چین پاکستان اقتصادی راہ داری منصوبہ یعنی سی۔پیک۔کے بارے میں شاید ہر خاص و عام اتنا ضرور جانتا ہے کہ اِس کی وجہ سے اللہ نے چاہا تو ہمارے ملک کی قِسمت بدل سکتی ہے۔یہ حقیقت بھی روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ ( بھارت کے علاوہ بھی) کچھ ممالک کو یہ ترقی ٹھنڈے پیٹوں قطعاََ برداشت نہیں ہو رہی ہے اور نہ ہو گی۔پچھلے پانچ دِنوں میں مسلسل آٹھ بڑے دہشتگرد حملے ہوئے ہیں جِن میں 100 سے زیادہ افراد شہید اور 300 زخمی ہوئے۔ جب ملک کے اندر مختلف متحارب گروپ اور سیاسی پارٹیاں آپس میں دست بہ گریباں ہوں، عوامی سطح کے مسائل حل کرنے کروانے والے کونسلروں کے پاس فنڈ ہی نہ ہوں، صوبائی اور قومی اسمبلیوں میں عوامی و وٹوںسے جیتنے والے ، اپنے حلقے سے دو ر لاتعلق ہو کر اسلام آباد، حیات آباد، لاہور اور کراچی میں رہتے ہوں، جہاں کے لیڈران اور اُن کی اولادیں امریکہ، برطانیہ اور دوبئی میںپڑھی ہوں، جہاں کے اسپتالوں میں عوام کو جینے اور زندہ رہنے کی سزائیں ملتی ہوں جہاں سیاسی اور حکومتی لیڈران قدم بھی رکھنا پسند نہ فرماتے ہوں وہاں جو ہو گا کم ہو گا۔ چین ہمارا ہر موسم کا آزمودہ دوست ہے ، یقیناََ ٹھوس یقین دہانیوں کے بعد ہی اُس نے اِس قدر سرمایہ کاری کی ہے اِس میں اندرونِ ملک امن و امان اور آزاد نقل و حمل بھی ہے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ دہشت گرد گروپ آسانی سے دہشت گردی نہ کر سکیں بلکہ بالکل نہ کرسکیں۔ ضربِ غضب کا رعب و دبدبہ جاری رہنا ضروری ہے۔ ضیاء دور میں دہشت گردی کی کاررو ائیوں کو لیبیا کے معمر قذافی سے جوڑا گیا۔پھر سندھ میں بعض علیحدگی پسند گروپوں کے نام منظر پر آئے۔کالعدم مذہبی عسکری تنظیمیں بھی دہشت گردی میں ملوث پائی گئیں۔پشاور میں کھلے عام روس، افغانستان اور بھارت کے لئے نرم گوشہ رکھنے والے اوّل روز سے موجود ہیں۔ایک صاحب تو پاک سر زمین پر دفن نہ ہونے کی وصیت کر کے دنیا سے رُخصت ہوئے ۔ برطانیہ کے بارے میں شرمندگی کے ساتھ لکھنے پر مجبور ہوں کہ 1997-98 میں جب ملکہ ء برطانیہ نے پاکستان کا دورہ کیا تو ایک موقع پر اُس وقت کے اسپیکر قومی اسمبلی جناب الٰہی بخش سومرو نے ’’ ہم آج بھی آپ کی رعایا ہیں ‘‘ کہہ کر پوری قوم کو برطانیہ نواز بنا ڈالا۔یہ بات تھڑے ، پان سگریٹ کے کھوکوں ، گلی محلے کے ہئیر ڈریسروں کی دُکانوں اور عوامی چائے خانوں میں حالاتِ حاضرہ پر تبادلہء خیال کرنے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہمارے ہاں کے بیشتر فیصلے واشنگٹن سے یا پھر وہاں سے منظوری سے ہوتے رہے ہیں۔تقریباََِِ ہر ایک حکومت جب اِن کے اشارے یا بیساکھیوں پر آتی ہے تو پھر مرضی بھی تو اُن کی ہی چلے گی نا؟ پڑوس کے کھلے دشمن اور دوست نما دشمن کب چاہیں گے کہ گوادر کی صورت میں پاکستان بھی ترقی اور شادمانی کی بہاریں دیکھے؟ وہ تو شاید صرف ’ امارات ‘ اور ’ ایران ‘ ہی کا حق ہے۔