افغان فورسز کی جارحیت:  مذمت کے بجائے ٹھوس اقدامات کی ضرورت


چمن میں افغان سکیورٹی فورسزکی جانب سے بلااشتعال گولہ باری پر افغان ناظم الامور کو وزارت خارجہ میں طلب کرکے شدید احتجاج کیا گیا۔ ترجمان وزارت خارجہ کے مطابق پاکستان افغانستان کے ساتھ برادرانہ تعلقات برقرار رکھنے کیلئے پرعزم ہے جبکہ آئی این پی کے مطابق چمن میں پاک افغان بارڈر پر سرحدی فورسز کے مابین جنگ بندی ہوگئی ہے۔ جنگ بندی کے بعد باب دوستی دوطرفہ تجارت اور آمدورفت کیلئے کھول دیا گیا اور کسٹم ٹریڈ کی معمول کی سرگرمیاں بھی جاری  ہوچکی ہیں۔ ددوسری جانب وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی نے سرحد پار محفوظ پناہ گاہیں تلاش کرلی ہیں۔ 
پاکستان میں دوبارہ حملوں کے اعلان کے بعدکالعدم تحریک طالبان کی جانب سے دہشت گردی کی کارروائیوں کا سلسلہ جاری ہے جو ملک کی سلامتی اور شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کے حوالے سے بہت بڑا چیلنج ہے۔ دو روز قبل چمن میں بلااشتعال گولہ باری کے واقعات پر پاکستان نے افغان ناظم الامور کو طلب کرکے احتجاج ریکارڈ کرایا گیا  اور واقعہ کی شدید مذمت بھی کی گئی۔ بے شک جنگ بندی کے بعد اب سرحد پر معمولات زندگی بحال ہونا شروع ہوگئے ہیں اور باب دوستی بھی آمد و رفت کیلئے کھول دیا گیا ہے لیکن اس بات کی کیا ضمانت دی جاسکتی ہے کہ افغان فورسز کی جانب سے پاکستان کیخلاف دہشت گردی کا سلسلہ رک جائیگا۔ چند روز قبل کابل انتظامیہ کی معذرت اور آئندہ ایسے واقعات نہ ہونے کی بارہا یقین دہانی کرانے کے باوجود افغان فورسز کی پاکستان کے اندر مسلسل جارحیت افسوسناک  ہے۔افغانستان کیلئے عالمی سطح پر پاکستان نے جو مخلصانہ کردار ادا کیا، بحالی امن اور انسانی المیے کے خاتمہ کیلئے جس طرح کوشاں رہا‘ اس تناظر میں امید تو یہی تھی کہ مستقبل میں کابل انتظامیہ کے پاکستان کے ساتھ مثالی تعلقات استوار ہونگے مگر اسکی جانب سے پاکستان کے ساتھ دشمنی والا رویہ اختیار کرلیا گیا اور باقاعدہ اس نے  پاکستان کی سلامتی پر حملے بھی شروع کر دیئے۔ افغان فورسز کے پے در پے حملے پاکستان کی اتھارٹی کو چیلنج کر رہے ہیں اس لئے کابل انتظامیہ سے محض رسمی احتجاج کے بجائے اس کیخلاف مؤثر اقدامات اٹھانا ہونگے اور باضابطہ طور پر یہ مسئلہ اقوام متحدہ میں اٹھانا ہوگا۔ بقول وزیر خارجہ اگر افغانستان میں  کالعدم ٹی ٹی پی نے محفوظ ٹھکانے تلاش کرلئے ہیں تو انکے خاتمہ کیلئے کابل انتظامیہ پر دبائو ڈالنا چاہیے۔ وزیر خارجہ اس وقت امریکہ کے دورہ پر ہیں اور یواین سیکرٹری جنرل سے بھی ملاقات کرچکے ہیں‘ انہیں وہاں  افغان فورسز کی جانب سے کی جانیوالی کارروائیوں کا معاملہ شدومد کے ساتھ اٹھانا چاہیے۔ کابل انتظامیہ کی معذرت کے باوجود افغان فورسز کی پاکستانی علاقوں میں بڑھتی کارروائیوں کے تناظر میں ہمیں بھی اپنی پالیسی پر نظرثانی کی ضرورت ہے جس کیلئے گزشتہ دنوں سینٹ کی قائمہ کمیٹی کے چیئرمین فاروق ایچ نائیک نے کی جانب سے تقاضا بھی کیا گیا ہے۔

ای پیپر دی نیشن