پیر ‘ 7 ربیع الثانی 1434ھ ‘ 18 فروری2013 ئ
میں پری ہوں، شادی وزیراعظم بننے کے بعد کروں گی:شرمیلا فاروقی۔
شرمیلا واقعی پری ہے اب اُسے خوابوں کا شہزادہ مل جاناچاہئے تاکہ پری کا حسن برقرار رہے،ویسے شرمیلا نے جو شرط عائد کردی ہے وہ پوری ہوتی نظر نہیں آتی کیونکہ وزیراعظم کیلئے تو بلاول بھٹو لائن میں لگ چکے ہیں۔اگر شرمیلا یوں کہتیں کہ میں وزیراعظم سے شادی کرونگی تو پھر یہ بیل منڈھے چڑھ سکتی تھی۔شرمیلا نے اداکاری بھی کی ایک ڈرامے میں انکا کردار بڑی بڑی ہیروئنوں کو پیچھے چھوڑ گیا تھا۔ شرمیلا شکل و صورت کے لحاظ سے تو مثلِ حور ہے ہم انہیں پہلے بھی پیپلز پارٹی کی حور ہی کہتے ہیں لیکن انہوں نے اپنے آپکو پری کہہ کر خوابوں کے اس لاہوری شہزادے کی نیندیں اڑا دی ہوں گی جسکے ساتھ ان کی منگنی ہوچکی ہے۔ کچھ عرصہ قبل حضرت سخی سرورؒ کے دربار پر خودکش حملہ ہوا تھا وہاں سے ایک زخمی بمبارنو عمر لڑکے کو ملتان کے نشتر ہسپتال میں داخل کروایا گیا زخمی بمبار کو جیسے ہی ہوش آئی تو اس نے اپنے قریب کھڑی نرس کو دیکھا تو پکار اٹھا ” حور مل گئی حور مل گئی حور“ اگر ایک نرس حور ہوسکتی ہے تو شرمیلا فاروقی تو ایسی لاکھ حوروں سے اعلیٰ ہیں۔شرمیلا فاروقی کہتی ہیں کہ میں مردوں سے خود ہی دو دو ہاتھ کرلیتی ہوں اسلئے وہ مجھ سے دور ہی رہتے ہیں پھر یوں ہی کہاجاسکتا ہے ....
جو نقاب رخ اٹھا دی تو یہ قید بھی لگا دی
اٹھے ہرنگاہ لیکن کوئی بام تک نہ پہنچے
٭....٭....٭....٭....٭....٭
حافظ آباد: لالچی والدین نے 10سالہ بچی کا 40سالہ شخص سے نکاح کردیا۔ ظالم ماں باپ نے کلی کو کانٹوں کیساتھ نتھی کردیا۔معصومہ کو تو ابھی سوجھ بوجھ بھی نہیں ہوگی وہ شادی کے بندھن کو کیسے پورا کرپائے گی۔ والدین نے اپنی بیٹی کو خود ہی آگ میں پھینک دیا۔غربت بھی بہت بُری چیز ہے یہی غربت انسان کو کفر تک پہنچادیتی ہے۔لالچی والدین نے کتنے پیسے حاصل کرلیے ہونگے،انہوں نے اپنی زندگی کو سنوارنے کیلئے بیٹی کی زندگی کو جہنم میں دھکیل دیا۔ بچی ابھی بلاغت کی عمر کی بھی نہیں، اگر ہوتی بھی تو،شادی میں دلہا اور دلہن کی عمر کے درمیان زیادہ فرق تو زندگی کو اجیرن بنادیتا ہے۔5دس کا فرق تو معیوب نہیں لیکن اکٹھا 30 سال کا فرق تو طوفان بد تمیزی برپا کردےگا ۔ 10سالہ بچی تو ابھی اپنے آپ کو سنبھال نہیں سکتی وہ ایک گھر کا بوجھ کیسے اٹھا سکتی ہے۔اسلام توکہتا ہے کہ آپ بچی کی رضا کے بغیر شادی مت کریں لیکن والدین تو لفظ شادی سے نا آشنا بچیوں کو بھی اندھیرے میں فروخت کردیتے ہیں ہر طرف اندھیر نگری ہے۔ بنت حوا ہی مظلوم نظر آرہی ہے۔خادم اعلیٰ کو حافظ آباد کے اس واقعہ کا نوٹس لیکر معصومہ کی جان چھڑانی چاہئے۔ ہماری تاریخ تو یہ نہیں تھی بس وقت کے ساتھ ساتھ روایات دم توڑتی جارہی ہیں۔شاعر نے کہا تھا....
