حافظ لدھیانوی:جدید نعت گو شعراء کا قافلہ سالار


حافظ سراج الحق(حافظ لدھیانوی)کا شمار ملک کے ممتاز نعت گو شعراء میں ہوتا تھا۔ پاکستان میں حمد و نعت کہنے والے شعراء میں حضرت حافظ لدھیانوی کو بلند مرتبہ حاصل تھا وہ جدید نعت گو شعراء کے قافلہ سالار سمجھے جاتے تھے۔ حافظ لدھیانوی کی رحلت سے شعروادب کی دنیا میں ایسا خلا پیدا ہوگیاہے جو کبھی پُر نہیں ہوسکیگا۔ میری ان سے پہلی ملاقات اس وقت ہوئی جب وہ ہمارے سکول میں قومی بچت کی اہمیت و افادیت پر لیکچر دینے آئے تھے۔
 مجھے یاد ہے کہ ان کا لیکچر ختم ہونے کے بعد میں انہیں سکول سے باہر تک چھوڑنے گیا اور میں نے ان سے اپنا تعارف بھی کرایا کہ میں ٹوبہ ٹیک سنگھ میں کئی اخبارات کا نامہ نگار ہوں۔ 
حافظ صاحب ڈسٹرکٹ سیونگز آفیسر سے ترقی کرکے ڈویژنل سیونگز افسر سرگودھا ڈویژن مقرر ہوگئے۔ وہ پاکستان کے طول و عرض میں ہونے والے مشاعروں میں شرکت کرتے اور اپنے سفر کے دوران قرآن پاک ان کے ورد زبان رہتا، وہ سالہا سال تک باقاعدگی سے رمضان کے مہینے میں تراویح پڑھاتے رہے، ان کی سرکاری ملازمت عبادات میں ان کے ذوق و شوق پر اثر انداز نہ ہوئی اور اپنے دینی میلان اور رجحان کے باعث حافظ صاحب نے غزل گوئی ترک کرکے حمد و نعت کو ہی اپنی شاعری کا مرکز و محور بنالیا اور اس میدان میں ان کی دلچسپی کا عالم یہ رہا کہ انہوں نے اپنے 26 مجموعہ ہائے نعت ہمارے لئے چھوڑے ہیں۔ شاید پاک و ہند میں کسی دوسرے شاعرکو یہ اعزاز حاصل نہیں ہے۔
حافظ لدھیانوی ان سطور کے راقم پر ہمیشہ مہربان رہے، اپنے مجموعہ ہائے کلام عام طور پر مجھے ارسال فرماتے رہے، ’’جرأت‘‘ کے مطالعہ سے ان کو رغبت رہی اور اگر کسی وجہ سے اس کی ترسیل میں تعطل پیدا ہوتا تو خط لکھ کر دوبارہ جاری کراتے جب بھی لاہور تشریف لاتے کہیں نہ کہیں سے فون پر ضرور رابطہ کرتے اور پیار و محبت اور ہمت و حوصلہ کے کلمات سے نوازتے، کئی بار ’’تجارت و جرأت‘‘ کے دفتر میں بھی تشریف لائے۔
حافظ صاحب سے آخری ملاقات راولپنڈی میں پشاور روڈ پر ڈائیوو بس کمپنی کے ٹرمینل پر ہوئی جہاں وہ قائد اعظم یونیورسٹی میں اپنے ایک دوست پروفیسر کے ساتھ گاڑی کا انتظار کررہے تھے۔ پہلے سے کہیں زیادہ پُر نُور چہرہ، نُورانی داڑھی اور سفید قمیض شلوار نے ان کو نُور کے ہالے میں ڈھال دیا تھا۔ ہاتھ میں پکڑی چھڑی ان کے بڑھاپے اور نقاہت کی گواہی دے رہی تھی لیکن یہ تصور ہرگز نہ تھا کہ حافظ صاحب سے یہ آخری ملاقات ہو رہی ہے۔
 میں نے اس ملاقات کے دوران حضرت مجدد الف ثانیؒ کی حیات مبارکہ پر مرتب کردہ کتاب ’’شیخ سرہند‘‘ کا تذکرہ کیا اور انہیں بتایا کہ میں اپنی یہ کتاب انہیں بھیج چکا ہوں اور جب وہ راولپنڈی سے فیصل آباد واپس جائیں گے تو کتاب ان کی منتظر ہوگی۔
حافظ صاحب نے ’’شیخ سرہند‘‘ کے مطالعہ کے بعد اپنے تاثرات سے ایک مکتوب گرامی کی صورت میں نوازا، اُن کا یہ خط میرے لئے ایک نادر تحفہ کی صورت اختیار کرگیا، میں اپنے قارئین کو بھی اس مکتوب کے مطالعہ میں شریک کرنا چاہتا ہوں، لیجئے ملاحظہ فرمائیے سرہند اورشیخ سرہند کے بارے میں حضرت حافظ لدھیانوی کے تاثرات۔
’’ محترم جمیل اطہر صاحب،
السلام علیکم
