بھارت کے دارالحکومت دہلی سے چلنے والی تبدیلی کی ہوائیں پاکستان کے مجبور ، بے کس عوام کے لئے کسی ٹھنڈے ہوا کے جھونکے سے کم نہیں ہے۔ ہر طرف کیجروال کی قیادت اور عام آدمی پارٹی کی کامیابی کے چرچے ہیں جس نے بھارت کی دو مقبول ترین سیاسی جماعتوں بی جے پی اور کانگریس کی سیاست پر جھاڑو پھیر دیا ہے۔ اروند کیجروال ایک مڈل کلاس گھرانے کا تعلیم یافتہ نوجوان جس نے Parivartan نامی NGO سے عوامی خدمت کا آغاز کیا اور سچے، بے لوث ، مخلص خدمت کار کی حیثیت سے Magsaysay ایوارڈ وصول کرنے والا انا ہزارے کی عوامی حقوق کے جدوجہد کی تحریک میں شامل ہوا۔ اپنی انتھک شخصیت اور محنت کے سبب جہاں انا ہزارے کی تحریک کو عروج پر پہنچایا وہاں پر ایک عوامی خدمت گار کے طور پر اُبھر کر سامنے آیا۔
انا ہزارے سے عوامی حقوق کے حصول کے لئے طریقے کار پر اختلاف رائے ہوا۔ کیجروال کا کہناتھا کہ سیاسی کردار اداکئے بغیر عوام کے حقوق حاصل نہیں کئے جاسکتے۔ اس نقطے پر اپنی راہیں جدا کی اور ایک نئی سیاسی جماعت بنائی جس کو عام آدمی پارٹی کا نا م دیا گیا۔ واقفانِ حال بتاتے ہیں کہ تحریک ِ انصاف کے اندر بہت سارے سینئر راہنما بشمول چیئرمین عمران خان عام آدمی پارٹی کی جیت سے بہت خوش ہیں اور سمجھتے ہیں کہ جیسے بھارت کے غریب عوام نے نظام بدلنے اور برابری و انصاف کے نام پر دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کو عبرتناک شکست دی ہے۔ تحریکِ انصاف بھی پاکستان میں سٹیٹس کے بت کو پاش پاش کرنے میں کامیاب ہو جائے گی اور لوگ تبدیلی کے نام پر تحریکِ انصاف کو ووٹ دیں گے۔
لیکن دیکھنا یہ ہے کہ تحریکِ انصاف کے چیئرمین اپنے تھنک ٹینک کے ساتھ کتنی باریک بینی سے اس کے تقابلی جائزہ کے بعد عام آدمی پارٹی کی کون سی اچھی باتوں اور حکمتِ عملی کو اپنے مستقبل کی سیاست میں بروئے کار لاتے ہیں۔ عمران خان کے پاس اب غلطی کی کوئی گنجائش نہیں ۔
پاکستان اور بھارت کی گرائونڈ رئیلٹی میں فرق کو ذہن نشین رکھنا ہو گا۔ پارٹی میں دو آراء پائی جاتی ہیں ایک یہ ہے کہ حقیقی تبدیلی کے لئے 90ڈگری کے اینگل سے پاکستانی انتخابی سیاست کو تبدیل کر نے کے لئے پڑھے لکھے اچھے کردار کے نئے چہروں کے ساتھ الیکشن دنگل میں اترا جائے جبکہ دوسری رائے یہ ہے کہ فی الحال پاکستان کی سیاست کی گرائونڈ ریئلٹی کی حقیقت کو مانتے ہوئے پڑھے لکھے اچھے کردار کے اُمیدواروںکو آگے لایا جائے مگر وہ جو عوام میں مقبول اور اپنا اثرورسوخ رکھتے ہوں۔ اس آرا ء کے حامی رہنما پچھلے الیکشن کے کچھ حلقوں کے نتائج کو بطور دلیل پیش کرتے ہیں جو کہ حقیقت سے قریب نظر آتی ہے۔ اور جس کا اعتراف خود عمران خان نے یہ کہہ کر کیا کہ اس دفعہ وہ اُمیدواروں کے انٹرویوز اور ٹکٹ خود جاری کرینگے۔ رنگ ، نسل ، زبان، فرقوں میں بٹی پاکستانی قوم کو درست سمت ڈالنا کوئی آسان کام نہیں ۔ تحریکِ انصاف KPK میں بلدیاتی انتخابات کروا کر آئیڈیالوجی کے حامی نئے نوجوان چہروں کے آگے لاکر مستقبل کی لیڈر شپ کے لئے پنیری لگا سکتی ہے۔ اب عمران خان پارٹی کو ایک ادارہ بنانے اور تنطیم نو کے لئے پوری طرح متحرک نظر آتے ہیں ۔ عمران خان کا اصل امتحان آئیڈلوجی اور گرائونڈ رئیلٹی کا حسین امتزاج بنانا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ کس طرح اپنی پارٹی میں دونوں آراء کا حسین امتزاج بناکر اگلے الیکشن میں اترتے ہیں ۔
کیجر وال نے الیکشن سے چھ ماہ قبل ہی تمام اُمیدواروں کو نامزد کر دیا تاکہ اُن کو انتخابی مہم کا پورا وقت میسر آسکے جبکہ پچھلی دفعہ تحریکِ انصاف نے ٹکٹ آخری دن جاری کئے۔ جس کے سبب دیہی علاقوں میں امیدوار اپنے تمام حلقے میں جاکر ووٹ بھی نہ مانگ سکے۔ عام آدمی پارٹی کے سربراہ نے دہلی میں خود الیکشن مہم کے دوران گھر گھر جاکر براہ راست ووٹر سے رابطہ کیا جبکہ پاکستان میں کسی لیڈر کے لئے یہ ممکن نہیں ۔
ہاں البتہ اگر جماعت کا سربراہ اپنی پارٹی کے ضلعی راہنمائوں تک بھی ملتا رہے تو اس کے خاطر خواہ نتائج برآمد ہونے کے امکانات ہیں۔ عام آدمی پارٹی نے پہلی دفعہ سیاسی تاریخ میں ہر حلقے کے مسائل کی نشاندہی کی اور اُن کو حل کرنے کے وعدوں پر ووٹ لئے جو کہ پاکستان میں بھی ممکن ہے۔ تحریک ِ انصاف اور عام آدمی پارٹی کے منشور میں حیرت انگیز مماثلت ہے۔ انصاف، تعلیم ، برابری، کرپشن کا خاتمہ دونوں پارٹیوں کے بنیادی سلوگن ہیں۔ لیکن اروند کیجروال اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ اُس کے صوبے میں ایک طاقتور اورغیرجانبدار الیکشن کمیشن موجود ہے جو عوامی رائے اور ووٹ کے تقدس کی حفاظت کرنا جانتا ہے۔
جمہوری تسلسل کے باعث مخالفین کی حکومت ہوتے ہوئے بھی کیجروال انتخابات جیت جاتا ہے اور دھاندلی کاشور بھی نہیں اُٹھاتا جبکہ پاکستان میں اپنے حمائتی سکول ٹیچروں کی بطور پریزائیڈنگ افسر تعیناتی سے لے کر اوپر تک مخالفین کی سخت مذاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ عمران خان کیجروال جتنا خوش نصیب نہیں کہ اُس کو دہلی کے جیسے غریب عوام ووٹ ڈالنے کے لئے میسر ہوں ۔ اُس کو اسی معاشرہ میں اسٹیٹس کو کے خلاف جنگ لڑنی ہے جہاں نادیدہ قوتوں کے ساتھ محاذ آرائی ممکن نہیں ۔ جہاں برادراسلامی ملکوں کی مداخلت اب چھپی بات نہیں۔ جہاں اسٹیبلشمنٹ خود کو اتنی طاقتور اور محب وطن سمجھتی ہے کہ وہ خود اپنی مرضی کی پارٹی کو انتخابات میں جتوانا اپنا حق سمجھتی ہے۔ اس ملک کے کچھ میڈیا ہائوسزبھی کنگ میکر بننے کے لئے انتخابات میں حصہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پاکستان کا الیکشن کمیشن اپنی کریڈیبلٹی کے لحاظ سے انڈین الیکشن کمیشن سے کوسوں دور ہے۔
ان حالات میں جب ملک میں دہشت گردی اور امن و امان کی حالت مخدوش ہوجہاں مسائل کے انبار لگے ہوں ۔ عمران خان کے پاس ایڈونچر کرنے کاکوئی آپشن موجود نہیں سوائے کامیابی کے۔ تحریکِ انصاف کے الیکشن جیتنے کے نتیجے میں ہی اُس کی حکومت بن سکتی ہے اور نظام بدلنے کے لئے حکومت میں آنا بہت ضروری ہے۔