ایک سوال پوچھا گیا ہے کہ کیا فوج کا مورال کانچ کا بنا ہوا ہے جو عمران خاں کے ایک بیان سے ٹوٹ جائے گا۔
عمران خان کے اس بیان پر بحث جاری ہے کہ جنرل کیانی نے وزیر اعظم کے سامنے ان کے سوال پر بتایا تھا کہ شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کی کامیابی کا صرف چالیس فیصدچانس ہے۔سینیٹ میں بات کرتے ہوئے ایک معزز رکن نے کہا کہ عمران کے اس بیان سے فوج کا مورال گرنے کا اندیشہ ہے، اس لئے وزیر اعظم وضاحت فرمائیں کہ کیا جنرل کیانی نے ایسی کوئی بات کی تھی یا نہیں۔اور کہیں ایسا تو نہیں کہ عمران خان نے خود ہی یہ بیان گھڑ لیا ہو۔
جنرل کیانی نے وضاحت جاری کر دی ہے کہ انہوںنے ایسا کوئی بیان نہیں دیا۔
تاہم ترکی سے واپسی پر طیارے میں ایک صحافی سے بات کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ مختلف اعدادو شمار پیش کئے جاتے رہے ہیں۔وزیر اعظم نے سیدھا جواب نہیں دیا کہ آیا کیانی نے ایسی کوئی بات کی یا نہیں۔اس طرح کیانی کی وضاحت کے باوجود معاملہ بدستور الجھا ہوا ہے۔
اور اب یہ سوال اٹھا دیا گیا ہے کہ کیا فوج کا مورال کانچ کا بنا ہوا ہے۔سوال کرنے والے سے بعید نہیں تھا کہ وہ یہ کہہ دیتے کہ فوج کو کوئی مورال ہے ہی نہیں۔کیونکہ جن لوگوںنے پاک فوج کے خلاف ادھار کھا رکھا ہے ، وہ اپنے بغض کاا ظہار کئے بغیر رہ ہی نہیں سکتے۔
اب میں اس مسئلے پر دیگر کئی حوالوں سے بات کروں گا۔
عمران خان نے کینسر کا ہسپتال بنا کر ایک معجزہ انجام دیا۔ پہلے کرکٹ کی کلغی، اس پر کینسر ہسپتال کی تعمیر، ان کے پاﺅں کہیں زمین پر ٹکتے ہیں نہ تھے۔ان دو ہوائی گھوڑوں پر سوار ہو کر عمران نے سیاست کاا ٓغاز کر دیا، اور کہیں بارہ سال بعد اس کی اللہ نے سنی اور اسے ایک صوبے کی حکومت ملی۔ اب ہر کوئی جانتا ہے کہ عمران نے تبدیلی کا نعرہ لگایا تھا، سوال یہ پوچھا جاناچاہئے کہ کیا صوبہ سرحد کی حد تک تبدیلی آ گئی اور اگر نہیں تو مستقبل قریب یا بعید میں تبدیلی رونما ہونے کا کتنے فیصد چانس ہے۔
عمران خان سے یہ سوال بھی پوچھا جانا چاہئے کہ اس کے کینسر ہسپتال میں جان بچانے کا کتنے فیصد چانس ہے۔اول تو حضرت صاحب بوڑھے مریض کو داخل ہی نہیں کرتے تاکہ مرنے والوں کی شرح بڑھتی نہ جائے، ہمارے سامنے عباس اطہر لاہور کے ایک فوجی ہسپتال میں جو کینسر کے علاج کی مہارت نہیں رکھتا ، اللہ کو پیارے ہو گئے، انہیں تو عمران نے داخل نہیں کیا بلکہ وہ ان کا حال چال پوچھنے کے لئے بھی ان کے سرہانے نہیں پہنچے۔اسی لاہور شہر میں احمد ریاض شیخ کے برادر نسبتی اور ہماری بہن شبینہ شیخ کے بڑھے بھائی کو کینسر لاحق ہوا تو عمران خان کے ہسپتال نے ان کو داخلہ دینے سے انکار کر دیا، لاہور کے اس شخص کو کراچی آغا خان منتقل کیا گیا ور پھر وہ واپس لاہور ہی میں شیخ صاحب کے گھر کے ایک کمرے میں زندگی کی گھڑیاں گننے پر مجبور ہو گئے، تو عمران خان کا ہسپتال اگر کسی کو زندگی نہیں دے سکتا تو مرنے کاموقع بھی نہیں دیتا ، صرف اس لئے کہ کامیابی کا ریکارڈ خراب نہ ہو جائے۔
