احمد جمال نظامی
موجودہ معاشی و اقتصادی مسائل کے بارے میں گومگوں کی کیفیت جاری ہے۔ عمران خان کی حکومت اگست میں وجود میں آئی اور گزشتہ چھ ماہ سے عوام کی غالب اکثریت مسائل در مسائل کے گرداب میں پھنستی چلی آ رہی ہے۔ ایک مسئلہ ختم نہیں ہوتا تو دوسرا مسئلہ عفریت کی شکل میں عوام کو ایسے اپنی لپیٹ میں لیتا ہے ۔جنہیں چور، ڈاکو، لٹیرے اور قومی دولت سے اپنی تجوریاں بھرنے کا الزام دیاجاتا رہاہے ان کے عہد میں بھی ایسی تصویر اور منظر کم ہی نظر آتے تھے۔ گزشتہ پانچ برس کی دعوے بازی، غوغا آرائی اور نئے پاکستان بنانے کے تمام دعوے نقش آب ثابت ہو رہے ہیں اور سچی بات تو یہی ہے کہ عمران خان کی حکومت آنے پر جو امیدیں وابستہ کی جا چکی تھیں یا باندھی گئی تھیں تمام کے رنگ و روغن اکھڑ کر رہ گئے ہیں۔ مسائل کی ایک یلغار ہے ، گرانی، بے روزگاری، گیس، بجلی، ادویات غرض اشیاء زندگی ہر چیز عوام کی قوت خریدسے باہرہوچکی ہے۔
آئی ایم ایف اور اس کی مینجنگ ڈائریکٹر وزیراعظم پاکستان سے کیا چاہتے ہیں لوگ اس بارے فکر مند ہیں۔ پاکستان نے ہمہ اقسام کی سبسڈی ختم کرنے کی یقین دہانی ہی نہیں کروئی ، اس کااعلان بھی کر دیا ہے بلکہ وہ سبسڈی بھی ختم کر دی ہے جو آئین کے ایکٹ بنیادی حقوق کے تحت حاصل کرنا عوام کا حق ہے ۔ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان ہونے والے معاہدہ کی شرائط کو عوام سے خفیہ رکھا جائے گا۔ پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ ٹیموں کے درمیان مذاکرات اور شرائط قرضہ طے ہونے کی بجائے دو افراد کے درمیان معاہدہ طے ہوا ہے۔ وزیراعظم عمران خان اور آئی ایم ایف کی مینجنگ ڈائریکٹرکرسٹین لیگارڈ کے درمیان جو معاہدہ یا پیکج طے ہوا ہے پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ اقتصادی ٹیم کے ساتھ مذاکرات اور شرائط قرضہ طے ہونے کی بجائے دو افراد کے درمیان معاہدہ طے پایاہے ۔جون میں بجٹ آنے پر اس پر عملدرآمد شروع ہو جائے گا۔ کہا یہی جاتا ہے کہ آئی ایم ایف جو شرائط منوانا چاہتا تھا وہ پاکستان کے لئے قابل قبول نہ تھیں۔ لیکن کان کو سیدھے ہاتھ سے پکڑیں یا الٹے ہاتھ سے پکڑیں بات ایک ہی ہے اور وزیراعظم عمران خان نے آئی ایم ایف کی تمام شرائط کو قبول کر لیا ہے جس کے نتیجے میں عوام پر بوجھ پڑنا فطری امر ہے۔آئندہ بجٹ عوام کیلئے ایک زلزلہ ہو گا، اس بجٹ کے زیادہ تر اقدامات آئی ایم ایف کے مطالبات پر مبنی ہوں گے۔
بدقسمتی سے اس وقت ادویات کی قیمتوں میں جو اضافہ ہوا ہے اس اضافہ نے جھونپڑی سے لے کر محل تک کے باسیوں کو متاثر کیا ہے۔ صحت کارڈ کے اجراء کے باوجود ہر شخص کی چیخیں نکل گئی ہیں اور معمولی اسپرو کی گولی بھی خریدتے وقت غریب آدمی خود پر ایک نظر ضرور ڈالتا ہے۔ سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے صحت کا کہنا ہے کہ ادویات کی قیمتوں میں اضافہ دواساز ادارے کے دباؤ میں آ کر کیا گیا ہے اور اس کی بنیادی وجہ کرنسی یعنی روپے کی قیمت میں کمی ہے اگر قیمتیں زیادہ نہ کرتے تو مارکیٹ میں ادویات کی قلت پیدا ہو جاتی۔ لہٰذا ادویات کی قیمتوں میں اضافہ مجبوری تھی۔گویا حکومت کبھی عوام کو کوئی ریلیف دیتی ہے یا نہیں سرمایہ دار کا دباؤ فوری قبول کر لیا جاتا ہے۔ اس وقت پورا ملک گیس اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ پر سراپا احتجاج ہے۔ گیس اور بجلی,پانی کے بلوں میں اضافہ سے جو بحران پیدا ہوا ہے وہ شدید سے شدید تر ہوتا جا رہا ہے اور لوگوں کو سیکـڑوں کی بجائے ہزاروں روپے کے بل وصول ہو رہے ہیں ۔گیس کی عدم فراہمی سے ہر گھرانہ متاثر ہو چکا ہے اور ملک کی معیشت پر بداثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ گھریلو صارفین کی پریشانی ناقابل بیان ہے۔ عوام کو درپیش مشکلات سے نجات دلانے کے لئے گیس کی فراہمی کو یقینی بنانے اور اس کے نرخوں میں کمی لانے کی ضرورت ہے۔ حالیہ تناظر میں بات کریں تو بے روزگاری عہدحاضر کا سب سے بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے۔ ایک دہائی کے دوران امریکہ، برطانیہ اور جرمنی جیسے ممالک جو مضبوط معیشت کے مالک ہیں، وہاں بھی بے روزگاری کے باعث یہ ممالک مسائل کا شکار ہیں۔ برطانیہ ایک ایسا ملک ہے جو ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک کے سیاست دانوں کی سیاہ دولت کو اپنے بینکوں میں چھپائے ہوئے ہے اور اگر یہ سیاہ دولت برطانیہ کے بینکوں سے نکال لی جائے تو برطانیہ کی معیشت اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے قابل بھی نہ رہے ۔ موجود حکومت کیلئے حالات اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ طلب ورسد کی روانی برقرار رکھی جائے اشیاء ضروریہ عوام کی دسترس سے باہر نہ ہو ورنہ یاد رکھیں کہ ایوب خان کو چینی لے ڈوبی تھی اور عوام کو گیس لے ڈوبے گی۔