فرانسیسی مسلمان اورمیکرون کی سیاسی چال

Feb 18, 2021

فرانس کی قومی اسمبلی نے ملک میں ہونے والے حالیہ حملوں کے بعدان کی روک تھام کے حوالے سے ایک بل کی منظوری منگل کو دے دی ہے فرانسیسی قومی اسمبلی کے 347 ارکان نے اس قانون کے حق میں  اور 151 ارکان نے مخالفت میں ووٹ دیا جب کہ 65 اراکین ایوان سے غیر حاضر رہے۔ اب یہ متن ایوان بالا یعنی سینیٹ میں پیش کیا جائے گا، جہاں میکرون کی پارٹی اکثریت نہیں رکھتی ہے۔ فرانس کی جانب سے مختلف قوانین ماضی میں بھی سامنے آتے رہے ہیں تاہم گذشتہ برس توہین آمیز خاکوں کی اسکول میں تشہیر کرنے والے استاد کے قتل کے بعد سے فرانس میں اسلام کی مخالفت کی ایک نئی لہر نے جنم لیا ہے اور یہ قانون سازی بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ سیموئیل پیٹی کو ایک تنہا حملہ آور نے اپنے شاگردوں کو گستاخانہ خاکے دکھانے پر قتل کردیا تھا۔ مسودہ قانون کافی عرصے سے زیر غور تھا لیکن حالیہ حملے اسے منظور کروانے کا سبب بنے۔ مسودہ قانون صدر ایمینوئل میکرون کی طویل مدتی مہم کا حصہ ہے جس میں فرانس کی سکیولر اقدار کو برقرار رکھنے، گھر پر تعلیم اور نفرت انگیز تقاریر سے متعلق اصولوں کو مزید سخت کیا گیا ہے۔  میکرون کے پیش کردہ 'چارٹر‘ میں  واضح کیا گیا کہ مساجد کو قوم پرستی اور دوسرے ممالک کی حکومتوں کی حمایت کے لیے استعمال نہیں کیا جائے گا۔ مسلمانوں کو ملک کے سیکولر تشخص کے ساتھ ہم آہنگ بھی ہونا ہو گا۔ خاص طور پر ایسی مسلم تنظیموں اور مساجد کی نگرانی کو ضرور قرار دیا گیا ہے، جو انتہا پسندانہ عقیدے کو فروغ دینے میں مصروف ہیں اور ان تعلیمات سے خاص طور پر نوجوان جہادی مسلمان بننے کی راہ کو اپنا رہے ہیں۔ حکومت نے تجویز کیا ہے کہ مساجد کے آئمہ کی تربیت کو بھی اہم قرار دیا ہے۔ مساجد میں اماموں کو کنٹرول کرنے کے لیے بھی امام کونسل کی تشکیل کی جائے گی فرانس میں مساجد کے اماموں کی ایک کونسل بنائیں گے جو مساجد میں اماموں کے لئے باقاعدہ اجازت نامہ جاری کرے گی اگرکسی امام کے متعلق پتہ چلا کہ وہ فرانسیسی اقدار کے خلاف بات کرتا ہے تو اسے معزول کیا جا سکے گا۔ اس اقدام سے  امید ہے کہ اگلے سال تک بیرون ممالک سے تعلق رکھنے والے امام جن کی تعداد 300 تک ہے انکو واپس انکے ملک  بھیج دیا جائیگا۔ اس قانون سے مذہبی تنظیموں اور عبادت گاہوں کو بند کرنے کے حکومتی اختیارات کو نمایاں طور پر بڑھایا جائے گا۔ دیگر ممالک سے دینی مالی اعانت کے خاتمے کے لئے، اس قانون کے تحت انجمنوں کو10000 یورو سے زیادہ کے عطیات کوڈکلیئر کرنے کی ضرورت ہوگی اور ان کے کھاتوں کی جانچ پڑتال  ہوگی۔ مسلم تنظیموں  کے لیے مالی شفافیت کے نئے اصول وضع کیئے جائیں گے  اور مالی اعانت کے بدلے میں انھیں فرانس کی جمہوری اقدار پر دستخط کرنا لازم قرار دیا گیا ہے۔  مقامی انتظامیہ کو مذہبی مقامات کو عارضی طور پر بند کرنے کا اختیار بھی دیا جا سکتا ہے۔ کسی بھی شخص یا ادارے کو (جس میں نجی کمپنیاں بھی شامل ہیں جو ریاستی خدمات فراہم کر رہی ہیں) 'سیکولرزم کے اصولوں کا احترام اور عوامی خدمات کی غیر جانبداری کو یقینی' بنانا ہو گا۔جس کا مطلب ہے کہ پبلک سوئمنگ پولز میں اب مذہبی بنیادوں پر خواتین اور مردوں کے لیے الگ وقت مقرر کرنے پر پابندی ہو گی۔ پبلک سروس کو ان خدمات کی خلاف ورزی پر مجبور کرنے کی کسی بھی کوشش پر پانچ سال کی سزا اور 75 ہزار یورو کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔ نئے آنے والے قانون کے تحت کسی سرکاری ملازم کو مذہبی بنیاد پر ڈرانے دھمکانے والو ں کو سخت سزا ہوگی۔ اسی طرح کسی سرکاری ملازم کی معلومات شیئر کرنا اور لوگوں کو اس کے خلاف اکسانا بھی جرم ہوگا۔ اس کے علاوہ گھروں پرا سکولنگ کی کڑی نگرانی شامل کی گئی ہے۔ فرانسیسی حکومت کا کہنا کہ ان کے ملک میں لوگ موجود ہیں جو شادی سے پہلے لڑکی کے کنوارے پن کا ٹیسٹ کرواتے ہیں یہ غیر قانونی ہے۔ لڑکیوں کے کنوارے پن کے ٹیسٹ کروانے پر ڈاکٹروں کو جرمانہ, جیل یا ان پر پابندی عائد کی جاسکتی ہے۔ اسی طرح زبردستی کی شادی روکنے کے لئے حکومتی اداروں کو اختیار ہوگا کہ وہ لڑکے اور لڑکی کا علیحدہ علیحدہ انٹرویو کریں جس سے یہ جاننے کی کوشش کریں کہ کہیں ان کی شادی والدین کی جانب سے زبردستی تو نہیں کروائی جا رہی۔ فرانس کے قانون کے تحت ایک سے زیادہ شادیاں تو ویسے ہی منع ہیں لیکن اس نئے قانون کے تحت ایسے امیگرنٹس کو فرانس میں رہائشی اجازت نامہ نہیں مل سکے گا جو ایک سے زیادہ بیویاں رکھتے ہیں۔ وزیر اعظم جین کاسٹیکس نے اسے ’تحفظ کا قانون‘ قرار دیا ہے ۔انھوں نے زور دیا کہ یہ قانون ’مذاہب کے خلاف یا خاص طور پر اسلام کے خلاف نہیں ہے۔ فرانسیسی وزیر اعظم جین کاسٹیکس نے بدھ کے روز اخبار لی مونڈے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس بل سے مسلمانوں کو نشانہ نہیں بنایا جا رہا ہے بلکہ اعتدال پسند مسلمانوں کے تحفظ کے لیے  یہ قانون لایا  گیا ہے۔ صدر میکرون کی حکومت کا مؤقف ہے کہ فرانسیسی اقدار جیسے صنفی مساوات اور سیکولرازم کے تحفظ کے لئے، اور بنیاد پرست نظریات کو جڑ سے اکھاڑنے اور تشدد سے متاثر کرنے سے روکنے کے لئے اس بل کی ضرورت ہے۔ کچھ لوگوں نے اسے اگلے سال ہونے والے صدارتی انتخابات سے قبل قدامت پسند اور دائیں بازو کے ووٹروں کو جیتنے کے لئے میکرون کی سیاسی چال کے طور پر بیان کیا۔ فرانس میں ہی بائیں بازو کے کچھ سیاست دانوں نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ یہ قانون سازی، مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔ان کا خیال ہے کہ اس قانون سازی سے مسلمان مزید امتیازی سلوک کا نشانہ بنیں گے۔ کئی مسلم اکثریتی ممالک نے صدر  اور ان کے اقدامات پر تنقید کی ہے۔ ترکی، جس کے ساتھ فرانس کے پہلے سے کشید ہ تعلقات ہیں، حالیہ صورتحال اس کشیدگی میں اضافے کا سبب بنی ہے اور ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے اس قانون سازی کو ’کھلی اشتعال انگیزی‘ قرار دیا تھا۔  پاکستان، بنگلہ دیش اور لبنان سمیت دیگر اسلامی ممالک میں بھی فرانس اور صدر کے خلاف مظاہرے ہوئے ہیں۔ مذہبی آزادی سے متعلق امریکی مندوب سیم براؤن بیک نے بھی اس بل پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے: ’صورتحال اور بھی خراب ہوسکتی ہے۔ فرانس میں مقیم مسلمان اس قانون کے حوالے سے دو واضح گروپوں میں تقسیم دکھائی دیتے ہیں۔ پہلا گروپ یہ سمجھتا ہے کہ یہ امتیازی قانون ہے اور قانون فرانس کے جمہوری روح کے بھی خلاف ہے۔ فرانس کا قومی مقولہ ’آزادی، برابری اور اخوت‘ ہے لیکن اس قانون میں صرف ایک مذہب کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ کسی فرد کے ذاتی جرم یا گناہ کو پورے مذہب کے ساتھ نہیں جوڑنا چاہیئے۔ مسلمان پہلے سے ہی فرانس میں معاشی طور پر بہت پیچھے ہیں اور اس قانون کے بعد مسلم کمیونٹی اپنے آپکو اس ملک میں مزید غیر محفوظ سمجھیں گے۔ اس قانون سے مذہبی آزادی کو محدود اور جان بوجھ کر ایک خاص طبقے کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور یہ بنیاد پرستی کا باعث بنے گا۔ جبکہ دوسرا گروپ یہ سمجھتا ہے کہ پچھلے کچھ سالوں سے فرانس بھر میں جو دہشت گردی کے واقعات ہوئے اسکے بعد فرانسیسی حکومت کے پاس سخت اقدامات کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں تھا۔ واضح رہے کہ فرانس میں 60 لاکھ کے قریب مسلمان آباد ہیں جن میں سے زیادہ تر کا تعلق ماضی میں فرانسیسی نوآبادیات رہنے والے افریقی ممالک،  الجیریا، ماروک  سے ہے۔ چھ کروڑ سے زیادہ کی آبادی والے ملک میں اس اعتبار سے مسلمان ملک کی دوسری سب سے بڑی مذہبی اقلیت ہیں۔

مزیدخبریں