مقتل وقت میں زخموں کی چھڑی ہو جیسے
زندگی یوں ہے کہ اک لاش پڑی ہو جیسے
ہائے کس کرب سے دم توڑ رہی ہے تاریخ
جان بیمار کے ہونٹوں پہ اڑی ہو جیسے
٭....٭....٭....٭....٭
الیکشن ریس سے پہلے ” گھوڑے“ بک رہے ہیں۔حافظ حسین احمد۔ الیکشن کی ریس سے قبل ” بی بی کے میاں“ اور پنجاب کے میاں نے ایک دوسرے کے اصطبل میں نقب لگانا شروع کردی ہے،تیز گھوڑے سرعام بک رہے ہیں سیاسی بکیوں نے ریٹ مقرر کردئیے ہیں اب ریس لگنے پر ہی پتہ چلے گا کہ کامیابی کا جھنڈا کون سا گھوڑا لہراتا ہے۔پیپلز پارٹی سے (ن) لیگ میں جانے والے سمیع اللہ خان تو کہتے ہیں کہ مفادات کی خاطر پیپلز پارٹی واجپائی یا بال ٹھاکرے کو بھی ٹکٹ دے سکتی ہے۔پیپلز پارٹی والوں کو اپنی مصلحتی منجی تھلے ڈانگ پھیرنی چاہئے ورنہ جس طرح گزشتہ روز کچھ ارکان 9دو گیارہ ہوئے ہیں آئندہ وہ کوئی بڑا بم بھی چلا سکتے ہیں۔ خان صاحب تو کہتے ہیں کہ قمر زمان کائرہ اور چوہدری منظور بھی ان جیسا فیصلہ کرسکتے ہیں۔ ابھی تو بڑے بڑے برج الٹنے والے ہیں جیسے جیسے الیکشن قریب آرہا ہے کوئی صاحب دل صدر محترم کے دل سے کان لگا کر دھڑکن سُنے جو آجکل کافی تیز ہوچکی ہے،دونوں طرف سے نمبر گیم شروع ہے۔ حافظ حسین نے بھی پانچ سال خاموشی سے نکال لیے ہیں اب اگر جمعیت نے انہیں ٹکٹ نہ دیا تو وہ بھی ریس میں لگ کر رنگ میں بھنگ ڈال سکتے ہیں۔ایم کیو ایم تو ڈوبتی کشتی سے چھلانگ لگا گئی ہے اور عنقریب پی پی اور(ق) لیگ کے مابین بھی انتخابی نشان کے پھڈے پر طلاق واقع ہونے والی ہے، ہر پارٹی کے گھوڑے جب میدان میں اتریں گے تو پھر پتہ چل جائیگا کہ کس کے گھٹنوں میں زیادہ پانی ہے الیکشن کمشن نے 50فیصد ووٹ لینے کی شرط بھی عائد کردی ہے اب تو امیدوار پاﺅں پکڑ کر ووٹ لینے کی کوشش کرینگے۔ حافظ حسین کا طوطی اپنے طمطراق سے بول رہا ہے امید ہے اس دفعہ وہ بھی ٹکٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیںگے۔ نہ بھی ہوں تو ان کا طرز گفتگو ” ظالمانہ“ ہے۔کوئی بڑی مسجد بھی نہ ملے تو اچھا گزارہ ہوسکتا ہے۔
٭....٭....٭....٭....٭
سعودی عرب میں بسنت منائی گئی۔ لاہوری مُنڈے اب ایک ٹکٹ میں دو دو مزے لیا کرینگے، سعودی عرب میں عمرہ بھی اور لگے ہاتھوں بو کاٹا بھی۔ گزشتہ دنوں بھی سعودیہ میں بسنت کے موقع پر پاکستانیوں نے جی بھر کے پتنگیں اڑائیں اور بھنگڑے ڈالے۔ لاہوریوں کی بھی کیا قسمت ہے، لاہور میں بسنت نہیں ہوئی تو روح کی تسکین کیلئے اب السعود پہنچ گئے۔کسی لاہوریے کے بارے مشہور ہے وہ عمرہ کرنے گیا تو سعودی عرب میں اسے حادثہ پیش آیا جس میں وہ بچ گیا اس نے پاکستان اپنی والدہ کو فون کرکے کہا کہ امی جان میں حادثے میں بچ گیا ہوں آپ داتا دربار جا کر 2دیگیں دے آنا اور میری سلامتی کی دعا کرنا،ایسے افراد تو پھر وہاں جاکر پتنگ بازی بھی کرسکتے ہیں۔ چلیں جب قاتل ڈور وہاں پہنچے گی تو سعودی حکام پتنگ بازوں کو ڈنڈے سے بھگائیں گے ہمارے ہاں بھی بسنت آرام سے ہر سال ہوتی تھی لیکن جب سے قاتل ڈور پیدا ہوئی ہے حکومت نے بھی ڈنڈا پکڑ لیا ہے۔تفریح لازمی ہونی چاہئے لیکن جب تفریح قاتل بن جائے تو پھر اس پر پابندی جان کے تحفظ سے منسلک ہے۔ پتنگ باز سجن اگر قاتل ڈور کی پیدائش پر پابندی لگادیں تو پھر آہستہ آہستہ یہ رسم دوبارہ شروع ہوجائے لیکن اگر وہ بھی ڈور کی بجائے عوام پر پابندی لگانے کا کہیں گے تو پھر یہ جام ہونٹو ں تک نہیں پہنچ پائےگا۔