”تجھے اے جگر مبارک یہ شکستِ فاتحانہ“

چلیں مقابلہ بازی میں ہی سہی یا ایک دوسرے کے خوف سے ہی سہی‘ ہمارے قومی‘ سیاسی اور حکومتی قائدین نے درست سمت کی جانب قدم اٹھا تو لیا ہے‘ قومی غیرت کے تقاضوں کی پاسداری کا آغاز تو کردیا ہے‘ ملکی قوانین کے احترام کی روایت ڈال تو دی ہے اور اپنی خارجہ پالیسی میں غلامی کا چلن نکالنے کی سوچ تو پیدا کر دی ہے‘ ورنہ تو اوباما نے خود میڈیا کے پاس آکر اپنے بدمعاش اور قاتل ریمنڈ کیلئے پاکستان سے جس تضحیک آمیز لہجے میں ویانا کنونشن والا سفارتی استثنیٰ طلب کیا اور ساتھ ہی اپنی حکمران ڈیموکریٹک پارٹی کے معتبر سینیٹر جان کیری کو ریمنڈ کیلئے ڈھال بنا کر پاکستان بھجوایا‘ اگر فوزیہ وہاب جیسے ایک دو اور موقف حکمران پیپلز پارٹی کی جانب سے آگئے ہوتے تو کیری اپنے سرکاری سانڈ ریمنڈ کو ”کیری“ کرکے اپنے ساتھ امریکہ لے جا چکا ہوتا۔
کیا اس حقیقت کو جھٹلایا جا سکتا ہے کہ اس ساری امریکی چڑھائی کا موقع ”وَکھی“ سے بولنے والی پیپلز پارٹی کی ترجمان فوزیہ وہاب نے فراہم کیا تھا‘ جنہوں نے قومی مفادات اور قوم کے جذبات کی بھی پرواہ نہ کرتے ہوئے ریمنڈ کو ویانا کنونشن اور پاکستانی قوانین کے تحت سفارتی استثنیٰ حاصل ہونے کا فتویٰ جاری کر دیا۔ ان کا بیان میڈیا پر آتے ہی اوباما انتظامیہ متحرک ہوئی‘ جان کیری پاکستان کیلئے روانہ ہو گئے اور اوبامہ خود میڈیا کے سامنے آگئے اور درس دینے لگے کہ پاکستان کو ویانا کنونشن کا احترام کرنا ہو گا۔
وہ تو اچھا ہوا کہ کیری نے سب سے پہلے معزول وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے ملاقات کرلی‘ جنہوں نے اس ملاقات کے فوری بعد ہنگامی پریس کانفرنس کرکے سارا بھانڈا پھوڑ دیا‘ ورنہ تو فوزیہ وہاب کی درفنطنی کے بعد وزارت خارجہ کے وفاقی وزارت قانون کو لکھے گئے کسی مراسلہ کے تحت ریمنڈ کو سفارتی استثنیٰ حاصل ہونے کا ”فیلر“ چھوڑا بھی جا چکا تھا۔ اگر شاہ محمود قریشی پریس کانفرنس کرکے ریمنڈ کے استثنیٰ کے معاملہ میں 31 جنوری کو وزارت خارجہ کے آفس میں طے کئے گئے متفقہ موقف کو افشاءنہ کرتے تو وزارتِ خارجہ کا مبینہ مراسلہ ہی معتبر ٹھہرتا۔ شاہ محمود قریشی نے تو سر اٹھا کر چلنے کا تقاضا بھی یاد کرا دیا‘ چنانچہ انکے ”گرائیں“ وزیراعظم نے محسوس کیا ہو گا کہ اب وزارت خارجہ کے 31 جنوری والے فیصلے سے انحراف کیا گیا تو شاہ محمود بازی لے جائینگے‘ چنانچہ انہوں نے قومی سیرت کانفرنس میں سرکاری علماءکی جانب سے بھی ”قاتل ریمنڈ کو پھانسی دو“ کے کہرام مچاتے ہوئے نعروں کے بیچ میں پھنسے یہ اعلان کر دیا کہ ہمارا فیصلہ وہی ہو گا‘ جو وزارتِ خارجہ کا‘ قوم کا اور عدالت کا ہو گا اور پھر کیری کی امریکہ روانگی سے پہلے ہی وزارت خارجہ کے 31 جنوری کے فیصلے کی بنیاد پر انہیں باور کرادیا گیا کہ ریمنڈ کو سفارتی استثنیٰ حاصل نہیں ہے۔
