دسمبر کا مہینہ دنیا بھر میں مختلف حوالوں سے منایا جاتا ہے۔ اسے برف باری کی خوبصورتیوں سے مزین کر کے بیان کیا جاتا ہے تو کہیں اس کا یخ بستہ ماحول دلوں میں حسین یادوں کے دریچے کھولتی ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کے صاحب ِ دانش لوگوں کے لیے دسمبر اپنی جھولی میں ناخوشگوار یادوں پہ سفر کرتی ٹھنڈی ہوائیں لے کر آتا ہے جن میں شکوے، طعنے، اداسیاں اور رنجشیں لپٹی ہوتی ہیں۔ پہلے 16 دسمبر سقوطِ ڈھاکہ، بے نظیر بھٹو کا قتل اور پھر پشاور میں معصوم بچوں کے خون سے جو ہولی کھیلی گئی۔ یہ سب ایسے زخم ہیں جو پاکستانی قوم شاید ہی بھول سکے۔ یہ تینوں سانحات تاریخ کے سینے پر رقم ایسے المناک واقعات ہیں ہے جو ہر سال نظریے کی بنیاد پر حاصل کیے گئے ملک کے باسیوں کے ساتھ ساتھ تمام نظریاتی لوگوں کے سامنے ایک سوال بن کر کھڑا کرنے لگتے ہیں۔ یہ ایسے سوال جن کے جواب جنھیں معلوم کرنا ساری قوم چاہتی ہے ،لیکن کیا کیجیے ان سارے واقعات کے پیچھے ہماری اجتماعی بے پروائیاں اورغفلت کی ایسی کہانیاں سنائی دیتی ہیں کہ سب کچھ سامنے ہونے کے باوجود یہ سوالات اپنے جامع جوابات سے محروم ہی رہیں گے۔ یہ مان لیا گیا ہے کہ ذمہ داروں کے پاس ان سوالات کے جواب نہیں ہیں اور اگر ان سے جواب مل بھی جائیں تو کیاان زخموں کا مداوا ہوسکتا ہے جواب ہوگا کہ بالکل بھی نہیں۔ لیکن ان سوالات کے جوابات اگر سامنے آجائیں ،شفاف تحقیقات سے ملزموں کو کیفر کردار تک پہنچا دیا جائے تو مستقبل میں ملکی حالات یقینا بہتر کیے جا سکتے ہیں۔
بہرحال دسمبر کے اس سرد مہینے کے ساتھ شعر و ادب کے حوالے بہت سی اداس یادیں وابستہ ہیں کہ جب بھی دسمبر آتا ہے یہ اداسی اور بڑھ جاتی ہے اور وہ ایک ہی دن تھا، اور دو بڑے شاعر منیر نیازی اور پروین شاکر سال اگر چہ مختلف تھے مگرایک ہی تاریخ اس فانی دنیا کو الوداع کہہ گئے، 26 دسمبر جب اردو کی بے پناہ خوبصورت اور بے مثال شاعرہ پروین شاکر جس نے نہ صرف اردو شاعری کو نیا لب و لہجہ دیا اور نسوانی جذبات و احساسات کو دلفریب انداز میں رقم کر کے شاعری کو محبوبیت عطا کی بلکہ پروین شاکر کی وجہ سے نوجوان شعرا ء خاص طور پر خواتین شاعرات کی ایک نسل شاعری کی طرف مبذول ہوئی اور انھوں نے اس کے لفظوں کو تعویذوں کی طرح دل پر باندھا اور احساس سے جوڑا۔
پروین شاکر کو خدا نے کم عمر عطا کی تھی اس لیے اس نے بہت جلد ادبی سفر کا آغاز کر لیا تھا کیوں کہ جتنا کام اس کے ذمے تھا اس کی تکمیل بھی ضروری تھی۔ اس نے بیس اکیس سال کی عمر میں ایم اے انگلش کر لیا۔ 26 سال کی عمر میں اس کی شہرۂ آفاق کتاب خوشبو منظرِ عام پر آ گئی بلکہ دنیا بھر میں ایسی مشہور ہوئی کہ لوگوں نے اس کتاب کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔ وہ جو شعر شناس اور وہ جو شعر و ادب سے سرسری تعلق رکھتے تھے سب نے اس کی شاعری سے اثر کشید کیا بلکہ اگر یہ کہا جائے تو بالکل غلط نہ ہوگا کہ پروین شاکر کی شاعری نے لوگوں میں شعری ذوق پیدا کرنے میں خاصی مدد کی۔ 