چھوڑیئے اس قصے کو، کینسر تو ایک موذی مرض ہے، لاہور ہی میں دو سال قبل ڈینگی پھیلا، روازنہ لوگ مرنے لگے ، یہ ایک ناگہانی آفت تھی اور لاہور میں کونسا بڑا ڈاکٹر نہیں جو سرکاری ہسپتالوں سے تنخواہ نہیں پاتا اور ذاتی کلینک بھی نہیں چلاتا لیکن ڈینگی نے کئی سو جانیں لے لیں، صرف سردی کی شدت نے مچھر کا خاتمہ کیا اور لوگوںنے سکون کا سانس لیا، پنجاب میںخادم اعلی کی حکومت تھی مگر ڈینگی کے مقابلے میں ان کی کامیابی کی شرح افسوس ناک حد تک کم تھی ، تو کیا خادم اعلی نے ڈینگی کے خلاف ہتھیار ڈال دیئے تھے، ہر گز نہیں ، وہ اس کے خلاف لڑتے رہے اور اگلے سال ڈینگی سر نہ اٹھا سکا مگر اب کے لاہور میں ملک کے سب سے بڑے دل کے ہسپتال نے لوگوں کوجعلی دوائیں دے دیں جس سے ایک بار پھر سینکڑوں کی تعداد میںمریض دم توڑ گئے۔کیا اس سے خادم اعلی یا لاہور کے معالجوںکے لشکر کا مورال ڈاﺅن ہوا، ہر گز نہیں ،اس کی ویکسین بنائی گئی اور موت کا راستہ روک دیا گیا۔ دل کا مرض بھی بے حد موذی ہے مگر کھانسی کا شربت تو عام سی بات ہے، اس نے بھی زہر کی شکل اختیار کر لی اور ایک بار پھر ہلاکتوں کا سلسلہ چلا نکلا،کیا موت کے پھیلتے ہوئے سایوں کو دیکھ کر کسی کا مورال ڈاﺅن ہوا یا کسی نے یہ سوال بھی کھڑا کیا کہ اب کیا ہو گا، انسان کا فرض ہے ہمت کرے ، نتیجہ خدا کے ہاتھ میں ہے۔
لاہور ہی میں خادم اعلی نے میٹرو کا منصوبہ بنایا مگر اس کی پہلی سالگرہ میں ہفتہ عشرہ باقی تھا کہ یہ سڑک کئی مقامات سے ادھیڑ دی گئی ہے، اب پل بنیں گے ، فلائی اوور تعمیر ہوں گے، شنگھائی ماڈل کی باتیں ہو رہی ہیں اورنوجوان انٹرنیٹ پر اس کی تصویریں دیکھ کر دل بہلا رہے ہیں ۔ ایک بار پھر وہی نعرہ کہ آج کی زحمت کل کی رحمت۔اور کئی سو بلڈنگوں کو مسمار کر دیا گیا ہے۔ ایک ہسپتال کی شامت آ گئی ہے، کیا میٹرو کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے کسی نے پوچھا تھا کہ اس سے ٹریفک کے بہاﺅ اور روانی میں آسانی پیدا ہونے کا کتنے فی صد چانس ہے۔
پچھلے سال الیکشن ہوئے، ن لیگ نے نعرہ لگایا کہ لوڈ شیڈنگ چھ ماہ میں ختم کر دیں گے، کشکول توڑ دیں گے، مہنگائی کا خاتمہ کر دیں گے، کیا یہ سب کچھ ہو گیا اور کتنے فیصد چانس ہے کہ اگلے پانچ سال میں یہ وعدے پورے ہو جائیں گے۔سابقہ ادوار میںاسی ن لیگ نے لاہور اسلام آباد موٹر وے کا بیڑہ اٹھایا تو خواب دکھایا کہ یہ جنوبی ایشیا کی نہر سویز ہے، بر صغیر کو وسط ایشیا کی منڈیوں سے ملائے گی۔ذرا آنکھیں مل کر دیکھئے کہ اس خواب کی تعبیر ملنے کا کتنے فی صد چانس ہے، اب ایک نیانعرہ ہے کہ شنگھائی کو گوادر سے ملائیں گے اور دنیا میں تجارت کا ایک انقلاب برپا کر دیں گے، دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ کیا واقعی آپ سمجھتے ہیں کہ دنیا کی بلند تریں پہاڑی چوٹیوں سے گزرتا ہوا یہ نیا تجارتی کوریڈور حقیقت کا روپ دھار سکے گا، اگر یقین ہے تو کتنے فیصد ۔
جنرل کیانی نے کیا کہا یا کیا نہیں کہا، ہمیں صرف یہ انتظار تھا کہ اپنی فوج کو رگڑا لگانے کا موقع ملے۔بالفرض عمران خان کے کینسر ہسپتال کی طرح فوج یہ بھی کہہ دے کہ دہشت گردی کا کینسر قطعی طور پر لاعلاج ہے تو کیا ہم اسے سولی پر لٹکا دیں گے، جنرل کیانی نے اول تو تردید کر دی ہے ، لیکن اگر انہوںنے چالیس فیصد کی بات کی بھی تھی تو پھر بھی غنیمت ہے، آس تو باقی ہے۔وزیر اعظم کی طرح کھردرا بیان تو نہیں دیا کہ یہ نہ کہنا کہ شیر بجلی کھا گیا۔