بعد از ضیاءالحق سیاست کی منڈی میں یکایک تیزی آ گئی تھی۔ جس مشہور زمانہ اصطلاح کو ”لوٹا“ کہتے ہیں، سیاستدان اسے بے خوف و خطر عمل میں لائے۔ یہ اصطلاح جتنی بھی بُری ہو یا اسے جتنا بھی بُرا کر کے پیش کیا گیا اس میں کوئی فرق نہیں پڑا، لوگوں نے اسے ”حسبِ ضرورت“ یا ”نظریہ ضرورت“ کے تحت ہمیشہ عملی جامہ پہنایا۔ اس پر جتنی بھی قدغن لگی سیاستدانوں نے اتنی ہی سہولت سے ”لوٹا ازم“ سے استفادہ کیا۔ میثاق جمہوریت بھی ”ضروریات“ اور من پسندی کی دلدل میں پھنس کر رہ گیا تھا۔ پھر ن لیگ اور پی پی پی نے جن آئینی دفعات میں محبت میں جھوم کر تبدیلی کندہ کی یا اُن کی نوک پلک سنواری خود ہی اُس کے چور دروازوں کو بھی پسند کیا گیا۔ یہاں تک تبدیلی لائی گئی اور نئی باتوں کا اضافہ کیا گیا تھا کہ پارٹی لیڈر (سربراہ) بے شک اسمبلی میں موجود نہ بھی ہو وہ لوٹا ازم کی شاہراہ پر چلنے والے کو گھر بھجوا سکتا ہے لیکن یہ سب کچھ رائیگاں گیا۔ کبھی کبھی تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ، جنرل ضیا¿الحق کی آٹھویں ترمیم اور اسکے بعد ہونے والی درجن سے زائد ترمیم اور میک اپ نے آئین اور جمہوریت کو تقویت بخشنے کے بجائے اس میں پیچیدگی کے در وا کر دئیے ہیں۔ نئی نئی آئین سازیوں سے کیا بُرا ہوا کیا بھلا، ہمیں تو شاید صحیح معلوم نہیں
کوئے جاناں ہے کہ مقتل ہے کہ میخا نہ ہے
آج کل صورتِ بربادی¿ یاراں کیا ہے
سال بھر پہلے لوٹوں کا بحرِ بیکراں تحریک انصاف کی طرف رُخ کئے ہوئے تھا کیونکہ لوگوں کا خیال تھا کہ آنے والا دور اس کا ہے لیکن تھوڑے دن کے غور و فکر کے بعد اور بہت سے راز فشاں ہونے کی پاداش میں یہ روانی تھم گئی اور چھوٹے سے جمود کے بعد یہ بحرِ بیکراں ن لیگ کی جانب چل پڑا۔ یوں گمان غالب ہے کہ چند لوگ اور بھی تیار بیٹھے ہیں۔ ن لیگ والے تو سرگودہا سے رکن قومی اسمبلی انور علی چیمہ کے ق لیگ چھوڑنے کی بھی امید لگائے بیٹھے ہیں لیکن راقم کا خیال ہے کہ، اگر انور چیمہ آئے تو چودھری برادران کے ساتھ ہی آئیں گے وگرنہ نہیں۔ لیکن ایک معتبر ذرائع کے مطابق پی پی پی کے تین ممبران قومی اسمبلی اور تقریباً سات ممبران پنجاب اسمبلی کی ایک کھیپ ن لیگ میں جانے کیلئے پَر تول رہی ہے۔ عنقریب یہ سب کچھ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر ہائی لائٹ ہونے والا ہے لیکن وہ لوگ جو سابق ممبران اسمبلی ہیں اور نئے لوٹوں کی آمد سے انہیں ن لیگ کا ٹکٹ ملنا مشکل ہو گیا ہے اور اگر واقعی نہ ملا تو وہ بھی تحریک انصاف اور پی پی پی کا رُخ کریں گے مگر وہ میڈیا پر اس طرح ہائی لائٹ نہیں ہو پائیں گے کیونکہ وہ ”سابقین“ ہیں۔ اب اسے اچھا سمجھیں یا بُرا، تحریک انصاف کی جلوہ گرہ کے بعد اُدھر اُدھر جانے اور منہ مارنے کی عادت رکھنے والوں کیلئے آپشنز بڑھ گئی ہیں۔ گویا ”سیٹ ایڈجسٹمنٹ“ کا کھیل صرف اوپر والی سطح کے کھلاڑیوں ہی کو نہیں آتا اسے درجہ دوم کے کھلاڑی بھی اچھی طرح سمجھ گئے ہیں۔
