وزیراعظم شہبازشریف نے عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دینے کیلئے ضروری اقدامات اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سلسلہ میں گزشتہ روز اسلام آباد میں وزیراعظم کی زیرصدارت منعقد ہونیوالے مسلم لیگ (ن) کے مشاورتی اجلاس میں حکومت کی جانب سے ریلیف پر توجہ مرکوز کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ دوران اجلاس وزیراعظم شہبازشریف نے ہدایت کی کہ آئندہ سیاسی اجتماعات میں حکومتی معاشی اقدامات اور ریلیف کو اجاگر کیا جائے۔ انکے بقول اتحادی حکومت نے تباہ حال معیشت کو آکر سنبھالا‘ عمران خان کی پالیسیاں ملک کو سری لنکا جیسی صورتحال کی طرف لے جا رہی تھیں۔ وزیراعظم نے پارٹی قیادت کو ہدایت کی کہ ملک کے دیوالیہ ہونے کے حکومت مخالف بیانیے کی جتنا ہو سکے نفی کریں۔ انہوں نے نوجوانوں کو روزگار فراہمی پیکیج کی تیاری کیلئے وزارتوں کو ٹاسک دے دیا ہے۔ انکے بقول معاشی مشکلات اپنی جگہ لیکن عوام کی توقعات پر پورا اترنا ہے اور نوجوانوں کو مثبت اور تعمیری سرگرمیوں کی طرف لانا ہے۔ انہوں نے گیس اور بجلی کے بلوں میں بھی ریلیف کے اقدامات کی تجویز کرنے کی ہدایت کی اور پیکیج کی تیاری کیلئے وسائل کی فراہمی اور ایڈجسٹمنٹ کیلئے وفاقی وزیر خزانہ کو خصوصی ہدایات جاری کیں۔
بدقسمتی سے ہمارے ملک میں پوائنٹ سکورنگ اور بلیم گیم کی سیاست زیادہ فروغ پا چکی ہے۔ اپوزیشن اہل اقتدار کے پیچھے لٹھ لے کر پڑی ہوتی ہے اور اہل اقتدار کی ساری توانائیاں اپوزیشن والوں کو دیوار سے لگانے اور ان کیخلاف پرانے مقدمات نکال کر اور نئے مقدمات بنا کر ہر قسم کی سیاسی انتقامی کارروائیوں پر صرف ہو رہی ہوتی ہیں۔ وہ جن عوام کے ووٹوں کی طاقت سے اقتدار کا مینڈیٹ حاصل کرتے ہیں‘ اقتدار میں آکر وہ انہی عوام کو نہ صرف فراموش کر دیتے ہیں بلکہ اپنی مفاداتی پالیسیوں کے تحت انکے روٹی روزگار اور غربت مہنگائی کے مسائل بھی مزید بڑھا دیتے ہیں۔ عوام کیلئے آسودگی اور خوشحالی انکی ترجیحات میں شامل ہی نہیں ہو پاتی۔ عمران خان اپنے اپوزیشن کے دور میں سب سے زیادہ عوام کے روٹی روزگار کے مسائل‘ پٹرولیم مصنوعات اور بجلی گیس کے نرخوں میں بتدریج اضافہ اور آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدوں کو ہی فوکس کرکے اپنی سیاست چمکاتے اور بلند بانگ دعوئوں اور نعروں سے عوام کو ان گھمبیرمسائل اور آئی ایم ایف کے شکنجوں سے نجات دلانے کا یقین دلاتے رہے اور جب انہیں 2018ء کے انتخابات کی بنیاد پر اقتدار کا مینڈیٹ ملا تو پی ٹی آئی حکومت کی عوام کیلئے ترجیحات یکسر تبدیل ہو گئیں جس نے ملکی معیشت کو سنبھالنے کے نام پر نہ صرف آئی ایم ایف سے بیل آئوٹ پیکیج کیلئے رجوع کیا اور اسکی تمام ناروا شرائط بھی قبول کیں بلکہ ضمنی اور قومی میزانیوں میں عوام پر ٹیکسوں کے نئے بوجھ ڈالنے میں بھی کوئی کسر نہ چھوڑی۔ اسکے علاوہ حکومتی پالیسیوں کے باعث ملک میں روزگار کے مواقع بھی کم ہو گئے اور بے روزگاری کا طوفان برپا ہو گیا جبکہ وفاقی وزراء یہ تک بیان دیتے نظر آتے رہے کہ روزگار فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری نہیں۔ ان حکومتی پالیسیوں کے نتیجہ میں مہنگائی بھی آسمانوں سے باتیں کرتی رہی اور روزگار کے دروازے بند ہونے سے بھی ملک کے پڑھے لکھے نوجوانوں کو مایوسی و نامرادی کا سامنا کرناپڑا۔ خط غربت کی شرح بڑھتے بڑھتے عوام کو مستقبل کے اندھیروں کی جانب دھکیلنے لگی جبکہ پی ٹی آئی قائد اور وزیراعظم عمران خان نے خود اپوزیشن لیڈران کو چور ڈاکو کے الفاظ سے نوازتے ہوئے اور نیب کو انکے خلاف متحرک کرتے ہوئے انہیں دیوار سے لگانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ جس پر اپوزیشن جماعتوں کو بھی حکومت مخالف تحریک کیلئے باہم متحد ہونے کا موقع ملا اور عوام بھی اپنے مسائل کے حل سے مایوس ہو کر اپوزیشن کی اس تحریک کی جانب راغب ہوتے نظر آئے۔
