لاہور+قصور ( اپنے نامہ نگار سے+ نمائندہ نوائے وقت) لاہور کی انسدادِ دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے قصور کی کم سن بچی زینب کو اغوا کے بعد زیادتی اور قتل کے مقدمے کے ملزم عمران علی کو جرم ثابت ہونے پر 4مرتبہ سزائے موت، عمر قید، 32لاکھ روپے جرمانہ اور سات برس قید کی سزا سنادی۔فاضل عدالت نے مجرم کو اغوا، زیادتی، قتل، نعش کوڑے کی ڈھیر پر پھینکنے اور انسداد دہشت گردی کی دفعات کے تحت سزائیں سنائی ہیں۔کو ٹ لکھپت جیل میں زینب قتل کیس کے مقدمے کا فیصلہ انسداد دہشت گردی عدالت کے جج سجاد احمد نے سنایا۔پراسیکوٹر جنرل پنجاب احتشام قادر نے لاہورکی کوٹ لکھپت جیل کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ مجرم عمران علی کو چار جرائم میں سزائے موت سنائی گئی ہے۔انہوں نے مزیدبتایا کہ مجرم کو بچی کے ساتھ زیادتی کرنے کے جرم میں عمر قید اور قتل کے بعد لاش کوڑے کے ڈھیر میں پھینکنے کے جرم میں سات سال قید کی سزا دی گئی۔ 4جنوری کو قصور کی سات سالہ زینب لاپتہ ہو گئی تھی اور 9جنوری کو زینب کی لاش گھر کے قریب موجود کوڑے کے ڈھیر سے ملی۔پولیس نے ملزم عمران علی کو 22 جنوری کو قصور سے گرفتار کیا اور چالان فاضل عدالت میں پیش کیا۔لاہور ہائی کورٹ نے مقدمے کی سماعت مکمل کرنے کے لیے انسدادِ دہشت گردی کی عدالت کو سات دن کی مہلت دی۔انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے 10 فروری سے روزانہ کی بنیاد پر مقدمے کی سماعت کی۔عدالت نے 12 فروری کو عمران علی پر فردِ جرم عائد اور 15 فروری کو عدالت نے کیس کا فیصلہ محفوظ کیا۔زینب کے والد نے میڈیا سے گفتگو میں مجرم عمران کو سرِعام پھانسی دینے کا مطالبہ کیا ہے۔پراسکیوٹر جنرل احتشام قادر نے کہا ہے کہ مجرم عمران علی اپنی سزا کے فیصلے کے خلاف 15 دن کے اندر اپیل کر سکتا ہے اور لاہور ہائیکورٹ ٹرائل کورٹ کے فیصلے کی توثیق کرے گی۔مجرم عمران علی پر کم سن بچیوں کے قتل اور زیادتی کے نو سے زائدمقدمات ہیں لیکن اْسے صرف زینب کے مقدمہ میں ہی سزا سنائی گئی۔ باقی مقدمات میں بھی کارروائی مکمل ہو گئی اور جلد چالان عدالت میں پیش کیا جائے گا۔ عمران علی نہ صرف سیریل کِلر ہے بلکہ نفسیاتی حد تک بچوں کے جنسی استحصال میں ملوث ہے۔ ملکی تاریخ کا تیز ترین ٹرائل قرار دیا جارہا ہے،مجرم عمران کو ننھی زینب کے اغوا، زیادتی اور قتل کے ساتھ ساتھ 7 اے ٹی اے کے تحت 4 مرتبہ سزائے موت سنائی گئی۔دوسری جانب عمران کو زینب سے بدفعلی پر عمرقید اور 10 لاکھ روپے جرمانہ جبکہ نعش کو گندگی کے ڈھیر پر پھینکنے پر7سال قید اور 10 لاکھ جرمانے کی سزا بھی سنائی گئی۔پراسیکیوٹر جنرل نے بتایا کہ ٹرائل کورٹ سزائے موت کی توثیق کیلئے ریکارڈ ہائیکورٹ کو منتقل کریگی، جہاں 2 رکنی بنچ مجرم عمران کی اپیل سنے گا۔انہوں نے بتایا کہ ہائیکورٹ آرڈر بھی مثبت آیا تو عمران سپریم کورٹ میں اپیل کر سکتا ہے۔ مجرم کے پاس اپیل کرنے کیلئے 15 دن ہیں جبکہ اسکے پاس صدر مملکت سے رحم کی اپیل کا حق بھی ہے۔ تمام مراحل کے بعد سزائے موت پر عملدرآمد کیا جائیگا۔ عمران کے خلاف دس، پندرہ دن میں دیگر مقدمات کے ٹرائل مکمل ہوجائیں گے۔ عمران سے عدالت نے آخری وقت تک پوچھا تو اس نے خدا کو حاضر ناظر جان کر اعتراف جرم کیا۔پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ ایسا ہوا ہے کہ سائنٹیفک تحقیق کی بنیاد پر مجرم کو سزا دی جارہی ہے اور ہم ان ممالک میں شامل ہوگئے ہیں جہاں سائنسی بنیادوں پر ثبوتوں پر سزا دی جاسکتی ہے۔یاد رہے کہ زینب کے قتل کے بعد ملک بھر میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی اور قصور میں پرتشدد مظاہرے پھوٹ پڑے جس کے دوران پولیس کی فائرنگ سے 2 افراد جاں بحق بھی ہوئے۔ بعدازاں چیف جسٹس پاکستان نے واقعے کا از خود نوٹس لیا اور 21 جنوری کو سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں ہونے والی ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے زینب قتل کیس میں پولیس تفتیش پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کیس کی تحقیقات کے لیے تفتیشی اداروں کو 72 گھنٹوں کی مہلت دی جس کے بعد 23 جنوری کو پولیس نے زینب سمیت 8 بچیوں سے زیادتی اور قتل میں ملوث ملزم عمران کی گرفتاری کا دعویٰ کیا، جس کی تصدیق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے بھی کی۔ملزم عمران کیخلاف کوٹ لکھپت جیل میں ٹرائل ہوا، ملزم عمران کے خلاف جیل میں 4 دن تک روزانہ 9 سے 11 گھنٹے سماعت ہوئی، اس دوران 56 گواہوں کے بیانات ریکارڈ کیے گئے اور 36 افراد کی شہادتیں پیش کی گئیں۔ سماعت کے دوران ڈی این اے ٹیسٹ، پولی گرافک ٹیسٹ اور 4 ویڈیوز بھی ثبوت کے طور پر پیش کی گئیں۔15 فروری کو فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر انسداد دہشت گردی عدالت نے کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا، جو سنایا گیا۔پراسیکیوٹر جنرل کا کہنا تھا کہ مجرم کو پھانسی کس طرح دینی ہے اس کا فیصلہ حکومت نے کرنا ہے جبکہ زینب کی والدہ نے عدالت فیصلے پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے عمران کو اس جگہ سرعام پھانسی دینے کا مطالبہ کیا جہاں وہ بچی کو لے گیا تھا۔سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے صدر محمد نواز شریف نے کہا ہے کہ زینب بیٹی اور اہل خانہ کو بلا تاخیر انصاف کی فراہمی لائق تحسین ہے،ایسے فیصلے اور انصاف کی فوری فراہمی معاشرے میں ایسے گھناؤنے جرائم کا راستہ روکنے میں سنگ میل کا درجہ رکھتے ہیں۔تحریک انصاف نے زینب قتل کیس کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ جس تیزی کے ساتھ زینب قتل کیس نمٹایا گیا ہے وہ قابلِ تحسین ہے۔اس مقدمے میں قائم کی جانے والی روایت برقرار رہنی چاہیے۔باقی مقدمات کو بھی اسی انداز اور تیزی سے نمٹایا جانا چاہیے۔ فواد چودھری نے ایک بیان میں کہا کہ چیف جسٹس آف پاکستان نے زینب قتل کیس میں خصوصی دلچسپی کا مظاہرہ کیا۔
لاہور (خصوصی رپورٹر) پراسیکیوشن پنجاب نے زینب سمیت دیگر بچیوں کے قاتل کو سرعام پھانسی کی تجویز پنجاب حکومت کو بھجوانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ذرائع کے مطابق پراسیکیوشن پنجاب کی رائے ہے کہ قاتل کو سرعام پھانسی کیلئے قانون تبدیل کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ 1997 کے ایکٹ کے سیکشن 22 کے مطابق سزا کیلئے جگہ تبدیل کی جاسکتی ہے اور جہاں جرم ہوا ہو وہاں مجرم کو سزا دی جاسکتی ہے۔