لندن (تجزیاتی رپورٹ:خالد ایچ لودھی) گزشتہ پانچ سالوں سے پاکستان پیپلزپارٹی کے ساتھ حکومت میں شریک رہنے والی ایم کیو ایم اب حکومت سے الگ ہو گئی، اس اتحاد کے ٹوٹنے میں بھی پراسراریت کا عنصر موجود ہے کیونکہ اس وقت لندن میں گزشتہ چند دنوں سے ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین سیاسی منظر نامے سے غائب ہیں ایم کیو ایم کے قریبی ذرائع کے مطابق الطاف حسین کی طبیعت ناساز ہے اور وہ علیل ہونے کی وجہ سے لندن میں رحمن ملک، صدر زرداری اور وزیراعظم راجہ پرویز اشرف سے بھی ملاقات نہ کرسکے آئندہ چند گھنٹے انتہائی اہم ہیں، دیکھنا یہ ہے کہ اگر واقعی گورنر ڈاکٹر عشرت العباد اپنے عہدے سے مستعفی ہو جاتے ہیں اور حکومت اپنا نیا گورنر سندھ میں لے آتی ہے تو پھر اس میں واقعی ایم کیو ایم کی سیاسی حکمت عملی شامل ہے ورنہ پھر وہی سیاسی چال لگتی ہے جو کہ چند سالوں سے بار بار چلی جاتی رہی ہے بہرحال اب حالات کچھ بھی ہوں پاکستان پیپلزپارٹی کی اپنی حکمت عملی یہ ہے کہ آئندہ انتخابات میں بھرپور مینڈیٹ حاصل کیا جائے اور زیادہ سے زیادہ سیٹیں حاصل کی جائیں لیکن اس وقت زمینی حقائق جو نظر آرہے ہیں انکے مطابق سندھ میں پیپلزپارٹی کو پاکستان مسلم لیگ (ن) ٹف ٹائم دےنے جا رہی ہے اور کراچی میں ایم کیو ایم اپنا ووٹ بنک مسلسل برقرار رکھے ہوئے ہے اسی طرح پنجاب میں بھی پاکستان مسلم لیگ (ن) کا ووٹ بنک برابر اپنی جگہ برقرار ہے، اندر کی یہ بھی خبریں ہیں کہ پیپلزپارٹی کے جن ایم پی اے حضرات نے پارٹی چھوڑ کر مسلم لیگ (ن) میں شمولیت اختیار کی ہے اب مزید ایم این اے اور ایم پی اے حضرات بھی پیپلزپارٹی چھوڑ کر کسی دوسری پارٹی میں شمولیت کا سوچ رہے ہیں زیادہ ترامکان یہ ہے کہ میاں شہبازشریف کی سیاسی بصیرت ان ممبران اسمبلی کو پاکستان مسلم لیگ (ن) میں لانے میں کامیاب ہو جائے گی۔ صدر زرداری بلاول بھٹو زرداری کے ہمراہ جتنا عرصہ بھی لاہور میں اپنے محل میں قیام پذیر ہے اس دوران پہلی مرتبہ وہ اپنی سیاسی چالوں میں ناکام ہوئے ہیں۔ ایسا لگ رہا ہے کہ پانچ سالہ بدترین حکمرانی پیپلزپارٹی کو لے ڈوبے گی، تحریک انصاف اس خلا کو پورا کرنے میں کامیاب ہو سکتی ہے یعنی اقتدار میں نہ سہی اپوزیشن میں عمران خان کا کردار بڑا واضح نظر آرہا ہے۔