ایک یادگار علمی اور ادبی مجلس

قصہ مختصر:پروفیسر سجاد قمر 
زمانے نے ترقی تو بہت کی ہے لیکن اس ترقی نے جہاں ہمیں بہت کچھ فراہم کیا ہے وہاں بہت کچھ چھین بھی لیا ہے۔ایک زمانہ تھا کہ ہر جگہ علمی اور ادبی مجالس ہوتی تھیں۔نقد و نظر ہوتی تھی۔لیکن الیکٹرانک میڈیا نے ہم سے یہ سب کچھ چھین لیا۔ایک زمانہ تھا جب زمانہ طالب علمی میں ہم ریڈیو پاکستان پر پروگرام کوئی پروگرام یا گفتگو کرنے جاتے تھے تو میاں ثناء￿ اللہ اور ان جیسے دوسرے اساتذہ ایک ایک لفظ کو بغور سنتے اور جہاں بھی کوئی غلطی ہوتی، ریکارڈنگ روک کر فوری اندر آتے اور صحیح لفظ بتا کر پھر ریکارڈنگ کرتے۔اب تو یہ حال ہے کہ الیکٹرانک میڈیا پر  وہ اینکر پرسن جن کی دھومیں مچی ہوئی ہیں۔ان کا تلفظ غلط ہوتا ہے۔ان کی تاریخی ،قومی اور اسلامی معلومات گوگل کی مرہون منت ہیں۔گوگل نے جو کچھ لکھا ہے وہ من و عن بیان کر دیتے ہیں۔چاہے اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہ ہو۔
سابق وزیر اعظم آزادکشمیر سردار تنویر الیاس خان مبارک باد کے مستحق ہیں کہ اس گلے سڑے دور میں انھوں نے اپنی ہاوسنگ اسکیم  تاج ریذیڈینشیا میں ملک کے نامور صحافی ،دانشور اور کالم نگار مجیب الرحمن شامی کے اعزاز میں ایک تقریب پذیرائی رکھی۔اور اس تقریب کا کمال یہ تھا کہ سینیئر صحافی نذیر لغاری کراچی سے تشریف لائے۔نصراللہ ملک،یاسر شامی اور مظہر برلاس لاہور سے رونق افروز ہوئے۔شکیل ترابی،محسن خان،عائشہ مسعود نے  اسلام آباد سے اس محفل کو چار چاند لگائے۔
سردار تنویر الیاس خان نے بجا طور پر کہا ہے کہ شامی صاحب کسی ایوارڈ کے محتاج نہیں بلکہ یہ اس ایوارڈ  اور تقریب کا اعزاز ہے جو ان کے لیے منعقد ہو رہی ہے۔اور ہم خوش بخت ہیں کہ ہم مجیب الرحمن شامی کے عہد میں جی رہے ہیں۔ شامی صاحب کے قلم میں جہاں کاٹ ہے وہاں پر ان کی تحریروں میں علمی ،ادبی اور تاریخی چاشنی بھی ہوتی ہے۔سچ تو یہ ہے کہ شامی صاحب خود ایک عہد ہیں۔
پیدا کہاں ایسے پراگندہ طبع لوگ
افسوس تم کو میر سے صحبت نہیں رہی۔
سردار تنویر الیاس خان سے اگرچہ ہماری پرانی نیاز مندی ہے۔اعجاز درانی صاحب کے ساتھ ان سے ملاقاتیں ہوتی رہتی تھیں اور پھر ہمارے مشترکہ دوست سردار اعجاز احمد جعفر جو اس وقت بلوچستان میں وزیر ہیں ان کے ساتھ بھی ملاقاتیں رہیں۔لیکن میرے لیے حیرت کا باعث یہ ہوا کہ ایک شخص جو عمر کا زیادہ حصہ تعمیراتی شعبہ سے وابستہ رہا ،اس کے ساتھ اگر آپ بیٹھیں تو سارا دن اور رات گزر جائے۔آپ بور نہیں ہوں گے۔اگر بات صحافت کی ہو رہی ہے۔تو شورش کاشمیری ،حمید نظامی ،مجید نظامی ،میر خلیل الرحمٰن، ہر ایک کے بارے میں ایسے بات کرتے ہیں جیسے وہ ان کے سامنے ہوں۔رائٹرز گلڈ کو آج کی نسل جانتی ہی نہیں لیکن سردار تنویر اس سے لے کر صحافیوں کی ہر تنظیم اور ان کی خدمات کو جانتے ہیں۔کون گوگل سے استفادہ کرتا ہے اور کون اپنے علم و فضل کے موتی بکھیرتا ہے۔آپ ان سے سن سکتے ہیں۔اسلام کا قانون شہادت اور گواہی کے کیا معیارات ہیں۔قانون کا طالبعلم ان سے آسانی سے سیکھ سکتا ہے۔بیرونی دنیا سے سرمایہ کاری کسیے ممکن ہے ،یہ انھوں نے پنجاب بورڈ آف انویسٹمنٹ کی چئیرمین شپ میں عملی طور پر کر کے دکھایا۔ آزادکشمیر کے جب وزیراعظم تھے تب ان سے جو ملاقات ہوئی تھی اس میں انھوں نے تفصیل سے بتایا تھا کہ تعلیمی، زرعی،جنگلات کے شعبوں کو وہ کس طرح جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کر رہے ہیں۔ان کی تحقیق تھی کہ آزادکشمیر کے ہر سرکاری اسکول میں پڑھنے والے ایک بچے پر قریب پچاس ہزار روپے خرچ ہوتے ہیں۔لیکن اس کا نتیجہ یہ ہے کہ بچے بمشکل پاس ہوتے ہیں۔ان کا منصوبہ تھا کہ  نجی شعبے اور دیگر اداروں کے ساتھ مل کر ہر ڈویڑن میں کم از کم دس اور پھر زیادہ ماڈل اسکول بنائے جائیں۔
جنگلات کے کروڑوں روپے کے ریسٹ ہاوس بیکار پڑے ہیں۔ان کو قابل عمل اور آمدن کا ذریعہ بنایا جائے۔
غرض انجنئیر نگ سے لے لے انفارمیشن ٹیکنالوجی تک کوئی بھی شعبہ ہو اور اس کا ماہر ان کے سامنے بیٹھا ہو  تو اس کے لیے لاجواب ہونے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں رہے گا۔
بہر حال بات دور نکل گء  ،یہ ان کا کمال ہے کہ انھوں نے ایک خوبصورت علمی ادبی محفل سجائی اور اس میں ہر نقطہ نظر کے صحافیوں اور ملک کے دیگر عمائدین ذوق وشوق سے شریک ہوئے اور پوری دلجمعی سے کاروائی سنی۔یاسر شامی کا کمال ہے کہ انھوں نے بڑے خوبصورت انداز میں تقریب کو چلایا۔
مجیب الرحمن شامی اس عہد کے لیجنڈ ہیں۔آج جس مقام پر وہ ہیں یہ اتنی آسانی سے ان کو نہیں ملا۔
فیض آتے ہیں راہ عشق میں جو سخت مقام 
آنے والوں سے کہو، ہم تو گزر جائیں گے
مجیب الرحمن شامی صاحب سے میرا پہلا تعارف قومی ڈائجسٹ ہے جو میں نے پرائمری اسکول کے زمانے میں پڑھا اور اس میں جو پہلا مضمون پڑھا ور کرنل اشفاق جنٹلمین والے کا " باکمال لوگ اور لاجواب پرواز" تھا۔اس کے بعد یہ غائبانہ تعلق مسقل رہا اور پھر ہمارے مشترکہ دوست تنویر قیصر شاہد اور پھر ابراہیم حسن مراد کے ساتھ ملاقاتیں اور مجلسیں بھی رہیں۔شامی صاحب بھی مجلس کے آدمی ہیں۔اور ان کے پاس اتنا علم ہے کہ وقت ختم ہو جائے علم ختم نہیں گا۔علم کا رعب نہیں جماتے،بڑی نرمی ،پیار اور فصاحت و بلاغت کے ساتھ بات کرتے ہیں۔
وہ کہیں اور سنا کرے کوئی 