غیر تحریری روایات تو یہ بھی ہیں 1973-74 میں OGDC نے سندھ اور بلوچستان کی ساحلی پٹی اور پاکستانی سمندر ی حدود میں تیل اور دیگر معدنیات کا سروے کیا؛ جِس میں کئی مقامات میں تیل کے وافر مقدار میں موجود ہونے کے سراغ مِلے لیکن شاہ ایران کی ایماء پر معاملہ ٹھپ کروا دیا گیا۔منظر بدل گیا لیکن شاید سی ۔پیک ۔ سے پاکستان کی ترقی ایران کو بھی پسند نہیں ہو گی۔ یہ کون نہیں جانتا کہ امریکہ کا (سابقہ) سوویت روس کے حصے بخرے کرنا پاکستان کی مدد سے ہی ممکن ہوا لہٰذا موجودہ روسی قیادت ، برسرِ اقتدار اور حزبِ اِختلاف پاکستان کے لئے کوئی نرم گوشہ رکھتی ہوں گی، بظاہر ممکن نہیں لگتا۔ہاں ٹھیک ہے کرکٹ کے کھیل کی طرح بین الاقوامی تعلقات کے کھیلوں میں بھی کوئی حکمتِ عملی یکساں نہیں رہتی۔اِس کی مثال ہم نے دہلی میں پاکستان کے مشیرِ خارجہ جناب سرتاج عزیز کے سلسلے میںبھارتی ناروا سلوک پر روس کی جانب سے فوری ’ شٹ اپ کال ‘ کی صورت میں دیکھی بھی ، لیکن اَس سے زیادہ کی اُمید نہیں رکھنا چاہیے۔ روس کے مفادات خود روسی بہتر سمجھتے ہوں گے ، موجودہ روسی قیادت کی ایک مخصوص سوچ اور نظریہ ہے۔ روس بھی سی۔پیک ۔ کے سلسلے میں دلچسپی لے رہا ہے۔چین کے سیاسی نظریات اِس سے کچھ مختلف ہیں۔بعض جگہوں پر دونوں مملک کے مفادات ایک جیسے بھی ہیں۔ یہاں بات اثر و رسوخ کی ہے۔ ماسکو نواز گروپ پاکستان میں پہلے ہی موجود ہے۔ جب مفادات کی بات ہو گی تو کئی ایک متبادل سامنے آئیں گے؛ مثلاََ حکومتی سطح کی بات چیت، بیک چینل پالیسی اور جب کچھ نہ بن سکے تو یہ گروپ تو ملک میں موجود ہیں ناں ! اِن سے ہلکا پھلکا پریشر ڈلوانا کون سا مشکل کام ہو گا۔بھارت تو ہمارا اعلانیہ دشمن ہے ، اُس کا ذکر اب کیا کرنا لیکن ضرورت اِس بات کی ہے کہ منافقت کرنے والے اِسلامی مما لک سے معاملات ٹھیک کئے جائیں۔اِس وقت دہشت گردی کی جو تازہ لہر آئی ہے اُس میں افغانستان کا نام لیا جا رہا ہے بلکہ حکومتِ پاکستان نے باقاعدہ افغانستان کے صدر اشرف غنی سے احتجاج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔اب جو کام کوئی نہ کر سکا وہ ہمارے ٹاک شو اور اینکر خواتین و حضرات کر رہے ہیں۔ایک سنسنی پھیلائی جا رہی ہے۔اِن میں بعض تو ایسے ہیں کہ آج اِس ٹی وی چینل میں اور کل اُس کے حریف چینل میں۔ہمارے ملک کے اہم ہوائی اڈے، پاکستان ٹیلی وژن کارپوریشن، پاکستان براڈکاسٹنگ کار پوریشن ، لاہور شہر کی ایک اہم ترین شاہراہ وغیرہ جب امریکہ کی سرپرستی میں چلنے والے بین لاقوامی مالیاتی اداروں کے آگے رہن رکھی ہوئی ہوں تو آپ کا کیا خیال ہے کہ امریکہ کی مرضی کے بغیر کیا یہ ہونے والی ترقی ممکن بھی ہوسکتی ہے؟کیا ایسا تو نہیں کہ مستقبل کی اقتصادی منڈیوں پر نظر رکھتے ہوئے امریکہ اور روس (اور دیگر ممالک) چین کے ذریعہ اپنے اپنے مقاصد حاصل کرنے کا منصوبہ بنائے بیٹھے ہوں؟ کہیں اِن ممالک کی آپس کی کشمکش میں ہونے والا مالی اور جانی نقصان ہم نے تو نہیں بھرنا ہو گا؟ کہیں ہونے والی اِس عظیم الشان ترقی کی آڑ میں کوئی خطرہ کی گھنٹی تو نہیں؟
سی۔پیک۔ ترقّی یا خطرہ کی گھنٹی ؟
Feb 18, 2017