سینٹ اور اسمبلیوں کے اندر اور باہر تحریک انصاف کو چومکھی لڑنا پڑ رہی ہے۔ پنجاب اور مرکز میں تحریک ا نصاف کی حکومتوں کو خیبر پی کے جیسی اکثریت حاصل نہیں۔ دونوں جگہوں پر حکومت کو اپوزیشن پر معمولی عددی برتری حاصل ہے۔انہی حالات میں ایک آدھ اتحادی کھسک لے تو اپوزیشن کو برتری حاصل ہو سکتی ہے مگر ایسا ہونا الٹی گنگا بہانے کے مصداق ہی ہو گا۔ کچھ تجزیہ کار اور دانشورایسا ہونے کو عین ممکن قراردیتے ہیں بلکہ ان کی نظر میں تو حکومتی اتحادیوں ہی پرکیا موقوف حکومتی ارکان کو بھی اپوزیشن شیشے میں اتار سکتی ہے ۔اس گمان کو روشن امکان سمجھا جاتا ہے۔گویا اپوزیشن حکومت کے اتحادیوں اور اسکے اپنے ارکان کو توڑنے میں کامیاب ٹھہرے گی جبکہ اس عرصے میں حکومت بے نیاز اور لا پروا ہو کر سوئی رہے گی!۔ عمران واقعی اصولی جمہوری رویوں پر عمل پیرا ہیں ، انکی حکومت کو گرانے کی کوشش ہو گی تو وہ بھی بچاؤ کیلئے کچھ تو کرینگے۔ مگر ایک وقار کیساتھ ۔تیس سال سے متحدہ قومی موومنٹ کی’’ سیاسی درگاہ پر حاضری کی روایت رہی ہے۔ انکے ساتھ اتحاد بنانے ، انکے روٹھ جانے پر منانے کیلئے اعلیٰ قیادت کو خود حاضری دینا پڑتی تھی ۔ذرا ریکارڈ کھنگالیں۔ ماضی کے حکمران کئی بار نائن زیرو گئے۔ آج بہت کچھ بدلا ہے۔اتحادی بڑے اُچھلے کودے مگر عمران خان متحدہ کے پاس گئے نہ کسی اور کے ہاں۔انتخابات کے بعدبھی عمران خان بنی گالہ میں رہے جبکہ سپریم کورٹ سے میاں نواز شریف جیسا نااہلی کا درجہ پانے والے جہانگیر ترین متحرک رہے اور تحریک انصاف نے مرکز میں حکومت بنائی، پنجاب میں تو الٹی گنگا بہا دی۔ جہانگیر ترین حکومت کی اچھائیوں برائیوں سب میں اب بھی حصہ دار ہیں۔ کوئی مہم جوئی ہوتی ہے جس کاقطعاً کوئی امکان نہیں ہے۔ بالفرض ایسا ہوا تو عمران خان کوتکلف و تکلیف کی ضرورت نہیں پڑیگی۔ جہانگیر ترین شٹل ڈپلومیسی دُہرائیںگے اور حالات معمول پر آ جائینگے اسی طرح جیسے کل تک اتحادی آنکھیں دکھا رہے تھے اور اب مطمئن ہیں ۔ حکومت سازی کے دوران آج کی اپوزیشن اور اسکے اتحادی بھی زور لگاتے رہے مگر جن کا زور چل گیا وہ اقتدار میں آ گئے اصولی طور پر اپوزیشن کو اپنی باری کا انتظار کرنا چاہئے مگر وہ حکومت کو گرانے کیلئے سرگرداں ہے۔ان ہاؤس تبدیلی ایک جمہوری عمل ہے۔ مگر یہ عمل اسی وقت بروئے کار آ سکتا ہے جب کوئی انہونی ہو جا ئے، فی الحال تو ممکن نہیں۔ اپوزیشن کی بے صبری کا سبب حکومت کے احتساب کا عزم ہے۔ ایسی افراتفری میں دوررس نتائج کی حامل پلاننگ نہیں ہو سکتی۔ افراتفری میں اپنا تو شاید نقصان نہ ہو،کیونکہ پی پی پی کی سندھ میں حکومت کو مشکلات کے سوا اپوزیشن کے پاس گنوانے کو کچھ نہیں ہے۔ البتہ ا تحادیوں کو حکومت سے اپنے مطالبات منوانے کا راستہ ضرور مل جاتا ہے۔ ایسے اتحادی بی این پی جیسے لالچ سے مبرا ہوں تو جمہوریت کا یقینا حسن ہے۔ جنہوں نے محض جمہوری عمل کو راست سمت میں چلتے رکھنے کیلئے تحریک انصاف کا ساتھ دیا اور کوئی وزارت نہیں لی۔ہماری بات چومکھی سے شروع ہوئی تھی۔ حکومت متحدہ اپوزیشن کے ساتھ نبردآزما ہے۔ اپوزیشن جہاں موقع ملتا ہے جارحانہ رویے سے کام لیتی ہے۔ حکومت کو زچ اور برگشتہ کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ حکومت بھی اینٹ کا جواب پتھر سے دیتی ہے حالانکہ حکومت کا حوصلہ زیادہ ہوناچاہیے۔اینٹ کا جواب خاموشی سے دے تو خود حکومت کیلئے بہتر ہے مگر جوشیلے ارکان اور وزیر تک جوش میں ہوش وحواس سے بیگانہ ہو جاتے ہیں۔ اس سے دراصل اپوزیشن ہی کا مقصد پورا ہوتا ہے۔ تحریک انصاف حکومت کو متحدہ اپوزیشن کے ساتھ ساتھ اپوزیشن کی الگ الگ پارٹی سے بھی مڈبھیڑ ہوتی ہے ۔ ایک دن مسلم لیگ ن سے جھگڑا ہواتو پی پی تماشہ دیکھتی رہی۔ اگلے روز پی پی پی کے ساتھ بات تلخ کلامی سے ہاتھا پائی تک جا پہنچی تو لیگی ارکان محظوظ ہوتے رہے۔ مولانا اور پی ٹی آئی کے حملوں کے تبادلے میں باقی پارٹیاں سرور حاصل کرتی رہی تھیں۔کہا جاتا ہے کہ پارلیمان جیسے مقدس ایوا ن میں ہنگامہ آرائی ہوتی رہتی ہے۔ مشرقی پاکستان اسمبلی میں تو سپیکر کو ایوان کے اندر قتل کر دیا گیا تھا۔ شکر ہے اب حالات اتنے بد تر نہیں ہوتے مگرجو کچھ ہوتا ہے وہ بھی مناسب نہیں۔سینٹ اورا سمبلیوں کے فاضل ارکان قابلِ احترام ہیں ۔ ان کوبھی اپنے وقار کا احساس ہونا چاہیے۔ آپ کسی کی عزت اچھال کر اپنے ماتھے پر وقار اور اعزاز کاسہرا نہیں سجا سکتے ۔شیشے کے گھر میں بیٹھ کر کسی پر پتھر برسائیں گے تو جواب میں سنگباری سے گھر چکنا چور ہو جائیگا۔ ایسی ہی برائیاں سیاست میں نفرت کا زہر گھول رہی ہیں۔ تھوڑی سی عقلمندی سے اس زہر کا تریاق ممکن ہے۔تھوڑی سی تحمل اوربرداشت سے سیاست سے زہر کے کانٹے نکالے جا سکتے ہیں۔
سیاست اور تحمل و برداشت
Feb 18, 2020