آپ کا نایاب تحفہ بعنوان ’’شیخ سرہند‘‘ ملا، آپ کی تحریر نے فصاحت اور پرانی تاریخ کے نادر اور انمول نمونے پیش کئے ہیں۔ مجدد الف ثانی نوراللہ مرقدہ کی ان تھک کوششیں، استقامت اور ان کی خدمات بلا شبہ لاثانی ہیں، ایک ایک صفحہ ماضی کے دور کی یادگار ہے۔ آپ نے کتاب تحریر کرکے بخشش کا سامان مہیا کرلیا ہے۔
مجھے بھی سرہند شریف کے عُرس میں شرکت کا فخر حاصل ہے۔ 
بڑے بڑے نامور قراء ہندوستان بھر سے شرکت کے لئے آتے تھے، ناظم اشارے سے قرأت کی دعوت دیتا تھا۔ قرآن مجید کی تلاوت رُوحوں کو ایمان کی لذت اور دلوں کو نورِ الٰہی سے منور کرتی تھی، میرے ہم سفر مولانا خان محمد خانقاہ سراجیہ کندیاں کے مہتمم بھی تھے، یہ چند دن زندگی کے حسین لمحے، زندگی کے چند لمحے روح کی تازگی کا سبب بنتے ہیں۔
آپ نے ’’شیخ سرہند‘‘ مرتب کرکے ایک بہت بڑا کام کردیا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اجرِ عظیم عطا فرمائے، خواجہ باقی اللہؒ نے مجدد صاحب کی تربیت اس طرح کی ہے کہ دورِ اکبر آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے اُس دور میں علمائے حق نے دین کی عظمت کے لئے قربانیاں دی ہیں ان میں مجدد صاحب کا نام نمایاں ہے اگر یہ بزرگ نہ ہوتے تو دین بر حق کا اصلی صورت میں برقرار رہنا اور (اپنے ایمان کا غیر اسلامی روایات سے تحفظ) مشکل تھا۔
آپ کی تحریر میں ایک لگن، مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ سے وابستہ عشق دکھائی دیتا ہے۔زندگی میں ایسا کوئی دینی کام کیا جائے جو آخرت میں سُرخ روئی کا سبب بن جائے۔
آپ کو اس کتاب کی تصنیف پر مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ ان بزرگانِ دین کا فیض آج بھی جاری و ساری ہے مجھے کچھ ذہنی پریشانی تھی۔ میں نے خواجہ باقی اللہؒ اور مجدد الف ثانیؒ کے واسطے سے خداوند کریم کے حضور دعا کی۔ الحمد للہ ان بزرگوں کی وساطت سے وہ ذہنی پریشانی رفع ہوگئی۔
آپ نے اس کارِخیر میں مجھے بھی شامل کرلیا۔ میں آپ کا ممنون ہوں۔
ساری عمر غزل کہی پھر 1965ء میں نعت کی طرف رجحان ہوا اس کے بعد غزل کا ایک شعر بھی نہیں کہا اس کے پیچھے ایک دلچسپ واقعہ ہے جو ملاقات کے وقت زبانی عرض کروں گا۔
(افسوس صد افسوس کہ یہ ملاقات نہ ہوسکی، جمیل اطہر)
مزاج اور مذاق بدلتے دیر نہیں لگتی آپ ہی دعا فرمائیں کہ میرا کوئی شعر بارگاہ ایزدی اور دربارِ رسالت میں منظور و مقبول ہوکر نجات کا سبب بنے اللہ تعالیٰ کا مجھ پر خاص کرم ہے آپ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ 26 نعتیہ دیوان شائع ہوچکے ہیں تین حمدیہ دیوان میرا اثاثہ ہے، دامن نیکیوں سے خالی ہے، اگر محبوب الٰہی کی نعت قبول ہوگئی تو آخرت میں نجات کا سبب بنے گی ’’انشاء اللہ‘‘
 شکر گزار ہوں کہ آپ نے یہ نادر تحفہ مجھے عنایت کرکے بے حد کرم کیا اللہ تعالیٰ آپ کو جزا دے۔ دعا گو    
حافظ لدھیانوی
اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا ہے کہ محترم حافظ لدھیانوی کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے اور ہمیں ان کے اوصافِ حمیدہ کی پیروی کی توفیق عطا فرمائے… آمین
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن