لاہور (بی بی سی+ نامہ نگار) حالیہ برسوں میں خودکش دھماکوں کی ایک طویل فہرست ہے اور ایسے حملوں کو روکنے پر حکام اپنی مجبوریوں کا کئی بار اظہار بھی کر چکے ہیں تاہم ایسے واقعات کے بعد تحقیقات کرنے والے حکام کو خودکش بمبار کے سر کی صورت میں ایک اہم ثبوت مل جاتا تھا اور اس ثبوت سے تحقیقات کو آگے بڑھانے میں مدد ملتی تھی لیکن حالیہ خودکش حملوں میں تفتیشی حکام کو کافی مشکلات کا سامنا ہو رہا کیونکہ ان کو جائے وقوعہ سے حملہ آور کا سر نہیں ملتا۔ شدت پسندی کے واقعات کے بعد جائے وقوعہ سے شواہد جمع کرنے والی ٹیم کے ایک رکن نے نام نہ ظاہر کی شرط پر بتایا کہ حالیہ واقعات میں خودکش دھماکے کے بعد سر نہ ملنے کی وجہ یہ ہے کہ حملہ آوروں اور ان کے ہینڈلرز نے طریقہ کار تبدیل کر لیا ہے۔ پہلے خودکش بمبار سیدھا کھڑے ہو کر اپنے آپ کو اڑاتے تھے لیکن اب خودکش حملہ آور رکوع کی حالت میں دونوں ہاتھ چھاتی سے تھوڑا نیچے باندھ کر خود کو دھماکے سے اڑاتے ہیں۔ انہوں نے اس طریقے کے پیچھے سوچ کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا سیدھا کھڑے ہو کر دھماکے کرنے کی صورت میں بمبار کا سر عموماً تن سے جدا ہو جاتا تھا اور دوسرا اس کے بازو یا ہاتھ بھی الگ ہو جاتے تھے لیکن اس نئے طریقے کی وجہ سے ایک تو سر مکمل طور پر اڑ جاتا ہے اور دوسرا ہاتھوں کی انگلیاں بھی ضائع ہو جاتی ہیں۔ اسی لیے انگلیوں کے نشان ملنا بھی ناممکن ہو جاتا ہے۔ طریقہ کار کی تبدیلی کے باعث اس سے ہونے والے جانی نقصان میں کوئی کمی واقع ہوئی ہے یا نہیں کے جواب میں جائے وقوعہ سے شواہد جمع کرنے والی ٹیم کے رکن نے کہا کہ خودکش جیکٹ میں آگے اور پیچھے دونوں جانب دھماکہ خیز مواد اور بال بیئرنگ استعمال کئے جاتے ہیں۔ رکوع کی پوزیشن میں دھماکہ جب کیا جاتا ہے تو اس سے اگر سامنے کی جانب کم نقصان ہوتا ہے تو عقبی جانب زیادہ نقصان ہو سکتا ہے۔ انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ لاہور میں کچھ عرصہ پہلے واہگہ سرحد پر ہونے والے خودکش حملے میں بھی یہی طریقہ کار استعمال کیا گیا تھا۔ ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ پولیس لائنز قلعہ گجر سنگھ کے باہر دھماکہ کر نے والا خودکش بمبار ہلکی نیلی جینز کی پینٹ میں ملبوس تھا، دونوں ہاتھ نہ ملنے اورگنجان علاقے کی وجہ سے فون ڈیٹا اکٹھا نہ ہونے پر شناخت مشکل ہو گئی۔