برادرم حفیظ اللہ خان نیازی بڑے ٹھسے کے آدمی ہیں۔ دوست دار، دیندار، نماز روزہ کے پابند، وظیفہ وظائف کے عادی۔ ایک امریکی یونیورسٹی میں بھی زمانہ طالب علمی میں ان کا یہی طور رہا ”نہ چھوٹے مجھ سے لندن میں بھی آداب سحر خیزی“ موصوف اسلام آباد یونیورسٹی کی سٹوڈنٹ یونین کے صدر رہ چکے ہیں۔ اب تو آج کے طالب علموں کو یہ بھی بتانا پڑے گا کہ یہ سٹوڈنٹ یونین کیا شے ہوتی ہے۔ آئی ایس ایف کے صدر فرخ حبیب کےلئے اطلاع ہے کہ سٹوڈنٹ یونین میں نامزدگی نہیں بلکہ باقاعدہ الیکشن ہوا کرتا تھا۔ جناب حفیظ اللہ خان نیازی آج کل بڑے دھوم دھڑکے سے ایک اخبار میں کالم لکھ رہے ہیں۔ انکے تازہ کالم کے نیچے ایک نوٹ موجود ہے، پہلے آپ یہ نوٹ پڑھ لیں: ”تحریک انصاف کےلئے ایک خوش آئند پہلو 23 مارچ مینار پاکستان پر جمہوریت ڈے کے جلسہ پر فری بس سروس آپکے رحم و کرم پر ہو گی۔ اپنی گاڑیاں اپنی سہولت کے سٹاپ پر پارک کر کے خادم اعلیٰ کے اس تحفے پر آپ بھی واہ واہ کریں“ خاں صاحب کی خدمت میں عرض ہے کہ تحریک انصاف پاکستان کے نوجوانوں کی پاکستان میں تبدیلی کیلئے ایک تحریک ہے۔ اگر کسی نوجوان کے پاس گاڑی ہو، پٹرول ہو اور ہاں، اچھی سی سواری وہ خود ہی ڈھونڈلے گا تو پھر اسے تبدیلی کی ضرورت ہی کیا ہے؟ کیا پھر وہ کوئی تبدیلی لا کر اپنی گاڑی کھونا چاہے گا؟ حضور!انہیں تو یہ فکر لاحق ہے کہ پہلے خادم اعلیٰ کی طرف سے ایک ماہ کیلئے مفت سروس کا اعلان تھا۔ اب یہ سہولت صرف پندرہ روز کیلئے مہیا کرنے کا بندوبست سوچا جا رہا ہے پھر 23 مارچ تک یہ سہولت ختم ہوئے بھی پندرہ روز گزر چکے ہونگے۔ آج کے بیروزگار نوجوانوں کا قصہ کہانی بس یہی ہے۔ ایک فقیر نے صدا لگائی کہ بھوکا ہوں اور روٹی چاہئے اوپر چوبارے سے جواب آیا کہ جھولی پھیلاﺅ۔ فقیر بولا جھولی کہاں سے لاﺅں، ننگا بھی ہوں۔ اب تو سکہ بند جیالے بھی بلاول کی زبان سے روٹی، کپڑا اور مکان کے ذکر پر مسکرانے لگتے ہیں۔ ”ادھر ہونٹوں پہ لالی ہے“ ”ادھر جانوں کے لالے ہیں“ اپنی گاڑی پر بیٹھ کر اپنے گھر سے باہر نکل کر اپنی سہولت کے سٹاپ پر گاڑی پارک کر کے بس بات کو یہیں رہنے دیں، اگر اپنا گھر بھی ہو اور اپنی گاڑی بھی ، سی این جی کی بک بک میں پڑنے کی بجائے پٹرول ڈلوانے کی توفیق بھی پھر ہمیں تبدیلی کی بھلا ضرورت بھی کیا ہے۔ پھر اپنے گھر سے نکل کر اپنی گاڑی میں بیٹھ کر کیا ہم تحریک انصاف کے جلسہ میں جھک مارنے جائینگے۔ یہی تو خلق خدا کا مسئلہ ہے، روٹی کپڑا اور مکان مکھن توس نہیں تو روکھی سوکھی ہی سہی۔ صرف بھوک بری ہوتی ہے جناب ”روٹی جیسی تیسی بھی ہو اچھی۔ بڑھیا ارمانی برانڈڈ سوٹ یوسف رضا گیلانی اور ان کی آل اولاد کو مبارک، ہمارا تن دھک جائے بس اتنا ہی کافی۔ رہا گھر، چلو گھر نہیں تو اس کا ماہوار کرایہ ہی سہی۔ بس مرغزار کالونی کے پکے گھروں کے پڑوس میں کسی جھگی میں بچے زندہ جل مرنے سے بچ جائیں۔ پچھلے ہی دنوں یہاں ایک جھونپڑی میں چار بچے زندہ جل کر مر گئے تھے۔ جھونپڑیاں فائر بریگیڈ کی پہنچ سے باہر ہوتی ہیں سرکار۔ ان خبروں کے بعد تبدیلی کون روک سکے گا؟ پیپلزپارٹی کی موجودہ حکومت نے اپنے پہلے چار سالوں میں ایک کھرب 25 ارب روپے کے بنکوں کے قرضے معاف کئے ہیں۔ گزشتہ 27 سالوں میں ہر سال اوسطاً سوا نو ارب کے قرضے معاف کئے جاتے ہیں۔ موجودہ حکومت نے ہر سال سوا اکتیس ارب کے قرضے معاف کئے ہیں۔کراچی کے ساجد امجد کا ساڑھے بارہ ارب روپوں کا قرضہ معاف کیا گیا ہے۔ اب تک کی ملکی تاریخ میں معاف کیاجانےوالا یہ سب سے بڑا قرضہ ہے لیکن یہ ریکارڈ بھی جلد ہی ٹوٹنے والا ہے بحریہ ٹاﺅن کے ملک ریاض نے 5 ارب مالیت کا محل آصف زرداری کو گفٹ کیا ہے۔ اب دیکھئے اس بم پروف محل کا ملک ریاض کو کیا ”اجر“ ملتا ہے۔ اب یقینا کراچی والے ساجد امجد کا ریکارڈ ٹوٹ جائے گا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ریکارڈ ٹوٹ چکا ہو اور ابھی تک پبلک کے علم میں یہ بات نہ آئی ہو۔ اس محل کو بم پروف ملک ریاض کے حکم سے بنایا گیا تھا، اسے جیالا پروف آصف زرداری نے خود کر لیا ہے۔ کسی جیالے کو محل کے قریب تک پھٹکنے نہیں دیا جا رہا لیکن جیالے بیچارے اس مسلک کے پابند ٹھہرے....