لاہور میں پی پی پی کے امیدواران اور لیڈران کی حالت بڑی پتلی ہے۔ ماضی میں شکست و ریخت کو دیکھ کر سلمان تاثیر (مرحوم) اور خواجہ طارق رحیم کے ساتھ ساتھ پرویز صالح نے بھی پارٹی کو خیرباد کہہ دیا تھا۔ اب پی پی پی پنجاب کے چند ماہ قبل کے سیکرٹری جنرل سمیع اللہ خان (سابق ایم پی اے) ، ایم پی اے بیگم سمیت پی پی پی چھوڑنا زرداری صاحب کے ایوانوں میں نقارہ بجانے کے مترادف ہے کیونکہ سمیع اللہ خان زمانہ طالب علمی سے پی پی پی ہم خیال تھا، لاہور میں ڈیرہ جمائے اور بلاول ہاﺅس سجائے، آصف علی زرداری کیلئے یہ بہت بڑا دھچکا تھا۔ میٹرو بس چلانے کے بعد لیڈران کی ایک بھری ہوئی بس کا میاں شہباز شریف کو مل جانا ایک بڑی سیاسی لاٹری نکلنے سے کم نہیں۔ آنے والے دنوں میں ہونے والی سیاسی معرکہ آرائی میں جوں جوں بادل چھٹتے جا رہے ہیں اس وقت پنجاب میں ن لیگ کی برتری سیاست کے اُفق پر نمایاں ہوتی جا رہی ہے۔
زرداری حکومت کو یہاں یہ دھچکا لگا ہے وہاں پر سندھ سے ایم کیو ایم کے ساتھ چھوڑ جانے پر بھی خاصی پریشان کا سامنا ہے۔ ایم کیو ایم کے ساتھ چھوڑ جانے پر کچھ دانشوروں کا خیال ہے کہ، یہ ایک کھیل ہے۔ اس کھیل کا مقصد یہ ہے کہ، پی پی پی اور متحدہ باہمی رضا مندی اور مشترکہ سیاست کاری سے اپنی نگران حکومت بنا لیں گے جو چھوٹی موٹی پہلی اپوزیشن تھی اسکی حیثیت اس لئے ختم ہو جائے گی کیونکہ متحدہ کے اراکین کی تعداد سندھ اسمبلی میں زیادہ ہے۔ واضح رہے کہ نگران وزیر اعلیٰ اور نگران سیٹ اپ کیلئے سربراہ حکومت اور سربراہ اپوزیشن لیڈر کی باہمی رضامندی کے بغیر آئینی فیصلے تک پہنچنے کی اجازت نہیں دیتا۔ یہ سب باتیں اپنی جگہ درست سہی لیکن حقیقت یہی ہے کہ پی پی پی اور ایم کیو ایم اب اتحادی نہیں رہے۔ جہاں آصف علی زرداری سیاسی آسمان پر ایک بیدار مغز کھلاڑی ہیں وہاں ایم کیو ایم کے حوالے سے بھی سب آگاہ ہیں کہ اس کا ساتھ محض کرسیوں تک رسائی تک ہی ہوتا ہے۔ اگر سندھ میں اگلی حکومت پی پی پی کی نہیں آتی تو ایم کیو ایم پی پی پی کے ساتھ ہرگز نہیں جائے گی بلکہ اگلی حکومت کی طرف جائے گی۔ پچھلے دنوں سندھ میں جن دس سے زائد جماعتوں نے سیاسی اتحاد بنایا ہے ان میں بہرحال یہ دم خم ہے کہ وہ پی پی پی اور ایم کیو ایم کو کافی حد تک پریشان کر سکتی ہے۔ جس ”روایتی“ انداز میں ڈاکٹر فاروق ستار نے پریس کانفرنس کی ہے اسی انداز سے وہ آئندہ لندن سے مزید آرڈر آنے پر کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ ایم کیو ایم والے تو جو کر سکتے ہیں سو کریں گے تاہم اے این پی بھی اپنی الگ شناختی کو برقرار رکھنے کیلئے گذشتہ کئی ماہ سے اعلان کر رہی ہے، محض ایک ”باقاعدہ اعلان“ باقی ہے جو مارچ کے آغاز میں ممکن ہے۔ ایک تو اے این پی کو یہ خوش فہمی ہے کہ انہوں نے خیبر پی کے میں بہت کام کیا ہے لہٰذا انہیں ووٹ ملیں گے، دوسری بات یہ ہے کہ اے این پی دیکھ رہی ہے کہ آئندہ الیکشن ہونے بھی والے ہیں کہ، نہیں! صوبہ خیبر پی کے میں اگر عمران خان اور دینی جماعتوں میں اتحاد ہو جاتا ہے تو عوامی نیشنل پارٹی کے دن گنے جائیں گے۔ یہی اتحاد اگر ن لیگ، جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام کے مابین بھی ہو گیا تو اے این پی کو اپنی ذاتی شناخت بھول کر پی پی پی سے ایڈجسٹمنٹ کرنی پڑے گی۔
