مارچ ہنگامہ خیز ہو گا؟

ہمارے ملک میں سیاسی بے یقینی کوئی پہلی بار منظرعام پر نہیں آئی، یہ تو ہر روز کا معمول ہے اور اگر بے یقینی نظر نہ آ رہی ہو تو یار دوستوں میں بے چینی پھیلی نظر آتی ہے۔ ہر تین سال بعد سینٹ کے انتخابات کے موقع پر کوئیک مارچ یا ڈبل مارچ کی باتیں جنوری کے مہینہ میں بھی کہی جانا شروع ہو جاتی ہیں۔ اس مبالغہ آرائی میں ہر کوئی شریک ہوتا ہے۔ اقتدار میں رہنے والے یہ سوال پوچھتے نظر آتے ہیں کہ اب کیا ہو گا اور اپوزیشن یہ کہہ رہی ہوتی ہے کہ مقتدر ادارے کسی بھی صورت سینٹ میں اکثریت نہیں لینے دیں گے۔ یہ وسط فروری کے دن ہیں ان دنوں بسنت کی بہاریں ہوا کرتی تھیں، لاہور شہر میں تو کئی ہفتوں قبل اس کی تیاری زور شور سے نظر آتی تھی، دیگر شہروں سے لاہوریئے چھٹی لے کر آیا کرتے تھے، جشن کا سماں ہوا کرتا تھا، مجھ جیسے جن کو پتنگ بازی آتی ہی نہیں وہ بھی لاہوریئے ہونے کے ناتے مزے مزے کے کھانے کے منتظر ہوتے تھے۔ ظلم کیا ان لوگوں نے جنہوں نے ایسی ڈور تیار کی جو گردن ہی کاٹ دیتی ہے، بے چارے معصوم بچے جان سے جاتے ہیں۔ میلوں میں پیسوں کا خرچ ہونا کوئی نئی بات نہیں، دنیا بھر میں میلوں کا انعقاد ہوتا ہے اور جو کوئی تفریح کیلئے جاتا ہے اس کو خرچ کی پرواہ نہیں ہوتی۔ یہ بسنتی رنگ کا میلہ سرسوں کی کاشت اور کٹائی کے مراحل طے ہونے پر منایا جایا کرتا تھا، لاہور نے اپنائے رکھا اور ہرسو سے ایسے شیدائی لاہور اکٹھے ہو کر بوکاٹا اور بو کاٹا کے نعرے بلند کرتے تھے۔ یہ درست ہے کہ وقت کے ساتھ روایات بدل جاتی ہیں مگر زمین سے محبت کرنے والے جانتے ہیں کہ زمین اور کٹائی سے وابستہ تہوار مرا نہیں کرتے اور نہ ہی ان کو کوئی مرا رہنے دیتا ہے۔ پتنگ بازی ساری دنیا میں ہوتی ہے، اس کو اگر میدانوں میں تبدیل کر دیا جائے تو کوئی بُرا نہ ہو گا مگر حکومتی جبر ثقافت کو تباہ کرنے کی روایت کو ترک کر دے تو اسی میں بہتری ہے۔
عوام کو تفریح کا حق ہے، ذرا کوئی بتائے کہ ہمارے عوام کے پاس تفریح کیلئے کیا سہولیات ہیں، پارک ہیں تو ان پر حکمرانوں کے زیرنگر اور ساتھیوں کا اگر قبضہ نہیں تو ان پر شادی گھر بنا چکے ہیں، اگر شادی گھر سے بچ گئے ہیں تو زورآور وہاں اپنے جانور باندھتے ہیں۔ کچی آبادیاں ہیں تو گٹر کا پانی ان میں جمع ہے۔ غرض علاقہ کے لوگوں کے پاس کھیل کے لئے کوئی جگہ بھی باقی نہیں رہ گئی۔ ایک زمانہ میں لوگ سینکڑوں سینما گھروں میں چلے جاتے تھے مگر روایات پسند خاندان اس کو معیوب سمجھا کرتے تھے۔ بچے اگر گلیوں میں کھیلیں تو ان کے اغواءکار بھی موجود ہیں اور قتل ہونے کے امکانات بھی موجود ہیں۔ کسی صوبائی حکومت کو تعلیمی اداروں کے قیام سے کوئی دلچسپی نہیں اور قائم سکولوں سے ان کے نمائندوں کی وجہ سے حکومت کو چڑ سی ہو چکی ہے کیونکہ نہ تو مکمل وسائل دیئے جا رہے ہیں اور نہ ہی ان کے لئے غیرنصابی سرگرمیوں اور کھیل کود کے لئے کوئی میدان یا گراﺅنڈ بنانا ممکن ہو سکا ہے۔ ہر علاقہ کا ذمہ دار تعلیم کو بوجھ محسوس کرتا ہے اس لئے اس بارے اب سپریم کورٹ کو میدان عمل میں آ کر صورتحال کو بہتر بنانے کے لئے حکومتوں کو توجہ دلانے اور نوٹس لینے کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔ حکومتیں آئین سے انحراف کرتے ہوئے تعلیم پر توجہ نہیں دے رہیں اور ان کے نزدیکی لوگ اس کو کاروبار بنا کر اربوں پتی بن کر معاشرہ میں ایک نیا ہیجان پیدا کر رہے ہیں۔ تفریح اور کھیل نہ ہونے کے باعث معاشرہ کس اضطراب کا شکار ہے اس پر ایک تفصیلی جائزہ کی ضرورت ہے تاہم ڈھائی کروڑ بچے ہم نے تعلیمی اداروں میں جانے سے روک رکھے ہیں اس کی وجہ کوئی بھی ہو مگر 25 سال بعد پاکستاان میں اگر صورتحال یہ ہی رہی تو تقریباً چھ کروڑ لوگ جہالت کی زندگی گزارنے اور ملک کے وسائل پر بوجھ ہونگے۔ غربت اپنی انتہا پر ہو گی، جرائم کی شرح کسی بھی صورت کم نہ ہو گی اور نشہ آور اشیاءکا استعمال کس قدر بڑھ چکا ہو گا اس کا اندازہ ابھی کرنا باقی ہے۔
وسط فروری تک کی بات ذرا دور چلی گئی اور سینٹ کی بھی اس کے ساتھ ہی ساتھ۔ 28 جولائی کے سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعد سازش کا لفظ بے تحاشہ استعمال ہوا۔ اسمبلیوں کے ٹوٹنے، ٹیکنوکریٹ کی حکومت، غیرآئینی اقدامات، مارشل لائ، صوبائی اسمبلیوں کے برخاست ہونے، سینٹ کے انتخابات نہ ہونے کی بات ایک ایک کر کے سننے کو مل رہی تھی۔ کوئی بین الاقوامی سازش کی بات کر رہا تھا، کسی کا خیال تھا کہ عسکری قوت اس طرح کا کھیل کھیل رہی ہے، سپریم کورٹ کو بھی فریق بنایا جا رہا ہے۔ سپریم کورٹ پر تنقید اب بھی چل رہی ہے تاہم فوج کے بارے ذرا بات کم کر دی گئی ہے۔ وزیراعظم کو بھی اپنے وزیراعظم کا احساس ہے۔ کوئی قوم کو یہ نہیں بتا رہا کہ سازش کون کر رہا ہے، کس نے اسمبلی کو توڑنے کا اختیار حاصل کر لیا ہے، کونسا کام غیرآئینی ہو رہا ہے اور کوئی دس دن قبل اس بارے بھی بات نہ کر رہا تھا کہ دنیا بھر کی یہ کوشش ہے کہ پاکستان کو واچ لسٹ پر ڈال دیا جائے، امریکہ کے ساتھ تعلقات کی خرابی اور بحالی کی بات بھی جس انداز سے ہمارے ہاں کی جا رہی ہے واقعات اس سے کچھ مختلف ہیں۔ اگر آرمی چیف نے ہی وزیر خارجہ کا کام کرنا ہے تو خواجہ آصف کو کیوں نہ ایک بار پھر نج کاری کا وزیر لگا دیا جائے، ان کو تجربہ ہے کہ کس طرح نج کاری نہیں ہونے دینی۔ انہوں نے نج کاری نہ ہونے دینے کا تجربہ ماضی کی حکومتوں میں حاصل کر لیا تھا اور یوں وہ اپنی توانائی چودھری نثار علی خان پر صرف کر کے ملک میں توانائی کی کمی کو پورا کر لیں گے۔
خیر اب سینٹ کے انتخابات تو ہوا چاہتے ہیں بے چارے وزیر اسحاق ڈار اپنی جائیداد کی بیماری میں مبتلا ہو کر سینٹ کے لئے اپنے کاغذات نامنظور کروانے میں کامیاب ہو چکے ہیں، اپیل کیا کرنی، کل تک اس کی خبر ہو جائے گی مگر کوئی یہ تو بتلائے کہ قوم کی خدمت سے سرشار باوقار قیادت ملک میں سرمایہ کاری کے لئے جو لیکچر دے رہی تھی ان کا اب کیا بنے گا اور اگر وہ اگلی سینٹ میں شامل نہ ہوئے تو جو ناقابل تلافی نقصان جمہوریت کو ہونے کا اندیشہ لاحق ہو چکا ہے، وہ کیا زبیر گل پورا نہ کر سکیں گے اور کون نائب وزیراعظم کے طور پر ”آئینی“ ذمہ داریاں پوری کرے گا اور اگر خدانخواستہ سزا ہو گئی تو کتاب تو لکھنے میں کافی سہولت حاصل ہو جائے گی۔
سینٹ کے بارے بعض اصحاب کی رائے ہے کہ زرداری بلوچستان میں بھاری ہوں گے۔ بظاہر یہ ممکن نظر نہیں آ رہا تاہم جیتنے والے آزاد گروپ کے طور پر کام کریں گے اور کچھ عرصہ بعد ممکن ہے کہ وہ اپنی علاقائی اور نئی جماعت کے فعال رکن بن جائیں۔ بلوچستان میں صورتحال یوں دلچسپ بن گئی ہے کہ وہاں جیتنے والے کم از کم 4 ارکان ایک خاتون تو آزاد گروپ کے رکن بھی ہوں گے۔ ڈاکٹر مالک اور حاصل بزنجو یا جے یو آئی کو اگر اپنی تعداد بڑھانی ہے تو ان کو آزاد ارکان یا وزیراعلیٰ بزنجو کے ساتھ ہی غیرواضح معاہدہ کرنا ہو گا۔ آزاد گروپ ٹیکنوکریٹ سیٹ پر بھی معاہدہ کر سکتا ہے اور یوں آزاد گروپ کی دو خواتین بھی جیت سکتی ہیں۔
ایم کیو ایم کے گھر میں بچھی صف ماتم اگر سمٹ گئی تو ان کا راستہ آسان ہو گا بصورت دیگر سانجھے کی ہانڈی چوک میں ٹوٹے گی۔ پیپلز پارٹی اپنی نشستوں پر اپنے ساتھیوں کو بآسانی کامیاب کروائے گی۔
کے پی کے میں کچھ گڑبڑ ہونے کا امکان ہے، مولانا سمیع الحق پرانے کھلاڑی ہیں، داﺅ پیچ سے واقف ہیں، کیا کامیاب ہوں گے ابھی کہنا مشکل ہے مگر کام تو وہ کر رہے ہیں، جماعت اسلامی ایک نشست تو حاصل کر لے گی۔
پنجاب مسلم لیگ کا ہو گا اور وہی ہو گا، ہر گلاس میں ہر رنگ کا پانی پینے والے پرانے پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن، مسلم لیگ ق، مشرف اور اس سے پہلے ضیاءالحق کے ساتھیوں کے ساتھی پنجاب یونیورسٹی کے بے دخل کئے گئے مشاہد حسین اپنی محبت کا اظہار ایک بار پھر کر چکے ہیں تاہم ملکی تاریخ کے سب سے بہتر وزیراعظم محمد خان جونیجو کے صاحبزادے اپنی زندگی میں پہلی بار کسی ایوان کے رکن بن جائیں گے۔ کیا مارچ میں ڈبل مارچ ہو گا، اب بھی بعض لوگ اس بارے میں سوالات اٹھانا چاہتے ہیں مگر اب بات طے ہے کہ مارچ بہت ہنگامہ خیز ہو گا۔ عدالتی فیصلے رنگ جمائیں گے۔

ای پیپر دی نیشن