سموگ ایک بڑا روگ

فیض عالم:قاضی عبدالرئوف معینی
ایک زمانہ تھا جب جب موسم سرما کے ساتھ ہی  دھندیعنی فوگ کا راج شروع ہوجاتا تھا۔شدید سردی میں دھند کا چھا جانا فطری عمل ہوتا ہے۔عام طور پر دھند کے انسانی صحت پر مضر اثرات مرتب نہیں ہوتے۔دھندکسی حد تک سفر میں رکاوٹ ضرور پیدا کرتی ہے۔گزشتہ چند سالوں سے ہماری سماعتیں ایک نئی اصطلاح سے متعارف ہوئیں۔چندسال قبل جب ہماری آنکھیں جلن کی صورت میں ایک نئی تکلیف میں مبتلاہونا شروع ہوئیں اور پھیپھڑے ایک نئی آفت کا شکار ہوئے تو پتا چلا کہ ایک نیا عذاب اس بدقسمت قوم پر مسلط ہو گیا ہے جس کا نام سموگ ہے ۔سموگ زہریلے دھوئیں یعنی سموک اور دھند یعنی فوگ کے خطرناک گٹھہ جوڑ کا نام ہے۔لگتا ہے کہ سموگ اب ارض پاک کا مستقل حصہ بن گئی ہے اس لیے تو شاعروں اور ادیبوں نے اس کو کلام میں بھی شامل کرنا شروع کر دیا ہے ۔
ہاواں ہو کے روگ  بنڑے نے 
ایہہ ای تے سموگ بنڑے نے
کالک ساری رہڑ جاوے گی
دعاواں دا بس سیک جے ہووے  
سب آس پاس تھے لیکن نظر نہیں آئے 
تعلقات پر اتنی سموگ چھائی رہی 
ملک عزیز کے پیشتر حصوں میں سموگ کی شدت حکومت اور انتظامیہ کی نااہلی،غفلت اور غیر سنجیدگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔سیانے کہتے ہیں کہ
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
یہ ماحولیاتی عذاب ایک دن کی پیداوار نہیںبلکہ پون صدی کی نااہلیوں اور بد انتظامیوں کا نتیجہ ہے۔رواں سال جب سموگ نے پر پھیلائے تو حکومت پنجاب کے دانشوروں نے بڑے دانشمندنہ فیصلے صادر فرمائے۔سب سے اہم اور بڑا فیصلہ دھواں پیدا کرنے والے تمام تعلیمی اداروں کی بندش کا تھا۔اس کا فائدہ یہ ہوا کہ تمام طالب علم گھروں میں دبک کر بیٹھ گئے اور فضائی آلودگی میں قابل ذکر کمی دیکھنے میںآئی۔رہی سہی کسر شاہراہ قائداعظم پر لگائے جانے والے بینروں اور فلیکسوں نے نکال دی ۔قریب رھا کہ  سرکاری کاغذات میں سموگ کا مکمل خاتمہ ہو گیا ہوتالیکن برا  ہوعالمی اداروں کے اعدادو شمار کا جو ہوبڑھتے ہوئے ایئرکوالٹی انڈیکس کے حوالے سے  باغوںاور پارکوں کے شہر لاہورکو دنیا کے آلودہ شہروں میں پہلے نمبر پر رکھنے پر تلے ہوئے ہیں ، بہتی ناکوں اور چیختے پھیپھڑوں کا جو چغلی کھا رہے ہیں کہ یہ بلا ابھی ٹلی نہیں۔ امسال شاہراہ قائداعظم لاہور پرکمشنر لاہور ڈویژن کی طرف سے آویزاں فلیکس میں ایک خوش کن نعرہ ’’ سائیکل سواری ‘‘ کو فروغ دینے کے حوالے سے بھی تھا۔