بعض حاسدین شیخ الاسلام علامہ ڈاکٹر طاہر القادری سے جلتے اور اُن سے حسد کرتے ہیں۔ ان کیلئے تو ڈاکٹر صاحب کا یہ فرمان ہی کافی ہے ”محنت کر حسد نہ کر“ اور اس کے ساتھ اُن کا یہ قول بھی نذرِ حاسدین ہے کہ جلنے والے جلا کریں قسمت ہمارے ساتھ ہے۔ بلاشبہ قسمت ڈاکٹر طاہر القادری کے ساتھ ہے بلکہ ساتھ ساتھ ہے اور ان پر سایہ فگن ہے۔ علامہ صاحب ایک نہایت ہی ذہین و فطین شخصیت ہیں اور انہوں نے بہت پہلے ایک راز کی بات دریافت کر لی تھی اور اسی دریافت کے پروں پر وہ پرواز پر پرواز کرتے رہے۔ قارئین کرام کو یقیناً تجسس ہو گا کہ وہ راز کی بات آخر ہے کیا۔ راز کی بات علامہ صاحب نے یہ دریافت کی ہے کہ اس قوم کے سامنے وہ جیسی چاہیں بات کہہ دیں انہیں واہ واہ کرنے والے مل جائیں گے جو نہ صرف اُن کی ہاں میں ہاں ملائیں گے بلکہ اُن کی پیروی کو عین فریضہ دینی و اسلامی قرار دیں گے اور اُن کیلئے جینے اور مرنے پر آمادہ ہو جائیں گے۔ اسکے ساتھ ساتھ انہوں نے یہ بھی دریافت کر لیا ہے کہ اللہ نے ہر ذہین شخص کے پیروکار پیدا کئے ہیں جو آنکھیں بند کر کے پیچھے چل پڑتے ہیں اور اس وقت تک آنکھیں نہیں کھولتے جب تک وہ کسی حادثے سے دوچار نہیں ہو جاتے یا ان کا پیر و مرشد انہیں بیچ منجدھار چھوڑ کر کینیڈا روانہ نہیں ہو جاتا۔
جب سے شیخ الاسلام کینیڈا سے پاکستان واپس تشریف لائے ہیں ہمیں ان کا بہت بڑا طرفدار سمجھا جاتا ہے۔ مگر اب ہم خود بہت بڑے کنفیوژن کا شکار ہو چکے ہیں۔ وہ یہ ہے کہ علامہ ڈاکٹر طاہر القادری تضاد ہی تضاد بلکہ مجسمہ تضاد ہیں۔ وہ جن حکمرانوں کو یزید قرار دے رہے تھے، وہ جن حکمرانوں کو فرعون کا لقب دے رہے تھے، وہ جن حکمرانوں کو ظالم جابر اور کرپٹ قرار دے رہے تھے تین روز بعد وہ انہیں حکمرانوں کو گلے لگا رہے تھے اور یہ تاثر دے رہے تھے جیسے برسوں کے بچھڑے آج ملے ہوں۔ اس ملاقات کے بعد یزید بایزید بن گئے، فرعون موسیٰ قرار پائے، ظالم عادل بن گئے ہیں، کرپٹ دیانتدار ہو گئے ہیں اور جابر نرم خو بن گئے ہیں۔ اس کرامت کے بعد بھی اگر حاسدین علامہ ڈاکٹر طاہر القادری کے معجزوں کو تسلیم نہ کریں تو اسے انکی ہٹ دھرمی ہی قرار دیا جائے گا۔
شیخ الاسلام علامہ ڈاکٹر طاہر القادری ایک سچے صوفی کی طرح اپنے من میں جھانکتے تو ہوں گے، اپنا جائزہ تو لیتے ہوں گے، اپنا محاسبہ بھی کرتے ہوں گے، اپنے اوپر تنقید بھی کرتے ہوں گے، خود کو اپنی ہی عدالت کے کٹہرے میں بھی کھڑا کرتے ہوں گے۔ اپنے بارے میں اُن کا اپنا عدالتی فیصلہ کیا ہے؟ کیا وہ کھلے کھلے تضاد کا شکار نہیں۔ پہلے وہ تشریف لائے تو انہوں نے کہا کہ کچھ عرصے کیلئے انتخابی گاڑی کو ورکشاپ میں کھڑا کر دیں گے پھر ارشاد فرمایا پہلے اصلاحات پھر انتخابات۔ اسکے بعد انہوں نے اس نعرے کو کہیں درمیان میں چھوڑ دیا اور وہ الیکشن کمشن کے پیچھے پڑ گئے اسکے خاتمے کے درپے ہو گئے۔ تب انہیں پاکستان کے جملہ مسائل کا حل صرف اور صرف الیکشن کمشن کے خاتمے میں نظر آتا تھا۔ اس طرح کے چھ سات نکات کیلئے انہوں نے دھرنا دیا۔ اُن کی للکار اور پکار کا تین چار روز تک تو نہ کسی نے جواب تک دیا اور علامہ صاحب کو اسلام آباد سے اپنی ”عزتِ سادات“ بچا لانے کے لالے پڑ گئے۔ اس موقع پر اُن کے وضعدار دوست چوہدری شجاعت حسین ہی اُن کے کام آئے اور انہوں نے اُن کیلئے کنٹینر مذاکرات کا بندوبست کر کے اُن کیلئے باعزت واپسی کا راستہ ہموار کیا۔ علامہ ڈاکٹر طاہر القادری کے بارے میں پاکستان کے ہر ذی شعور شخص کو پاکستان کی ہر سیاسی جماعت کو اور حتیٰ کہ عدالت عظمیٰ کو یہ تجسس تھا کہ اُن کا اصل ایجنڈا کیا ہے اُن کے پیچھے کون ہے، کون اُن کی باگ تھامے ہوئے ہے۔ کبھی کہا گیا اُن کے پیچھے فوج ہے۔ کبھی کہا گیا کہ خود صدر پاکستان آصف علی زرداری کا دست شفقت اُن کے کندھے پر ہے تاکہ انتخاب کو ملتوی کروایا جا سکے۔ کبھی کہا گیا کہ اُن کے پیچھے ملکی اسٹیبلشمنٹ نہیں عالمی اسٹیبلشمنٹ ہے، کبھی کہا گیا کہ خود عدالت عظمیٰ اُن کے پیچھے ہے اور یہاں بنگلہ دیش ماڈل لایا جا رہا ہے تاہم ابھی تک یہ راز پردہ¿ اخفا میں ہے کہ اُن کے پیچھے کون ہے اور آج یہ بندہ ناچیز اس راز کو آشکار کر رہا ہے۔ علامہ ڈاکٹر طاہر القادری کے پیچھے اُن کی اپنی بے لگام خواہش ہے، اُن کی خود پسندی اور اُن کی نرگسیت ہے۔ دنیا کا ہر صاحبِ احساس اور صاحبِ افکار شخص خواب دیکھتا ہے خواب کے محلات سے گزرے بغیر آپ حقیقت کی دنیا میں کوئی کٹیا تعمیر نہیں کر سکتے مگر علامہ صاحب جب خواب دیکھتے ہیں تو اسے سچ سمجھ بیٹھتے ہیں پھر انہیں ہر طرف وہ خواب ہی خواب دکھائی دیتا ہے اور وہی سنائی دیتا ہے۔ بس مشکل یہ آن پڑتی ہے کہ علامہ صاحب کے ہاں خوابوں کی کوئی کمی نہیں۔ اگر وہ کسی مقامی خواب سے بیزار ہوتے ہیں تو مقامی ایجنڈا پر مشتمل خواب اپنی پلکوں میں سجا لیتے ہیں اور اگر وہ خواب پورا نہیں ہوتا تو وہ کوئی اسلامی یا عالمی خواب اپنی آنکھوں میں بسا لیتے ہیں اور پہلے خوابوں کو بھول جاتے ہیں جبکہ اُن کے پیرکار بہت پریشان ہوتے ہیں کہ اُن کے خواب ادھورے رہ جاتے ہیں۔ شیخ الاسلام خود پسندی اور نرگسیت کی سنہری دنیا میں رہتے ہیں۔ منہاج القرآن کے مرکز چلے جائیں تو آپ کو چاروں طرف دیواروں پر شیخ الاسلام کی تصاویر دکھائی دیں گی۔ اُن کے بیانات کے تراشے دیواروں کی زینت بنے ہوتے ہیں اور منہاج القرآن کی ساری فضا اُن کی پُرجوش خطابت کی ریکارڈنگ سے گونجتی رہتی ہے۔اب شیخ الاسلام نے تازہ ترین بیان یہ دیا ہے کہ اگر میں نے کینیڈا کی شہریت چھوڑ دی تو اُمت مسلمہ کی رہنمائی کون کرے گا۔ علامہ ڈاکٹر طاہر القادری نے اس حقیقت سے پردہ ہٹا کر دعوتِ اسلامی اور تحریک اسلامی کے بڑے بڑے لیڈروں کی آنکھیں کھول دی ہیں کہ تم کیسے دعوت اسلامی کے ٹھیکیدار بنے پھرتے ہو، اتنی سی بات بھی معلوم نہیں کہ اگر عالم اسلام کی رہنمائی کرنا چاہتے ہو تو پہلے کینیڈا کی شہریت حاصل کرو، کینیڈا کا پاسپورٹ قبضے میں کرو، ملکہ معظمہ برطانیہ کی وفاداری کا حلف اٹھاﺅ اور پھر کینیڈا کا پرچم لے کر عالم اسلام پر چھا جاﺅ۔ یہ یقیناً اسلام کا ماڈرن ماڈل ہے کہ جہاں اسلامی دنیا کو جانے والے ہر راستہ کینیڈا سے گزر کر جاتا ہے۔
جہاں شیخ الاسلام کے طرف سے عوام کو دئیے گئے خواب ادھورے رہ گئے ہیں وہاں ڈاکٹر طاہر القادری سے وابستہ میرے بھی کئی خواب چکنا چور ہو گئے ہیں۔ میرا خواب یہ تھا کہ علامہ صاحب وسیع المطالعہ شخصیت ہیں اور برس کینیڈا میں قیام فرما کر ایک پُرامن ملک کے پرُامن شہری بن کر انہوں نے اپنی پہلی محبت پاکستان کے حوالے سے بہت سا ہوم ورک کیا ہو گا اور اب قیام پاکستان کے دوران ہر دوسرے چوتھے روز وہ یہ ہوم ورک قوم کے سامنے پیش کرتے رہیں گے۔ کبھی وہ معاشی پالیسی دیں گے، کبھی تعلیمی پالیسی دیں گے، کبھی زرعی پالیسی اور کبھی خارجہ پالیسی پیش کریں گے۔دہشت گردی کے خاتمے کے سلسلے میں اپنا کوئی قابل عمل منصوبہ پیش کریں گے۔ مگر افسوس انہوں نے اپنا دفتر عمل قوم کے سامنے پیش نہیں کیا۔ علامہ صاحب کو اسلامی دنیا کی رہنما کا جو فریضہ یاد آ گیا ہے یہ علامہ کے پیروکاروں کیلئے کوئی اچھی خبر نہیں اس لئے کہ یہ یاد اس بات کا اشارہ ہے کہ علامہ صاحب اپنی دوسری محبت کینیڈا واپسی کیلئے پَر تول رہے ہیں۔ لگتا ہے یہ دوسری محبت پہلی محبت پر غالب آ گئی ہے کیونکہ علامہ صاحب نے کئی بار بیان دیا تھا کہ وہ پہلی محبت پاکستان کیلئے سب کچھ چھوڑ سکتے ہیں۔ عدالت عظمیٰ نے شیخ الاسلام سے سوال کیا تھا کہ آپ کینیڈا کب واپس جا رہے ہیں تو انہوں نے جواب دیا تھا کہ میں ادھر ہی ہوں کہیں نہیں جا رہا مگر اب پھر انہیں ملت اسلامیہ کی رہنمائی کیلئے کینیڈا کی یاد آئی ہے تو بلاسبب نہیں آئی۔ اب دیکھئے شیخ الاسلام قوم کو الیکشن کے منجدھار میں چھوڑ کر اُمت مسلمہ کی رہنمائی کیلئے کینیڈا کب روانہ ہوتے ہیں۔