اس قدر سادہ ، صاف ،شفاف زندگی گزارنے کے باوصف جسٹس ارشاد حسن خان پر چند ایسے الزامات لگے جن کی وجہ سے ان کی شہرت اور شخصیت پر کچھ سوالیہ نظان کھڑے ہوگئے! PERCEPTION کے متعلق کہا جاتا ہے کہ بسا اوقات وہ حقیقت سے زیادہ طاقتور ہوجاتی ہے۔ ان کے کتاب لکھنے کا بنیادی مقصد بھی یہی ہے کہ ان شکوک و شبہات کا ازالہ کیا جائے جو بوجوہ ایک خاص طبقے نے پھیلائے ہیں۔ اس کالم کا بنیادی مقصد بھی ان پر سیرحاصل بحث کرنا ہے۔ ان پر بڑا الزام تو یہ ہے کہ انہوں نے ’’نظریہ ضرورت‘‘ کو تقویت بخشی۔ ایک آمر کو حکومت کرنے کا، آئین میں ترامیم کرنے کا جواز فراہم کیا۔ جو سلسلہ جسٹس منیر سے شروع ہوا وہ ظفر علی شاہ کیس پر منتج ہوا۔ اس وقت یہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس تھے۔ انہوں نے نوازشریف کے ساتھ ’’ملی بھگت‘‘ کرکے حاضر سروس چیف جسٹس سجاد علی شاہ کو چلتا کیا۔ اس وقت یہ کوئٹہ بنچ میں تھے۔ جہاں ’’بریف کیس‘‘ اور شریف بیک وقت پہنچے۔ ایک ’’پیرفرتوت‘‘نے سہولت کار کا کردار ادا کیا۔
ارشاد حسن خان صاحب نے ہر دو اقدامات کو رد کرتے ہوئے بڑے موثر دلائل دیئے ہیں ہر کوئی ’’نظریہ ضرورت‘‘ کا ذکر کرتا ہے۔ اس تلوار سے عدلیہ پر وار کرتا ہے۔ ایک دلیل جو سب دیتے ہیں‘یہ ہے کہ اگر جسٹس منیر حکومت کو قانون کی بیساکھیاں فراہم نہ کرتا تو ارشاد حسن خان کو بھی ہمت نہ پڑتی کہ وہ پرویز مشرف کی حکومت کو جائز تسلیم کرتے ہوئے اسے آئین میں ترمیم کا اختیار دیتا۔ یہ بڑی مدقوق منطق ہے اور بھونڈی دلیل ہے۔ عدالت عظمیٰ آئین کے تحت اختیارات استعمال کرتی ہے ججوں کے پاس کوئی تیر تلوار یا تو تفنگ نہیں ہوتا۔ جب انہیں توڑ دیا جائے تو پھر اختیارات کیسے استعمال ہوں گے؟ بالفرض جسٹس منیر کوئی دوسرا فیصلہ کررہا ہوتاتو حکومت وقت کو رائی بھر بھی اس بات کا گمان ہوتا کہ فیصلہ اس کیخلاف آئے گا تو وہ عدالت میں جسٹس منیر کو بیٹھنے ہی نہ دیتا۔ وکیلوں کو بحث کرنے کی مہلت نہ ملتی۔
آمر کے اقدامات کو CONDONE اسمبلیاں کرتی رہی ہیں ملک میں بے شمار لوگ قتل کے الزام میں پھانسی چڑھ جاتے ہیں، تو کیا قتل ہونا بند ہوگئے ہیں؟ ایک عام کہاوت ہے Those who take up the sword shall be perished sword تو کیا دنیا میں مہم جوئی اور جنگیں ختم ہوگئی ہیں؟ جسٹس منیر سے بڑا ممتاز قانون دان (قائداعظم کے علاوہ) برصغیر نے پیدا نہیں کیا۔ اس کا فیصلہ مقتضائے حال تھا۔ اس حقیقت کو سمجھنے کیلئے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں ہے۔ جسٹس ارشاد حسن خان کے فیصلے کو بھی اسی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ فرد واحد نہیں بلکہ بارہ ججوں کا فیصلہ تھا۔ کوئی جج بھی چیف جسٹس کے ماتحت نہیں ہوتا باقی رہا آئین میں ترمیم کا سوال ۔ جب آئین ہی ایک اعتبار سے توڑ دیا گیا تو وہ مارشل لاء آرڈرز سے کام چلا سکتا تھا۔ انہوں نے کمال ہوشیاری سے اسے تین سال میں الیکشن کرانے کا پابند کیا۔ وہ اس MOVE کو ٹھیک طرح سے سمجھ ہی نہ پایا ویسے بھی ان ترامیم کا کیا فائدہ جنہیں قومی اسمبلی پہلے دن ہی ختم کرسکتی ہو!