42 سال کی عمر میں وہ اس دنیا سے رخصت ہوئیں تو ہر سو جان لیوا کرب کا عالم تھا لیکن ان کے جانے کے بعد ان کے چاہنے والوں نے ان کے شعروں کی طرح ان کی یادوں کو اوجھل نہیں ہونے دیا۔ شعروں کے ساتھ ان کا حوالہ بھی موجود رہا۔ہر سال ان کی یوم پیدائش اور یوم وفات پر ملک بھر میں تقریبات کا ایک سلسلہ چلتا ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستانی نہ صرف باذوق ہیں،اچھا کلام سننا چاہتے ہیں بلکہ اچھے شعرا ء کو خراج تحسین پیش کرنے میں بھی اپنی مثال آپ ہیں۔
گو منیر نیازی کو اس دنیا سے رخصت ہوئے کافی سال ہوچکے ہیں لیکن آج ہم کسی ادبی محفل میں جائیں تو کہیں نہ کہیں سے منیر نیازی کے چاہنے والوں سے ملاقات ہوجاتی ہے ۔جس سے اندازہ ہوتاہے کہ لوگ منیر نیازی سے واقعی دِلی محبت کرتے ہیں اور جن سے محبت ہو وہ ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔ منیر نیازی ایک زندہ دل شخص تھا، اپنے جمال اور خیال میں ڈوبا ہوا، دنیا اس کی نظروں کے اندر تھی، منافقت اور ریاکاری سے کوسوں دور، سرکار اور دربار سے ناآشنا اپنی بکل میں خوش رہنے والا منیر نیازی دِلوں پر حکومت کا فن جانتا تھا۔حکومت کو چاہیے کہ اس بڑے شاعر کے مناسبت سے ہر سال سرکاری تعلیمی اداروں میں شعر و ادب سے جڑی تقریبات منعقد کروانے کی کوشش کیا کرے۔اس سے اس کے چاہنے والوں کو خوشی ہو گی اور ہماری نئی نسل اپنے عظیم لکھاریوں کو سلام کرتی گزرے گی تو ان کا فن، زبان اور ثقافت انھیں اپنی طرف ضرور کھینچے گا۔
دسمبر کے انھی سرد دنوں دنیائے ادب کے عظیم ترین اردو دان، اردو ادب کے بے تاج بادشاہ اور سخنوروں کے شہنشاہ نجم الدولہ، دبیر الملک، مرزا اسد اللہ خان غالب المعروف مرزا نوشہ 27 دسمبر 1797ء میں آگرہ میں پیدا ہوئے۔ کچھ لوگ تو کہتے ہیں کہ دسمبر کا مہینہ اردو کے شعراء کے بابا آدم کی پیدائش کا مہینہ ہے۔ مرزاغالب اردوزبان کے سب سے بڑے شاعرمانے جاتے ہیں۔ غالب کی عظمت کا راز صرف ان کی شاعری کے حسن اور بیان کی خوبی ہی میں نہیں ہے۔ ان کا ا صل کمال یہ ہے کہ وہ ز ندگی کے حقائق اور انسانی نفسیات کو گہرائی میں جاکر سمجھتے تھے اور بڑی سادگی سے عام لوگوں کے لیے بیان کردیتے تھے۔وہ خود کہتے ہیں کہ
ہیں اور بھی دنیا میں سخن ور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے اندازِ بیاں اور
اب دسمبر کے آتے ہی سارے ملک کے لوگ اداسی کا چوغا اوڑھ کے دکھی شاعری کہنا اور سوشل میڈیا پر پوسٹ کردیتے ہیں۔یو ں کہا جاسکتا ہے کہ دسمبر سے منسلک اداس یادوں میں کچھ ملکی واقعات کا عمل دخل ہے تو کچھ لوگوں کو جانے انجانے میں اپنے شعراء کی محبت دکھی شعر کہنے پہ مجبور کرتی ہے ۔