کتنی افسوس ناک اور مضحکہ خیز صورت حال ہے کہ آپ عوام کو ایسے کام کرنے کا مشورہ دیں جس پر آپ خود عمل نہ کرتے ہوں۔چاہیے تو یہ تھا کہ کمشنر صاحب اعلان فرماتے کہ وہ اور ان کے دفتر کا عملہ سرکاری گاڑیاں واپس کر دے گااور آئندہ سائیکل پر دفتر آیا کریں گے۔کوئی ان بزرجمہروں کو بتائے کہ یہ مصیبت نعروں سے ٹلنے کی نہیں اس کے لیے دیانت داری سے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔فضائی آلودگی تعلیمی اداروں سے پیدا نہیں ہوتی بلکہ اینٹوں کے بھٹوں، فیکٹریوں اور گاڑیوں سے پیدا ہوتی ہے۔ان کو بند نہیں کرنا چاہیے ان سے خارج ہونے والے دھوئیں کو کم کرنا چاہیے۔یہ کام سائنس اور ٹیکنالوجی سے ممکن ہے جس سے ملک عزیز بہت دور ہے۔یہ ذمہ داری محکمہ ماحولیات کی بھی ہے لیکن اس محکمہ کاعملہ صرف تنخواہیں لینے اور صنعتوں کے مالکان سے دیہاڑیاں لگانے میں مگن ہے۔دھواں چھوڑتی گاڑیاں شہریوں کے لیے مسلسل عذاب بنی ہوئی ہیں ۔محکمہ ٹرانسپورٹ کا کام ناکارہ گاڑیوں کو سڑکوں پر آنے سے روکنا ہے۔یہ راز کسی کو معلوم نہیں کہ کون ان گاڑیوں کے مالکان کو فٹنس سرٹیفکیٹ جاری کرکے دے رہاہے۔ملک خداداد میں پبلک ٹرانسپورٹ نہ ہونے کے برابر ہے۔ہر فرد اپنی ذاتی سواری استعمال کرنے پر مجبور ہے جس کی وجہ سے ٹریفک کا اژدہام ہے جو فضائی آلودگی کا یک بڑا سبب ہے۔حکومت کو چایئے کہ فوری طور پر بڑے شہروں میں پبلک ٹرانسپورٹ کا مربوط نظام متعارف کراوئے  تاکہ ٹریفک کا دبائو کم ہو۔ٹریفک کے بہائو میں ایک بڑی رکاوٹ تجاوزات کی بھر مار ہے ۔یہ تجاوزات میونسپل کارپوریشنز کے ملازمین کی ملی بھگت کے بغیر ممکن نہیں۔افسران بالا کی اس حوالے سے چشم پوشی کئی سوالات اٹھا تی ہے ۔سڑکوں کی خستہ حالت بھی گردو غبار کی صورت میں فضائی آلودگی میں اپنا حصہ دال رہی ہے ۔اس کا بہترین مظاہرہ  للہ انٹرچینج سے جہلم شہر کی شاہراہ پر کیا جا سکتا ہے ۔جہاںایک سو بیس کلو میٹر کے علاقہ میں چوبیس گھنٹے گردو غبار کے بادل تین سالوں سے چھائے ہوئے ہیں۔گزشتہ چند سالوں سے فصلوں کی باقیات کو جلانے کی رسم رواج پا رگئی ہے۔اس عادت بد کی وجہ سے نہ صرف فضائی آلودگی میں اضافہ ہو رہا ہے بلکہ اس کے دھوئیں سے ہر سال موٹر وے اور بڑی شاہراہوں پر خطرناک حادثات بھی ہو رہے ہیں۔یاد رکھیں اگر سموگ کے خاتمہ کے لیے ٹھوس اقدامات نہ کیے گئے تو کوئی امیر یا غریب ،ادنیٰ یا اعلیٰ اس بلا سے محفوظ نہیں رہے گا۔

قاضی عبدالرئوف معینی 

ای پیپر دی نیشن