اب رہی دوسری بات جب وہ سجاد علی شاہ کو آئوٹ آف ٹرن چیف جسٹس بنایا گیا تھا ایک چھوٹی سی بات پر منتخب وزیراعظم کو گھر بھیجنا نامناسب ہوتا۔ ایک رسم پڑ جاتی توہین عدالت پر میاں صاحب نے حاضر ہوکر معافی مانگ لی تھی پھر کیا ان کو رگیدنا ضروری تھا؟ اس سار ے واقعے پر بڑے افسوس کے ساتھ یہ کیا جاسکتا ہے۔HE ASKED FOR IT یہاں بھی کوئٹہ میں تین جج تھے پھر فیصلہ سارے ججوں نے کیا ۔ رشوت کا الزام لغو ہے۔ کوئی شخص ایک دن میں ایماندار یا بے ایمان نہیں بن جاتا۔ جو شخص ساری زندگی صراط مستقیم پر چلا ہو اس سے اس قسم کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ باقی رہا سپریم کورٹ پر حملہ تو اس کا کوئی بھی قانونی یا اخلاقی جواز پیش نہیں کیا جاسکتا۔
خلیل جبران نے کہا تھا ایک وہ ہیں جو دیتے ہیں اور دے کر خوش ہوتے ہیں یہ خوشی ان کا انعام ہے۔ دوسرے وہ ہیں جو دیتے ہیں اور دے کر ملول ہوتے ہیں یہ رنج ان کی سزا ہے۔ کچھ ایسے بھی ہیں جو حزن و ملال اور مسرت انبساط کے جذبوں سے ماورا ہوتے ہیں۔ ان کی مثال تپتے ہوئے صحرا میں ایک ایسے شجر سایہ دار کی ہوتی ہے جس کی چھائوں تلے پل دو پل بیٹھ کر تھکے ہارے مسافر سستاتے ہیں۔ خان صاحب کا شمار بھی ان طیب لوگوں میں ہوتا ہے۔
کتاب کے مطالعے سے جو مجموعی تاثر ذہن قبول کرتا ہے وہ یہ ہے کہ ان کی شخصیت تین چیزوں سے عبارت ہے۔ محنت، دیانت اور جرأت اظہار … محنت کرنے کی اپنی ایک خوشبو ہے۔ اس کی مخصوص ٍٍؑؑمہک ہے۔ محنت کرنے سے کوئی نہیں مرتا۔ لوگ بسیار خوری سے لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ OBESITYجان لیوا ثابت ہوسکتی ہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ محنتی انسان کسی کا ممنون احسان نہیں ہوتا۔ زیربار نہیں ہوتا۔
دیانت ایک ایسا تکیہ ہے جس پر سر رکھ کر آدمی نہ صرف دن چین سے گزارتا ہے بلکہ رات کو بھی گھوڑے بیچ کر سوتا ہے۔ یہ ایسا کوہ ندا ہے جو ہر وقت اور بروقت انسان کو اس کی غلطیوں، لغزشوں ، کوتاہیوں اور ناجوازیوں اور خوبیوں سے آگاہ کرتا رہتا ہے۔
؎ صرف اس کوہ کے دامن میں میسر ہے نجات
آدمی ورنہ عناصر میں گھر ارہتا ہے
لیکن جو چیز ان کو دیگران سے منفرد اور ممتاز کرتی ہے وہ جرأت اظہار ہے۔ یہ کبھی بھی مصلحت پسندی کا شکار نہیں ہوتے۔ حق بات بروقت اور برملا کی ہے۔ زہرہلاہل کو زہرہلاہل ہی کہا ہے کبھی قند نہیں لکھا یا سمجھا۔ ہمیشہ اپنی مسالک کا احترام کیا ہے۔ اصولوں پر سرمو بھی سمجھوتہ نہیں کیا۔ اپنے پیشے کی عظمت کا بھرم رکھا ہے اس پر کبھی آنچ نہیں آنے دی۔
ایک محدود کالم میں کتاب کے تمام پہلوئوں کا احاطہ نہیں کیا جاسکتا۔ یہ کتاب نہ صرف سوانح عمریوں میں ایک منفرد اضافہ ہے بلکہ پاکستانیت میں بھی اسے بڑی اہمیت حاصل ہوگی۔ ساتھ ہی ہماری قانونی اور تہذیبی دنیا کے لئے بھی یہ ایک ایسی دستاویز ہے جسے نظرانداز کرکے آگے بڑھ جانا ان اصحاب کیلئے ناممکن ہوگا جو ہماری سیاست اور تہذیب میں صداقت، دیانت اور قانون کی عملداری کا بول بالا دیکھنا چاہتے ہیں۔(ختم شد)