اسلام آباد (نمائندہ خصوصی) وزیراعظم عمران خان کی صدارت میں وفاقی کابینہ کے اجلاس میں کابینہ میں گریڈ ایک سے19تک کے ملازمین کے لئے 25 فی صد اضافہ کرنے کی منظوری دے دی۔ صوبائی حکومتوں کو بھی یہ اضافہ کرنے کی ہدایت کی جائے گی۔ کابینہ کو بتایا گیا کہ ملک میں کرونا کے کیسز کی تعداد اور پھیلاؤ کی شرح میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ اب تک تقریباً پچاس ہزار فرنٹ لائن ورکرز کو ویکسین لگائی جا چکی ہے اور اس عمل کو مزید تیز کیا جا رہا ہے۔ کابینہ کو بتایا گیا کہ نجی شعبے کی جانب سے ویکسین کی درآمد میں حائل رکاوٹوں کو دور کر دیا گیا ہے۔ کابینہ کو بتایا گیا کہ یکم مارچ سے تمام معاشی سرگرمیوں کو مکمل طور پر بحال کر دیا جائیگا۔ کابینہ نے جنسی جرائم کے واقعات کا سخت نوٹس‘ رپورٹس پر تشویش کا اظہار کیا اور ہدایت کہ کہ ان جرائم کی روک تھام کے حوالے سے قوانین کے اطلاق اور اقدامات کو یقینی بنایا جائے۔ کابینہ نے ہدایت کی کہ بیرون ملک پاکستانیوں کی جائیداد کے معاملات کے فوری حل کے حوالے سے قانون لانے کے عمل کو بھی تیز کیا جائے۔ کابینہ کو قبضہ مافیا سے سرکاری زمینوں کو واگزار کرانے کے حوالے سے اب تک کی پیش رفت پر بھی بریفنگ دی گئی۔ کابینہ کو اسلام آباد میٹرو بس پروجیکٹ کی فعالی کے حوالے سے پیش رفت پر بریفنگ دی گئی۔ کابینہ نے وفاقی حکومت کے مختلف محکموں کے ملازمین کی تنخواہوں میں پائے جانے والے فرق کو کم کرنے اور سرکاری ملازمین کو ریلیف فراہم کرنے کے لئے 2017ء کی بنیادی تنخواہوں پر پچیس فیصد اضافے کی منظوری دی اور یہ اضافہ یکم مارچ سے نافذ العمل ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ کابینہ نے فیصلہ کیا کہ صوبائی حکومتوں کو بھی یہ ہدایت کی جائے گی کہ وہ بھی اپنے محکموں میں تنخواہوں میں پائے جانے والے فرق کو کم کرنے کے حوالے سے اقدامات لیں۔ کابینہ کو بتایا گیا کہ ایڈہاک ریلیف الاؤنس کو یکم جولائی سے بنیادی تنخواہ میں ضم کیا جا رہا ہے جس کا اصل فائدہ پینشنرز کو میسر آئے گا۔ کابینہ نے پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف منیجمنٹ کراچی کے بورڈ آف گورنرز کی تشکیل نو کی منظوری دی۔ کابینہ نے فیڈرل سروس ٹریبیونل کراچی کی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے ایف ایس ٹی کی موجود عمارت سے متصل چار سو مربع گز زمین ایف ایس ٹی کو الاٹ کرنے کی منظوری دی۔ کابینہ کمیٹی برائے ادارہ جاتی اصلاحات کے 04 فروری 2021کے اجلاس میں لئے گئے فیصلے کی توثیق کی گئی۔ جس میں پانچ وزارتوں میں اکاؤنٹنٹ جنرل پاکستان ریونیو کے ماتحت دفاتر بنانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ کابینہ نے الیکشن کمیشن کی سفارشات پر قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 221 تھرپارکر - 1 میں ضمنی الیکشن کے دوران پاکستان رینجرز (سندھ) کے دستوں کی تعیناتی کی منظوری دی۔ کابینہ نے جاوید قریشی کو چیئرمین بورڈ آف ڈائریکٹرز، سندھ انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ کمپنی لمیٹڈ تعینات کرنے کی منظوری دی۔ وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات وزیر شبلی فراز نے کابینہ کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس میں کہا کہ کوئی شک نہیں عوام مہنگائی سے پریشان ہیں، ملک مشکل حالات میں ہے، ہر شہری کو اس کی ترقی میں حصہ ڈالنا چاہیے۔ وزیراعظم کی ہمیشہ کوشش رہی کہ انتخابات کو شفاف بنائیں، وہ ایسا الیکشن چاہتے ہیں جس پرکوئی اعتراض نہ کرے، قوم جان گئی ہے اوپن بیلٹ پر الیکشن کی مخالفت کرنے والے کون ہیں، اپوزیشن نہیں چاہتی کہ سینٹ انتخابات شفاف ہوں۔ چاہتے ہیں آنے والے جنرل الیکشنز الیکٹرانک ووٹنگ کے ذریعے ہوں، الیکٹرانک ووٹنگ کے ذریعے اوورسیز پاکستانی حصہ لے سکیں گے۔ شبلی فراز نے کہا کہ فیصل واوڈا میں بولنے کی صلاحیت ہے، سینٹ میں ہمارے پاس فیصل واوڈا جیسے بولنے والے نہیں ہیں، جب تک ان سے متعلق فیصلہ نہیں آ جاتا وہ حکومت کا حصہ ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کا ماضی کے حکمرانوں کے برعکس کوئی کیمپ آفس نہیں اور وہ اپنے گھر میں رہتے ہیں۔ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں کھانے نہیں ملتے، ایک چائے کا کپ ملتا ہے۔ ملک کے معاشی حالات بہتر ہورہے ہیں، محدود وسائل کے باوجود سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کو بڑھایا گیا۔ انہوں نے ایک بار پھر حکومتی موقف دہراتے ہوئے کہا کہ 18ویں ترمیم کی کچھ شقوں کو ٹھیک کرنا ہوگا۔ میثاق جمہوریت میں یہی لوگ شفاف الیکشن کی باتیں کر رہے تھے، ہم شفاف الیکشن کروا رہے ہیں تو یہ ہمارا گناہ ہے۔ اپوزیشن کا قانون سازی کے حوالے سے متضاد اور منفاقانہ رویہ رہا ہے، اپوزیشن شفاف الیکشن نہیں چاہتی۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ ماضی میں خواتین کو وراثت میں حصہ نہیں ملتا تھا، اس نظام کو تبدیل کر کے تمام حقداروں کو 15دنوں میں وراثنی سرٹیفکیٹ مل سکے گا۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ مہنگائی نے عوام الناس کو کافی تکلیف پہنچائی ہے، اس کی وجوہات میں کوویڈ، مالی خسارہ اور دیگر چیزیں ہیں۔18ویں ترمیم کی کچھ شقوں میں تبدیلی کی ضرورت ہے تاکہ تنخواہوں میں امتیاز ختم ہوسکے۔ اپوزیشن کا متضاد اور منافقانہ رویہ سامنے آچکا ہے، جمہوری سسٹم کو مضبوط بنانے اور الیکشن عمل کو شفاف بنانے کا عمل اپوزیشن کو سوٹ نہیں کرتا۔ پرائم منسٹر ہاؤس کے 2018 میں اخراجات 509 ملین روپے، آفس 514 ملین روپے جو کم ہو کر 339 ملین روپے اور 305 ملین روپے ہوئے اس طرح بالترتیب 35 اور 40 فیصد کی کمی لائی گئی۔ عمران خان ملکی حالات کو جانتے ہوئے اس کے مطابق زندگی گذار رہے ہیں، نہ تو پولیس کے قافلے ان کے ساتھ ہوتے ہیں اور نہ کیمپ آفس ، گھر کی باڑ بناتے ہیں تو بھی اپنے ذاتی خرچ سے بناتے ہیں۔ یہ ہوتی ہے کفایت شعاری۔ وفاقی وزیر سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان کی کفایت شعاری سے وزیراعظم آفس اور ہائوس کے اخراجات میں نمایاں کمی ہوئی ہے۔