیاسی لیڈر کوچ نہیں ہوتا جو میدان سے باھر بیٹھ اپنے پہلوانوں کو کبڈی کھلاتا ہے۔ لیڈر اپنے عوام کے کندھے سے کندھا ملا کر حالات کا سامنا کرتا ہے مسائل کا حل ڈھونڈتا ہے۔لیڈر خواہش نہیں کرتے بلکہ اپنی مرضی سے اپنی قوم کے مستقبل کا فیصلہ کرتے ہیں اور ان فیصلوں پر عمل کرنے کیلئے وہ کسی بھی مشکل کو نظر میں نہیں لاتے اور تمام قوت مسائل کے حل پر صرف کرتے ہیں۔ قوموں کی ترقی ، ہمیشہ عظیم لیڈروں کی قیادت کی مرہون منت ہوتی ہے۔ 
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن