بھارت اور بنگلہ دیش کی تاریخ مسخ کرنے کی سازش

1971ءکی پاک ۔ بھارت جنگ کے نتیجے میں پاکستان کا مشرقی بازو کٹ کر علیحدہ ہوگیا تھا جو پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا المیہ تھا۔ افسوس کہ اب بھارت اور بنگلہ دیش مل کر تاریخ کو مسخ کر رہے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ بھارت نے پاکستان کے وجود کو سرے سے تسلیم ہی نہ کیا تھا۔ انکا خیال تھا کہ14اگست1947ءکے بعد وہ نوزائد ملک پاکستان کو اسقدر کمزور کردیں گے کہ جلد ہی پاکستان دوزانو ہوکر بھارت سے درخواست کرے گا کہ ہمیں بھارت میںضم کر لو۔ شروع ہی سے پاکستان کے لئے دشوار یاں پیدا کی گئیں۔ ہندوستان کے بٹوار ے پہ جو وسائل پاکستان کے حصے میں آنے تھے وہ بھارت نے ہڑپ کرلئے ۔پاکستان کی جانب رواں مہاجروں کے قافلوں کو لوٹ لیا گیا، عورتوں کے ساتھ زیادتی کی گئی جبکہ مردوں کو قتل کردیا گیا۔ جو لٹے پھٹے قافلے پاکستان زندہ پہنچے، انہیں بسانے کے لئے حکومت کے پاس کوئی وسائل نہ تھے۔
کشمیر ،حیدر آباد دکھن، جو نا گڈھ وغیرہ نوابی ریاستیں تھیں جنکے عوام نے استصواب رائے سے فیصلہ کرنا تھا کہ وہ پاکستان میں شامل ہونا چاہتے ہیں یا بھارت میں لیکن اس سے قبل ہی بھارت نے سب پر غاصبانہ قبضہ کر لیا۔ کشمیر کو بھارت کے چنگل سے آزاد کرانے کی کوشش میں پہلی جنگ کشمیر چھڑ گئی۔ پاکستان نے ایک تہائی حصہ آزاد کر الیا تو بھارت نے اقوام متحدہ کی سلامتی کا ﺅنسل سے رجوع کرکے جنگ بندی کرالی۔
1965¾ ء میں بھارت نے لاہور اور سیالکوٹ پہ جار حانہ حملہ کردیا۔ گو بھارت کی عددی برتری زیادہ تھی لیکن پاکستان نے کامیاب دفاع کر لیا۔ 1971ءکی جنگ کے لئے بھارت نے مکمل منصوبہ بندی کی۔ پہلے توعوامی لیگ کے رہنما شیخ مجیب الرحمن کو بغاوت پہ اکسایا گیا اور بنگالی عوام کو مغربی پاکستانیوں سے متنفر کرایا گیا۔ بنگالیوں کو بھارت بلاکر گوریلا جنگ کی تربیت دی گئی۔ متحارب گروہ” مکتی باہینی “ کو تشکیل دینے کے بعد انہیں منظم کرنے کی خاطر انہیں مسلح کرنے کے علاوہ اس گروہ میں بھارتی فوجی بھی شامل کئے گئے۔ بھارتی وزیراعظم اندراءگاندھی نے ایک نئی خفیہ تنظیم ”رائ“ کی داغ بیل ڈالی ۔راءکا اولین فرض مشرقی پاکستان کو علیحدہ کرنا تھا ۔ مکتی باہہنی نے غیر بنگالیوں اور مغربی پاکستان کی فوج جو مشرقی پاکستان میںتعینات تھی، پہ گوریلا حملے کرکے انہیں ہلاک کرنا شروع کیا۔
30جنوری 1971ءکو بھارتی فضائی کمپنی کا ایک فو کر طیارہ ” گنگا “ جو سرینگر سے امر تسر کے لئے روانہ ہواتھا، کو اغواءکرکے لاہور پہنچا دیا گیا۔ اس ڈرامے کی آڑ میں بھارت نے اپنی فضائی حدود پر سے پاکستانی طیاروں کی پرواز پہ پابندی لگادی۔ اس کے نتیجے میں مغربی پاکستان سے فوجی رسد مشرقی پاکستان پہنچانے میں دشواری پیدا ہوگئی۔
25 مارچ1971ءکو بنگالیوں نے علم بغاوت بلند کردیا اور مشرقی پاکستان میں واقع فوجی چھا ﺅنیوں پہ حملے ،غیر بنگالیوں کا قتل اور عورتوں کے ساتھ زیادتی کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ پاک فوج نے بغاوت کچلنے کی کوشش کی توہزاروں کی تعداد میںبنگالی بھارت ہجرت کرگئے۔بھارت نے ان بنگالی مہاجروں کی تعداد کو خوب بڑھا چڑھا کر بین الاقوامی سطح پہ پراپیگنڈہ کیا اور یہ تاثردیا کہ پاک فوج ظالم ،سفاک اور جلاد ہے جو نہتے بنگالیوں کا قتل اور انکی عورتوں کے ساتھ زیادتی کررہی ہے۔
مارچ سے نومبر1971ءتک مشرقی پاکستان میں محصور پاک فوج پے در پے گوریلا حملے ہوتے رہے جب کہ کمک بھی بند تھی،،فضائی راستے کے علاوہ بحری راستہ بھی بھارتی بحریہ نے بند کررکھا تھا۔ مشرقی محاذ پہ جب بھارت کی عددی برتری دس گنا ہوگئی وسط نو مبر میں بھارت نے بھر پور حملہ کردیا۔ پاکستان نے مغربی محاذ کھولنے میں دیر کی اور یہاں جنگ 3دسمبر1971ءکو شروع ہوئی۔ پاک فوج نے دلیری سے مقابلہ کیا لیکن16دسمبر1971ءکو پاک فوج کو مشرقی محاذپہ شکست ہوئی اوراسے ہتھیار ڈالنے پڑے یوں بنگلہ دیش وجود میں آیا۔ بھارتی وزیر اعظم نے اپنی فتح کے جوش میں اعلان کیا کہ” آج ہم نے جناح کے دو قومی نظرئیے کو خلیج بنگال میں غرق کردیا۔“
ابتداءمیں بھارت نے بنگلہ دیش کو اپنے زیر اطاعت لانے کی کوشش کی۔ وہ بھول گیا کہ بنگالی عوام وہ غیور قوم ہے جس نے پاکستان کے قیام کا علم سب سے پہلے بلند کیا تھا اور تحریک پاکستان میں پیش پیش تھے۔ وہ اپنی نئی حاصل کی ہوئی آزادی کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ۔ نتیجے میں متعدد فوجی بغاوتیں ہوئیں اور بانی بنگلہ دیش شیخ مجیب بھی باغیوں کے ہاتھ قتل ہوئے۔ جنر ل ضیاءالرحمن کے دور میں ثابت قدمی آئی تو بھارت نے انہیں بھی قتل کروادیا۔ انکی بیوہ خالدہ ضیاءکے دور میں پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات میں بہتری آئی جوبھارت کو ایک آنکھ نہ بھائی۔ جلدہی انکی حکومت کا بھی قلع قمع ہوگیا۔ شیخ مجیب کی دختر شیخ حسینہ واجد برسر اقتدار آئیں لیکن اس وقت وہ بھارت کی چالوں سے فیضاب نہ ہوسکیں۔
2009ءمیں جب شیخ حسینہ واجد بھارت کے کندھوں پہ سوار ہوکر دوبارہ وزیراعظم منتخب ہوئیں تو بھارت سے پوری طرح ڈکٹیشن لینے کے وچن دے کرآئی تھی۔ بھارت نے اسے گرسکھایا کہ سب سے پہلے بھارت کے ازلی دشمن پاکستان کو مزہ چکھائے ،شیخ حسینہ نے اپنی پیشرو خالدہ ضیاءکے دور میں پاکستانی سرمایہ کاروں کی جانب سے بنگلہ دیش میں نصب کی ہوئی فیکٹریاں بند کرائیں تاکہ پاکستان کی معیشت کا دیوالیہ نکلے، اسکے بعد1971ءکی جنگ میں جن بھارتی لیڈروں، سیاست دانوں اور فوجیوں نے بنگلہ دیش کی آزادی کے حصول میںمدد کی تھی، 44برس بعد سب کو تمغوں سے نوازا گیا۔ غیر ملکی شخصیات میں وہ13 پاکستانی بھی شامل تھے جنہوں نے بنگلہ دیش کے قیام کی حمایت میں پاکستان یا پاک فوج کے خلاف اپنی آواز بلند کی تھی یاقلم کوجنبش دی تھی۔ ایک نیا ڈھونگ رچایا گیا۔ پاک فوج نے1971ءمیں بنگالیوں کی جانب سے بغاوت کو کچلنے کی خاطر متعدد بنگالی بلاک کئے اور اغلب ہے کہ غصے میں کچھ بنگالی خواتین کے ساتھ زیادتی بھی کی ہوگی لیکن ان کی تعداد ان غیر بنگالیوں سے کہیں کم تھی جوبنگالیوں کی سفاکی یاہوس کانشانہ بنے ،شیخ حسینہ واجد نے مطالبہ کیا کہ پاکستان اور پاک فوج اپنی زیادتی کے لئے بنگلہ دیش سے معافی طلب کرے۔ پاک فوج کی زیادتیوں کو بڑھا چڑھا کر بیان کرنے کی خاطر ان غیر بنگالیوں کی مشترکہ قبروں کو بھی اکھاڑا گیا جہاں وہ بنگالیوں کاہدف بننے کے بعد دفن کئے گئے تھے اور اب انکی نعشوں کو بنگالی بنا کر پیش کیا گیا حالانکہ ایک معمولی سے ڈی این اے(DNA )ٹیسٹ سے بنگلہ دیشی جھوٹ کی قلعی کھل جاتی۔
شیخ حسینہ واجد کی حکومت کو طول دینے کی خاطر بھارت نے انہیں پٹی پڑھائی کہ وہ اپنے سیاسی حریفوں کو1971ءمیں پاکستان کا حامی بتاکر غداری کا مقدمہ چلائیں اور انہیں تختہئِ دار پہ لٹکادیں۔ حزب مخالف نے احتجاج میں2014 میں الیکشن کا بائکاٹ کیا تو شیخ حسینہ واجد بلا مخالفت منتخب ہوگئیں۔بنگالیوں کی نئی نسل کو پاکستان سے دور کرنے کی خاطر نبگلہ دیش کے اسکولوںمیں نصاب میں تبدیلی لائی گئی ہے اور تاریخ کومسخ کر کے قیام پاکستان کے بجائے اب تاریخ1952ءسے شروع کی گئی ہے جب بنگالیوں نے اردو کے قومی زبان مقرر ہونے کے خلاف احتجاجی مہم شروع کی تھی ۔تاریخ میں تاثریہ دیا جارہا ہے کہ مغربی پاکستان نے مشرقی پاکستان پہ غاصبانہ قبضہ کررکھا تھا لیکن بھارت نے عظیم قربانی دے کہ بنگلہ دیش کو پاکستان کی غلامی کے شکنجے سے آزادی دلائی۔سی ایس ایس کے مسابقتی امتحان میں سونمبروں کا لازمی پرچہ شامل کیا گیا ہے جوبنگلہ دیش کی آزادی کی جدوجہد سے متعلق ہے۔ یہ جدوجہد 25مارچ جب آزادی کا اعلان کیا تھا سے16دسمبر1971ءتک ہے جسے یوم فتح کے طورپر منایاجاتا ہے۔
حال ہی میں بھارت کے سونی ٹی وی چینل نے مشرقی پاکستان کے آخری کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل امیر عبداللہ خان نیازی اور بھارتی فوج کے لیفٹیننٹ جنرل جے ایف آر جیکب کے درمیان مبینہ گفتگو پہ مبنی ایک ڈاکو منیٹری پیش کی، جس میں تاریخ مسخ کرکے جنرل نیازی کی جانب سے بنگالیوں کے لئے نفرت کا اظہار کیا گیا ہے۔ اس تمام کاروائی میںنئی نسل کو پاکستان کےخلاف کرناہے۔ بھارتی حکومت 1971ءکے متعلق ڈھاکہ میں عجائب گھر قائم کر رہی ہے۔ اس موضوع پہ متعددفلمیں بن رہی ہیں۔ ڈاک کے ٹکٹ جاری ہورہے ہیں۔ پچھلی نسل میں پاکستان کے کچھ نام لیواتھے جبکہ بھارت سے نفرت کرنے والے بھی بہت تھے لیکن نئی نسل کو پاکستان دشمنی سکھائی جارہی ہے اور بھارت سے محبت۔ خالدہ ضیاءجن کے دل میں پاکستان کے لئے نرم گوشہ تھا کو جھوٹے الزام کے تحت پابند سلاسل کر دیا گیا۔ اگر بنگالیوں کو حقیقی تاریخ نہ سکھائی گئی تو وہ پاکستان کے دشمن اور بھارت کے ہم نوا بن جائیں گے۔

ای پیپر دی نیشن