ذرا سوچیئے جناب! اوباما خود بھی اور سینیٹر جان کیری پاکستان آتے ہی ریمنڈ کو سفارتی استثنیٰ حاصل ہونے کا بڑے وثوق کے ساتھ دعویٰ کیوں کر رہے تھے اور اس دعوے کے ثبوت کیلئے وہ مصدقہ دستاویزات پاکستان کی عدالت میں پیش کرنے کا تضحیک آمیز اعلان کیوں کر رہے تھے؟
بظاہر وہ ریمنڈ کیلئے ویانا کنونشن کے سفارتی استثنیٰ کا حوالہ دے رہے تھے اور درحقیقت یہ استثنیٰ اس دستاویز میں موجود تھا‘ جو عین ممکن ہے لاہور کی متعلقہ عدالت میں پیش کردی جائے اور یہ دستاویز ہے کیری لوگر بل کے تحت پاکستان کے ساتھ طے پانے والا اور ہماری غیرت و حمیت کو چیلنج کرنے والا امریکی معاہدہ۔ یہ حضرت جان کیری تو اسی کیری لوگر بل کے محرک ہیں‘ جو اب امریکی سینٹ اور ایوان نمائندگان کی منظوری سے قانون بن چکا ہے جس کی رو سے پاکستان کو غالباً چھ ارب ڈالر کی امریکی امداد ملنی ہے۔ اس امداد کی ابھی صرف ایک قسط ادا ہوئی ہے اور دوسری دو ارب ڈالر کی قسط ریمنڈ کی رہائی کے ساتھ مشروط کی جا چکی ہے۔
قوم کا حافظہ یقیناً کمزور نہیں ہے‘ سال 2008ءکے وسط میں جب کیری لوگر بل موضوع ِ بحث بنا تو اس مجوزہ امدادی معاہدے میں پاکستان کیلئے آٹھ دس شرائط بھی لپٹی ہوئی تھیں۔ ایک شرط امدادی رقم کے استعمال سے متعلق تھی کہ یہ صرف امریکی منظورِ نظر این جی اوز کے ذریعے تقسیم ہو گی اور امریکی انسپکٹر پاکستان آکر اس رقم کے استعمال کی نگرانی کرینگے۔ ایک شرط کیری لوگر کی امداد میں سے پاک فوج کے حصے میں آنیوالی رقم سول انتظامیہ کے ماتحت کرنے کی تھی اور باقی شرائط وہی تھیں جن کی بنیاد پر پاکستان سے ریمنڈ کیلئے سفارتی استحقاق کا تقاضا کیا جا رہا ہے۔ کیری لوگر بل کے مسودے میں شق وار ڈالی گئی ان شرائط میں پاکستان کو پابند کیا گیا تھا کہ امریکی انتظامیہ کی جانب سے جتنے بھی امریکی شہریوں کو پاکستان کے ویزے کیلئے فہرست بھجوائی جائیگی‘ انہیں امریکی سفارت کار کا درجہ حاصل ہو گا اور پاکستانی سفارت خانہ ان تمام امریکی شہریوں کو ویزہ جاری کرنے کا پابند ہو گا۔ یہ امریکی شہری پاکستان میں کہیں بھی بلاروک ٹوک گھومنے پھرنے میں آزاد ہونگے اور بغیر لائسنس کے بھی اسلحہ اپنے پاس رکھنے کے مجاز ہونگے۔ جب یہ مسودہ منظر عام پر آیا تو اس پر حکومت پاکستان کو ہر مکتبہ زندگی کے لوگوں کی سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا اور پھر تاثر یہ دیا گیا کہ ان میں سے کوئی بھی شرط پاکستان قبول نہیں کریگا۔ سابق وزیر خزانہ شوکت ترین غالباً اسی پس منظر میں مستعفی ہوئے تھے۔