اس سے بچنے کیلئے عمران خان نے بھی عوام کیلئے یوٹیلٹی سٹورز کے ذریعے مختلف ریلیف پیکیجز کا اعلان کیا مگر عوام کو ریلیف ملنے کے بجائے انکی مشکلات مزید بڑھ گئیں کیونکہ یوٹیلٹی سٹورز پر نہ صرف غیرمعیاری اشیاء رکھی جانے لگیں بلکہ عملاً ناپید بھی ہو گئیں۔ عمران خان کیخلاف اپوزیشن کی جانب سے عدم اعتماد کی تحریک لانے کا یہی پس منظر تھا جبکہ اپوزیشن قائدین نے بھی اس تحریک کو کامیاب بنانے کیلئے عوام کے غربت مہنگائی‘ بے روزگاری کے مسائل حل کرنے اور انہیں ریلیف دینے کے بلند بانگ دعوے کئے مگر جب عمران خان کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی کے بعد اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں اور اس سے باہر اپوزیشن جماعتوں بشمول پیپلزپارٹی اور اے این پی کو اقتدار میں آنے کا موقع ملا تو عوام کے مسائل کے فوری حل کے معاملہ میں حکمران اتحاد کے بھی ہاتھ پائوں پھول گئے چنانچہ نئی حکومت کی اقتصادی پالیسیوں اور آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کی تجدید کیلئے اٹھائے گئے اقدامات سے مہنگائی اور غربت مزید بڑھی تو عوام کیلئے ’’مرے کو مارے شاہ مدار‘‘ والی کیفیت پیدا ہو گئی۔
آج حکومت اور اپوزیشن کی باہمی چپقلش اور سیاسی محاذآرائی کے نتیجہ میں سیاسی اور اقتصادی عدم استحکام انتہاء کو جا پہنچا ہے اور عوام عملاً راندۂ درگاہ ہو چکے ہیں جنہیں روٹی روزگار کے بھی لالے پڑے ہوئے ہیں اور بے روزگاری کا عفریب بھی پڑھی لکھی نوجوان نسل کو مایوسی کے دلدل اور جرائم کے راستوں کی جانب دھکیل رہا ہے۔ اتحادی حکومت کے 9 ماہ کا عرصہ عوام کے غربت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری کے مسائل ناقابل برداشت حد تک بڑھانے کا ہی باعث بنا ہے جبکہ ملک کی معیشت بھی بدستور عدم استحکام کا شکار ہے جس کی بنیاد پر متعدد حکومتی اکابرین بھی ملک کے ڈیفالٹ کی جانب جانے کا عندیہ دیتے رہے ہیں۔ یہ صورتحال موجودہ حکمرانوں کیلئے عوامی نفرت کا لاوا پھٹنے پر ہی منتج ہو سکتی ہے اس لئے ملک میں بڑھتی مہنگائی اور غربت پر قابو پانے کا کوئی چارہ نہ کیا گیا تو موجودہ حکمرانوں کا بھی سابقہ حکمرانوں والے انجام سے دوچار ہونا بعیداز قیاس نہیں۔
یقیناً اسی تناظر میں وزیراعظم شہبازشریف نے عوام کو ریلیف دینے کیلئے متعلقہ وزارتوں کو مختلف پیکیجز تیار کرنے کی ہدایت کی ہے۔ اگر وزیراعظم کا یہ اعلان بھی پہلے کی طرح زبانی جمع خرچ ثابت ہوا جیسا کہ پٹرولیم مصنوعات میں گزشتہ روز آٹھ سے دس روپے تک فی لٹر کمی کے اعلان کے ساتھ ہی لیوی کی شرح میں اضافہ کرکے اس معمولی سے ریلیف کو بھی ناکارہ بنا دیا گیا ہے تو عوام کی جانب سے یقیناً پہلے سے بھی زیادہ سخت ردعمل سامنے آسکتا ہے۔ عوام کو مطمئن اور آسودہ کرنے کیلئے اب محض زبانی جمع خرچ سے کام نہیں چلے گا۔ حکمرانوں کے وعدوں اور دعوئوں کے ڈسے ہوئے عوام اب اپنے گھمبیر مسائل سے چھٹکارا کیلئے عملی اقدامات دیکھنا چاہتے ہیں جس کیلئے سلطانیٔ جمہور کے ثمرات براہ راست عوام تک پہنچانا ضروری ہے تاکہ اس پر عوام کا اعتماد برقرار رہ سکے۔