پنجاب، خیبر پی کے اور سندھ کے بعد جب بلوچستان کی طرف نظریں اور ذہن جاتا ہے تو سوائے خانہ جنگی، لاقانونیت، حکومتی کمزوری اور بے ترتیبی کے علاوہ کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ ان گنت لاشوں کے گرنے پر ڈرون حملے بھی تھوڑے دیر کیلئے دماغ سے غائب ہو جاتے ہیں۔ بلوچستان میں کھیلے جانے والے خونی کھیل کی حکومت اور ایجنسیوں کو کوئی سمجھ نہیں آ رہی۔ اہل نظر ایک دفعہ پھر حیران و پریشان ہیں کہ ڈرون حملے، بلوچستان کی افراتفری، خیبر پی کے میں مسلسل دہشت گردی اور کراچی کی ٹارگٹ کلنک کہیں انتخابی راستے کی دیوار نہ بن جائے۔ یوں محسوس ہو رہا ہے کہ کہیں نہ کہیں الیکشن روکنے والی درپردہ قوتیں بھی متحریک ہیں۔ اگر یہ کیفیت رکی نہ تو جانے کیا ہو جائے! یہ آصف علی زرداری ہی بتا سکتے ہیں کہ بلوچستان کے گورنر راج کا آخر کیا فائدہ ہوا؟ اسی طرح کے ایک بم دھماکے کے تناظر میں جمہوری حکومت ختم کر کے ایک گورنر راج کو تجربہ بنایا گیا تھا۔ آخر پھر وہی ہوا ایک ماہ بعد پھر لوگوں کے پرخچے اُڑ گئے، سینکڑوں لوگ زخمی اور80 سے زائد جاں بحق ہو گئے۔ جب وفاق کی ایسی گورننس کو دیکھتے ہیں تو یقیناً یہ سوال بھی جنم لیتا ہے کہ، کیوں نہ لوگ پارٹی چھوڑ کر دائیں بائیں جائیں حالانکہ بلوچستان میں پی پی پی کی اپنی حکومت تھی لیکن نہ وہاں جمہوریت ہی کا راج تھا اور نہ آج گورنر کا راج ہے ....
کب ٹھہرے گا درد اے دل، کب رات بسر ہو گی
سُنتے تھے وہ آئیں گے، سُنتے تھے سحر ہو گی
دیدہ تر کی شنوائی کی کوئی سبیل نظر نہیں آتی۔ اضطراب ہے، حکومت سے لوگ نالاں ہیں، کہیں کوئی والی¿ ہوش یا صاحبِ تمکیں نظر نہیں آتا۔ حکومت نے بہت موجیں مار لیں، سب کو قریب کر لئے، غلطیوں کی معافی مانگے، نگران سیٹ اپ کو فی الفور حتمی شکل دے اور الیکشن شیڈول کو عیاں کر دے۔ جب پانچ سالوں میں کچھ نہیں ہُوا تو چند گنے چُنے دنوں میں کیا ہو جائے گا۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ خود غرضی اور خود پسندی کو فی الفور بالائے طاق رکھتے ہوئے آئین کی پاسداری کو عمل میں لایا جائے۔ سب مل کر امن کا سوچیں۔ طالبان سے بات کی جائے، امریکہ کو فاصلے پر رکھا جائے، ایجنسیوں کو اعتماد میں لے لیا جائے، فوج اور حکمران بالغ نظری اور دور اندیشی سے ڈرون حملوں سے لیکر کوئٹہ و کراچی کی صورتحال پر حب الوطنی کے جذبہ کے تحت غور و فکر کریں۔ حکومت اب تو ”سیاہ ست“ چھوڑ کر خدمت کی شاہراہ اپنا لے۔ الیکشن کا اعلان کر کے ابہام کو نیست و نابود کر دیا جائے۔ ہاں سیاسی جماعتوں کے سربراہان بھی ہر ایک کو آنکھیں بند کر کے پارٹی دامن میں جگہ نہ دیں۔ لوٹا ازم ایک ”جمہوری دلدل“ ہے!
پھر سانحہ کوئٹہ، ایم کیو ایم کا جانا اور فلور کراسنگ !
Feb 18, 2013