اب اگر اوباما اور کیری کی جانب سے کسی مصدقہ دستاویز کی بنیاد پر ریمنڈ کو سفارتی استثنیٰ حاصل ہونے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے تو یہ اس حقیقت کا بین ثبوت ہے کہ کیری لوگر کا قانون ان تمام شرائط کے ساتھ منظور ہوا ہے اور کیری ہمارے حکمرانوں کو یہی باور کرانے خود پاکستان آئے تھے کہ ہمارے غلامو! تم نے تو خود ہمارے ہاتھوں سے طوق غلامی بخوشی اپنے گلے میں ڈلوایا ہے‘ اب بدک کیوں رہے ہو؟
مگر اب چلو کسی مقابلے بازی میں ہی سہی اور اگلے انتخابات میں راندہ درگاہ بننے کے خوف کے تحت ہی سہی‘ ہمارے حکومتی سیاسی قائدین نے سر اٹھا کر چلنا طے کر لیا ہے‘ چنانچہ کیری اسلام آباد میں جس بھی در پر گئے‘ انہیں ٹکہ سا جواب ملا اور پھر مایوس و نامراد واپس جاتے ہوئے یہ توقع باندھ گئے کہ ریمنڈ کے معاملہ میں امریکہ کو پاکستان سے ضرور انصاف ملے گا۔ جی ہاں! ہماری بھی یہی توقع ہے کہ قانون کے تقاضوں کے مطابق قاتل ریمنڈ کو ہماری ہی دھرتی پر ضرور انصاف ملے گا۔ کیری یا کسی دوسرے امریکی “متبرک“ نے یہ انصاف دیکھنا ہو تو پھر لاہور آئے‘ کوٹ لکھپت جیل کا دورہ کرے۔ ریمنڈ کے ساتھ والی کسی بیرک میں عمر قید کی سزا بھگتنے والے کانگو کے سفارت کار حسین مباکا سے ملاقات کرکے وہ ریمنڈ کیلئے بھی انصاف کی حد کا تعین کر سکتا ہے۔ ریمنڈ کا تو اب سفارت کار نہ ہونا بھی ثابت ہو چکا ہے‘ بالفرض محال اگر وہ سفارت کار ہوتا بھی تو اسکے جرم کی سنگینی کی بنیاد پر اس پر قومی اسمبلی کے منظور کردہ 1972ءکے ڈپلومیٹک و قونصلرز ایکٹ کی دفعات 4,3 کا اطلاق کرکے اس کا سفارتی استثنیٰ ختم کر دیا جاتا۔ چنانچہ اب حسین مباکا ہی کی طرح پاکستان کے قوانین کے تحت پاکستان کی عدلیہ کے ذریعے انصاف ریمنڈ کا بھی مقدر بن چکا ہے۔ امریکی سامراج خاطر جمع رکھے‘ ہم نے ایٹمی دھماکے کی خاطر آپکی اور آپکے ایماءپر پوری دنیا کی جانب سے لگائی گئی اقتصادی پابندیاں بھگت لی تھیں تو اب کیری لوگر بل والی امداد بند ہونے سے بھی ہمیں کوئی ”ڈینٹ“ نہیں پڑیگا۔ البتہ اتنا ضرور ہو گا کہ آپ جیسے بدمست ہاتھی سے ہمیں خلاصی مل جائیگی....ع
تجھے اے جگر مبارک یہ شکستِ فاتحانہ

ای پیپر دی نیشن