اہل وفا سے بات نہ کرنا، ہو گا تیرا اصول میاں
ہم کیوں چھوڑیں ان گلیوں کے پھیروں کا معمول میاں
نصب ارب کے قریب بنک کا قرضہ معاف کروانے والے ایک صاحب کو ہم بھی جانتے ہیں۔ موصوف دو مرتبہ قومی اسمبلی کا الیکشن ہار چکے ہیں۔ سیاست سے توبہ تائب ہو چکے تھے لیکن ترک الفت کی قسم بھی کوئی ہوتی ہے قسم، اب تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے قومی اسمبلی پہنچنا چاہتے ہیں۔ موصوف کیا تبدیلی لانا چاہتے ہیں؟ وہی جانتے ہونگے”باسٹھ تریسٹھ کی بکواس“ کا کیا حل نکالیں گے اس کا جواب موصوف خود ہی دے سکتے ہیں۔ اللہ شیخ الاسلام مولانا طاہر القادری کا بھلا کرے، اب ہر امیدوار کو باسٹھ تریسٹھ کی چھلنی سے بہر حال گزرنا پڑے گا، کم از کم مالی امور میں یقینا کیا کیا کچھ سننے میں نہیں آ رہا۔ اب وفاقی ٹیکس محتسب شعیب سڈل کی سن لیں کہ پاکستان میں تیس کھرب روپے سالانہ ٹیکس چوری ہوتا ہے۔ ان کے مطابق ستر فیصد اراکین پارلیمنٹ ٹیکس گوشوارے جمع نہیں کرواتے، لگے ہاتھوں ایک خبر اور سن لیں۔ اسلام آباد میں اربوں روپے مالیت کا ایک کمرشل پلازہ کوڑیوں کے بھاﺅ فیصل کریم کنڈی کو الاٹ کر دیا گیا۔ یہ صاحب قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر ہوتے ہیں۔ عمران خان نے اپنے ایک ٹی وی انٹرویو میں بتایا کہ اڑھائی کروڑ پاکستانی بچے سکول نہیں جا رہے۔ ان کےلئے سکولوں کا بندوبست نہیں۔ جو بچے سکول جا رہے ہیں ان کی رام کہانی ہم آپ کو بتائے دیتے ہیں۔”تنخواہوں کےلئے پیسے نہیں ہیں۔ ہم یونیورسٹیاں بند کرنے پر مجبور ہیں“۔ یہ واویلا یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر مچا رہے ہیں۔ سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے ایجوکیشن اینڈ ٹریننگ کے اجلاس میں یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر ملازمین کی تنخواہوں کا 20 فیصد اضافہ کے 5 ارب 91 کروڑ روپے نہ ملنے پر پھٹ پڑے۔ پشاور یونیورسٹی کے وائس چانسلر امتیاز گیلانی کہہ رہے ہیں”آئندہ ماہ تنخواہ ادا کرنے کیلئے پیسے نہیں ہیں۔ گرانٹ نہ ملی تو یونیورسٹی بند کرنے پر مجبور ہونگے“۔ مردان سے خاں عبدالولی خاں یونیورسٹی کے وائس چانسلر احسان خاں یہی رونا رو رہے ہیں۔ اساتذہ اور ملازمین کی ماہانہ تنخواہ تین کروڑ روپے ہے جبکہ ایچ ای سی سے سالانہ گرانٹ صرف ایک کروڑ روپے ملتی ہے۔ سو ہم بھی یونیورسٹی بند کرنے پر مجبور ہیں“۔پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر مجاہد کامران بھی شور مچا رہے ہیں۔ ”صوبائی حکومت یونیورسٹی کو ایک پائی گرانٹ نہیں دیتی۔ 70 فیصد اخراجات یونیورسٹی خود پورے کرتی ہے“ ظاہر ہے یہ آمدن بچوں سے فیسوں کی مد میںہی ہو سکتی ہے۔ کہاں تک سنو گے کہاں تک سنائیں۔ برادرم حفیظ اللہ خان نیازی خلق خدا کو امرانہ ٹھاٹھ سے جلسہ گاہ پہنچنے کی ترکیب نہ ہی بتائیں تو اچھا۔ بہت ہو چکا، اب لوگ پیدل راستے سے ہی پہنچ جائینگے۔ اب تخت گرائے جائینگے اب تاج اچھالے جائینگے، اب ہر چوک تحریر اسکوائر بنے گا۔ کیا ذوالفقار علی بھٹو سوچ سکتے تھے کہ ان کی پارٹی کے چیئرمین انکے نواسے کو لاہور جو کبھی پیپلزپارٹی کا قلعہ ہوا کرتا تھا، میں بم پروف اور جیالا پروف محل میں ٹھہرنا پڑےگا۔
”بحریہ ٹاﺅن میں بم پروف اور جیالا پروف محل“
Feb 18, 2013