جو رہی خودی تو شاہی نہ رہی تو رُو سیاہی 


 پاکستان تحریک انصاف کی یہی کوشش ہے کہ کچھ ایسا ہو جائے کہ رمضان المبارک سے پہلے ہی انتخابی ماحول بن جائے جبکہ حکومتی اتحاد ایسا نہیں چاہتا کیونکہ انھیں پتہ ہے کہ وہ عوام کو ریلیف دینے میں ناکام رہے ہیں اور ایسے حالات میں نتائج ان کے حق میں نہیں آئیں گے اب اگر خان صاحب نے فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ پنجاب اور کے پی کے اسمبلی توڑ دیں اور مرکز سے دیے گئے استعفوں کو حتمی شکل دیکر ساری نشستیں خالی کر دیں ۔یقینا پھر حکومت انتخابات کی طرف جانے پر مجبور ہو جائے گی کیونکہ اسطرح اداروں پر بھی دبائو پڑے گا یعنی ملک جام منصوبہ ناکام ہونے کے بعد حکومتی نظام جام کرنے کا منصوبہ زیر غور ہے ۔ دوسری طرف معاشی ماہرین نے زرمبادلہ کے ذخائر کی موجودہ صورتحال کو پاکستان کے لیے چیلنج قرار دیتے ہوئے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے لیکن وفاقی وزارت خزانہ نے ایسی خبروں کو مخالفین کی سازش قرار دیا ہے جبکہ سچ تو یہ ہے کہ معیشیت کی نائو واقعی ہچکولے کھا رہی ہے کیونکہ زرمبادلہ کے ذخائر کم ترین سطح پر آگئے ہیں کہ ہمارے پاس مانگے ہوئے صرف 6-7بلین ڈالر ہیں ،ایک بلین ڈالر کے سکوک بانڈ کی ادائیگی کر دی گئی ہے اور نئی ادائیگی 2024 میںہوگی ۔اس بنا پر کہا جا رہا ہے کہ پاکستان دیوالیہ نہیں ہوگا لیکن عوام کا دیوالیہ نکل گیا ہے اور کوئی بھی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار نہیںحالانکہ ان ذخائر کو مضبوط کرنا نئی حکومت کا اولین ایجنڈا ہونا چاہیے تھا مگر انھیں سیاسی اکھاڑ پچھاڑ اور اپنے کیسسز ختم کروانے سے فرصت ہی نہیں ملی جبکہ قلم کاروںنے لکھ لکھ کر صفحے سیاہ کر رکھے تھے کہ نئے پاکستان کے کھلاڑیوں نے ملک کو تجربہ گاہ بنا کر عوام سے دو وقت کی روٹی بھی چھین لی ہے جس پر تجربہ گاروں نے کہا کہ اب ہم آگئے ہیں عوام سکون کا چین لیں گے اس سے تو بہتر وہ تھے جنھوںنے صاف کہہ دیا تھا سکون صرف قبر میں ہے!
ہوس کہیں یا بے حسی کہ ایسے حالات میں اسمبلیاں توڑنے کی گونج سنائی دے رہی ہے ۔تاہم پنجاب سے مشکوک بیانیے سامنے آرہے ہیں بظاہر ایسا ہی لگ رہا ہے کہ عمران خان جو کہیں گے وہی ہوگا لیکن دوسری طرف تحریک انصاف کے بعض اراکین کی رائے ہے کہ میدان نہیں چھوڑنا چاہیے ، اسمبلیاں برقرار رہیں اور اپنی مدت پوری کریں ۔اس دوران تحریک انصاف اپنا وقار بحال کرے جو متضاد بیانی کی نذر ہوگیا ہے جبکہ خان صاحب ہتھیلی پر سرسوں جمانے کے چکر میں ہیں اور کسی کی سننے کو تیار نہیں بلک ہر حد پار کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ کل تک جن افراد کے گیت گاتے نہیں تھکتے تھے ان کے خلاف محاذ کھول رکھا ہے ۔۔ویسے یہ کوئی نئی بات نہیں انھوں نے ان دوستوں اور محسنوں کی نصیحت نہیں سنی تھی جنھوں نے اقتدار تک پہنچایا نتیجتاً سب گنوا کے بیٹھے ہیں بلکہ مختلف کرپشن الزامات کی کی زد میں بھی آچکے ہیں ۔۔چلیں۔۔ وہ تو ختم ہو جائیں گے جیسے ماضی کے حکمرانوںکے ہوئے کہ کرپشن الزامات اشرافیہ اور افسر شاہی کی دستاروں میں میڈلز کی طرح ہوتے ہیں تبھی تو شیخ رشید کہتے ہیں کہ جیل توہمارا سسرال ہے ۔ اسی دوہرے معیار نے ہمیں وہاں پہنچا دیاہے کہ سب کچھ ہونے کے باوجود ملک دیوالیے ہونے کی خبریں پھیل رہی ہیں جوکہ ابھی نہیں ہوا لیکن اگر اسمبلیاں تحلیل کر دی جاتی ہیں تو ملکی معیشت یہ دھچکا برداشت نہیں کر سکے گی کیونکہ موجودہ حکومت تو بہت سے ممالک سے امدادی پیکج کی امید لگائے بیٹھی ہے پھر وہ بھی شاید نہ ملیں توایسے میں سوال یہ اٹھتا ہے کہ وفاقی حکومت کی جوابی حکمت عملی کیا ہوگی اور متوقع بحران سے نپٹنے کیلئے انھوں نے کیا سوچ رکھا ہے ؟اس سیاسی اکھار پچھاڑ سے عوام کو کیا ملے گا ؟ریلیف دینے کے وعدے کیا وعدے ہی رہ جائینگے ؟یہ ماننا پڑیگا کہ سبھی سیاسی کاریگروں کی سیاست میں تضادات کی بھرمار ہے اور آج عوام جس مہنگائی کے عذاب میں مبتلا ہیں سبھی برابرکے ذمہ دار ہیں۔اس ہوشیاری سے روپ بدلتے ہیں کہ عوام جن سے بدظن ہوتے ہیں انھی کو مسیحا مان لیتے ہیں ۔کبھی کبھی دل چاہتا ہے کہ انھیں بھی عدالتیں وہی سزا سنائیں جو چڑیانے بادشاہ کے کہنے پر اپنے مجرم کو دی تھی۔قصہ کچھ یوں ہے کہ ایک چڑا اور چڑیا شاخ پر بیٹھے تھے ۔دور سے ایک انسان آتا دکھائی دیا ۔چڑیانے چڑے سے کہا کہ چلو اڑ جاتے ہیں ورنہ یہ ہمیں مار دیگا ۔چڑا بولا : بھلی لوک ذرا اسکی پوشاک ،دستار اور پہناوا تو دیکھو ،چکل سے شرافت ٹپک رہی ہے ،یہ ہمیں کیوں مارے گا ؟وہ شخص قریب پہنچاتو تیر کمان نکالی اور چڑا مار دیا ۔چڑیا فریاد لیکر بادشاہ کے پاس چلی گئی ،بادشاہ نے شکاری کو طلب کیا اور اس نے اپنا جرم قبول کر لیا ۔بادشاہ نے چڑیا کو سزا کا اختیار دے دیا کہ جو چاہے سزا دے ۔چڑیا نے کہا : اسے حکم دیا جائے کہ : اگر یہ شکاری ہے تو لباس شکاریوں والا پہنے ، شرافت کا لبادھا اتار دے ،جو ہے وہی نظر آئے تاکہ معصوم لوگ دھوکا نہ کھائیں ۔مہذب معاشروں میں شخصیات کی بجائے نظریات اور منشور پر ووٹ دیے جاتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں عوام ماحول دیکھ کر ووٹ دیتے ہیں جو کہ میڈیا بناتا ہے ۔تبھی میں کہتی ہوں کہ اگر میڈیا اپنی سمت درست کر لے اور جیسے بین الاقوامی میڈیا دنیا کے سبھی سربراہان کی کرپشن یوں بے نقاب کرتا ہے کہ انکے پاس مستعفی ہونے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں رہ جاتا ویسے ہی اگر ملکی میڈیا بھی تنقید کو اصلاح کی نیت سے ملک و قوم کے مفاد میں کرنے کا عہد کر لے تو یہ بازیگر کبھی دھوکا نہیں دے سکتے جبکہ ہماری میڈیا پالیسسز ریٹنگ اور سیاسی جانبداریوں کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں تبھی تو سارے ایشوز چھوڑ کر بیہودہ گوئی اور رقص و سرور میں مہارت رکھنے والوںکو ہیرو بنانے میں مصروف ہے تبھی تو ہر کوئی کہہ رہاہے کہ واہگہ باڈر لاہور سے صرف تین کلومیٹر دور انڈیا کے گائوں میں پیاز 25 روپے کلو آٹا 30 روپے کلو ہے جبکہ وہاں سے تین کلومیٹر پیچھے پاکستان کے شہر لاہو ر میں پیاز 230 روپے کلو آٹا 120 روپے کلو ہے کیوں کسی کو نظر نہیں آرہا؟ یاد رکھیں! جو قومیں اپنی ترجیحات متعین نہیں کرتیں اور اپنی روایات کی حفاظت کرنے کی بجائے کھیل کود اور ہنسی مذاق کو آزادی کا حاصل سمجھ لیتی ہیں انکی حکومت سے حق حکمرانی اور بالآخر لوگوں سے زندہ رہنے کا حق چھین لیا جاتا ہے کہ جو رہی خودی تو شاہی نہ رہی تو رو سیاہی ۔

ای پیپر دی نیشن