بھارت تمام تر عالمی احتجاج کے باوجود کشمیر پر اپنی گرفت ڈھیلی نہیں کر رہا وہاں دفعہ 370 کے خاتمے اور 35 اے کی منسوخی کے بعد اپنا پنجہ استبداد مزید سخت کر رہا ہے۔ اس پر بس نہیں اس کے ساتھ بھارت نے لائن آف کنٹرول یعنی سیز فائر لائن پر بھی عملاً جنگ کا میدان گرم کر رکھا ہے۔ آئے روز اس کی گولہ باری اور فائرنگ سے ہمارے فوجی اور سویلین شہید ہو رہے ہیں۔ اوپر سے وہ دھمکیاں بھی دیتا پھرتا ہے کہ وہ دشمن (پاکستان) کو سبق سکھانے کو تیار ہے۔ گرچہ اس میں اتنی ہمت تو نہیں مگر وہ سیزفائر لائن پر چھیڑ چھاڑ سے باز نہیں آ رہا۔ اس وقت کشمیر میں جو حالات نظر آ رہے ہیں ، اس پر عالمی برادری نے بارہا بھارت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں اپنی ظالمانہ فوجی کارروائیاں بند کرے۔ مگر نہ بھارت نے پہلے کبھی کسی کی سُنی نہ وہ اب کسی کی سن رہا ہے۔ کشمیر بدنام زمانہ امریکی گوانتا ناموبے جیل بن چکا ہے۔ جہاں رہنے والوں کو زندہ رہنے کی سزا دی جا رہی ہے۔ انہیں کسی قسم کی کوئی رعایت میسر نہیں۔ آئے روز بھارتی فوجی نہتے بے گناہ کشمیریوں کو فرضی مقابلوں میں شہید کر رہی ہے۔ گھر ، دکانیں ، باغات کچھ بھی بھارتی فوج کی دست برد سے محفوظ نہیں ۔ پوری وادی کا فوجی محاصرہ جاری ہے۔ ذرائع مواصلات انٹرنیٹ ، وائی فائی وغیرہ پر سخت سرکاری کنٹرول ہے۔
ان حالات میں بھی بھارت کے مکار حکمران دنیا کو گمراہ کر رہے ہیں۔ کبھی یورپی یونین کے قونصلروں کو کڑے فوجی پہرے میں کرفیو لگا کر سرینگر کی مشہور عالم ڈل جھیل کی سیر کرائی جاتی ہے ، انہیں بتایا جاتا ہے سب کچھ پرسکون ہے۔ مگر کسی کو شہری علاقوں میں سیر کی یا شہریوں سے ملاقات کی اجازت نہیں دی گئی۔ گویا یہ جبری ملاقات تھی۔ اس پر یورپی سفیروں نے خود بھی حیرت کا اظہار بھی کیا تھا۔
اب ایک بار پھر دہلی میں بھارتی حکومت غیر ملکی سفارتکاروں کو کشمیر کا دورہ کرا رہی ہے۔ شکر ہے اس بار پہلے ہی ہماری وزارت خارجہ کو ہوش آ گیا اور اس نے بھارتی فعل کی مذمت کی ہے اور عالمی برادری کو گمراہ کرنے کی اس سازش کو بے نقاب کیا ہے۔ مگر کیا صرف بیان بازی سے کوئی کام ہوا ہے۔ بھارت نے کسی کی سنی ہے ، اس کا جواب نفی میں ملے گا۔ 25 رکنی یورپی سفارتکاروں کے گزشتہ روز (17 فروری) کے دورے کے موقع پر کشمیر میں مکمل ہڑتال ہوئی۔ شہر میں جاگو جاگو اقوام متحدہ جاگو کے نعرے والے پوسٹر لگے ہوئے تھے۔ اس وفد کو بھی کرفیو زدہ شہر کے مخصوص سرکاری مقامات پر لایا گیا یوں اسے دورے کا نام دیا گیا۔ اس کے جواب میں کشمیر کے حوالے سے پاکستانی پالیسی وہی پہلے والی لگتی ہے کہ جارحانہ بیانات دے کر عوام کو خوش کیا جائے اور عملی طور پر کوئی کام نہ کیا جائے۔ دھواں دھار بیانات سے لاکھ درجہ بہتر ہے کہ حکومت عملی طور پر ایک قدم ہی آگے بڑھے۔
عالمی اداروں اوراقوام متحدہ کو متحرک کرنے کے لیے دوست ممالک کا تعاون حاصل کرے تاکہ انہیں مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے مظالم اور انسانی حقوق کی پامالی کیساتھ ہٹلر کی طرز پرکشمیریوں کی نسل کشی سے آگاہ کرکے بھارت کے خلاف ایکشن لینے پر مجبور کیا جائے ورنہ صرف گرما گرم بیان داغنے سے بھارت کا کچھ نہیں ہونے والا۔ اگر کوئی غیر ہماری نہیں سنتا تو اپنوں کو ہی اپنی بات سنا کر ؎
ہم نشیں آیا ہوں درد دل سنانے کیلئے
آج آمادہ ہوں سوتوں کو جگانے کیلئے
والی کوشش کریں۔ اگر ہمارے دینی بھائی برادر اسلامی ممالک میں سے چند ایک عرب اور چند ایک غیر عرب یعنی عجمی دوست ممالک بھی ہماری ہاں میں ہاں ملانے لگے تو بھارت میں تھرتھلی مچ سکتی ہے۔ اس کام کیلئے ہماری وزارت خارجہ کو میدان عمل میں کودنا ہوگا۔ بھارت کو کنٹرول لائن یعنی سیزفائر لائن پر منہ توڑ جواب دینا ہوگا۔ اس طرح دنیا والے بھی گھبرا جائیں گے کہ کہیں یہ گولہ باری کسی جنگ کی شکل نہ اختیار کرے۔ یوں عالمی امن کو خطرے میں پڑتا دیکھ کر عالمی برادری کچھ کچھ کرنے پر مجبور ہوجائے گی۔ اگر ہم نے بھارتی پالیسیوں کی مزاحمت کی بجائے اس پر پسپائی کی پالیسی جاری رکھی تو پھر ہم جو چاہے کہیں جہاں چاہیں تقریریں جھاڑیں بھارت پر کوئی اثر نہیں ہونے کا۔ بھارت ٹھڈوں اور مکوں کی زبان سمجھتا ہے۔ اس کا ثبوت لداخ میں چینی فوج کے ہاتھوں بھارتی فوج کی بدترین تازہ ترین درگت ہے۔ لداخ میں چینیوں نے ٹھڈوں، مکوں اور پتھروں سے بھارتی فوجی طاقت کا بھرم چکنا چور کردیا ہے۔ اس لئے پاکستان بھی اس بات سے سبق حاصل کرے اور لاتوں کے بھوت کو باتوں سے سمجھانے کی کوشش نہ کرے۔