عرض کر رہا تھا کہ شامی صاحب نے اس دور میں اپنا لوہا منوایا جب آدھے آدھے اخبارات سنسر کی نذر ہو جاتے تھے۔آخری وقت پر قینچی سے پورے پورے اداریے ،مضامین اور خبریں کاٹ دی جاتی تھیں۔ایک طرف درہم و دینار اور دوسری طرف قید تنہائی اور جیلیں تھیں۔کہنا آسان ہے لیکن عمل کرنا بہت ہی مشکل ہے۔شامی صاحب نے دوسرا راستہ اختیار کیا۔قید و بند کی صعوبتوں سے گزرے۔مشکلیں برداشت کیں۔لیکن اس سب کچھ نے ان کو کندن بنا دیا۔
آج اگر شامی صاحب کے اعزاز میں منعقدہ تقریب میں مختلف نقطہ نظر کے احباب آئے تو یہ دراصل ان کی جدوجہد کو سلام تھا۔سردار تنویر الیاس خان نے بجا کہا کہ میں ان سب کو سیلوٹ کرتا ہوں جو اس محفل کا حصہ بنے۔
ہم ایک مردہ پرست قوم ہیں۔جب تک کوئی زندہ ہوتا ہے ہم اس کو پوچھتے ہی نہیں۔لیکن جب وہ چلا جائے اس کے مزار پر مجاور بن کے اس کے وہ وہ قصیدے بیان کرتے ہیں۔جو وہ خود تک نہیں جان سکا۔
سردار تنویر الیاس خان مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انھوں نے یہ خوبصورت قدم اٹھایا اور شامی صاحب کے اعزاز میں ایک بہت خوبصورت اور یادگار تقریب منعقد کی۔امید کی جاتی ہے کہ یہ سلسلہ جاری رہے گا۔
سردار تنویر الیاس خان نے ایک کمال اور بھی کیا کہ اہل قلم کے لیے رعایتی قیمت اور قسطوں میں پلاٹس کا بھی اعلان کیا۔جس کی ترتیب تاج کے کرتا دھرتا فہد فرید صحافی بھائیوں سے مل کر طے کریں گے۔
سردار تنویر خان کی سرپرستی میں تعلیمی میدان میں انقلابی اقدامات کا آغاز کیا گیا ہے۔احقر بھی اس کا ایک اہم حصہ ہے۔اور یہ اقدامات پورے ملک پر اثر ڈالیں گے۔اس کی تفصیل پھر انشاء￿ اللہ
سرادر تنویر ایک نہ صرف فکری بلکہ عملی آدمی ہیں۔اور ان کے صلاحیتوں سے ریاست کے ڈائنامکس تبدیل ہو سکتے ہیں۔
یاسر عارف کا ذکر نہ کرنا زیادتی ہو گی کہ انھوں نے اس تقریب کے انعقاد میں پوری دلجمعی سے کام کیا۔

ای پیپر دی نیشن