آئی ایم ایف کی بابت غلط فہمیاں

Feb 18, 2022

پچھلے دنوں سیاسی اُفق پر آئی ایم ایف سے متعلق بڑا ہنگامہ رہا۔ حزب اختلاف کی تمام جماعتوں نے حکومت پر شدید تنقید کی کہ آئی ایم ایف سے چھٹی قسط وصول کرنے کی خاطر مفادات کا سودا کر لیا  گیا ہے۔ جس سے ملک کی سلامتی کو شدید خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔ یہ تنقید کوئی نئی بات نہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اَب تک تمام حکومتوں کے دَور میں 2  2مرتبہ آئی ایم ایف سے قرضہ لیا گیا ہے اور ان پر اِن سیاسی جماعتوں کی طرف سے جو اقتدار سے باہر ہوتی ہیں اِسی قسم کے الزامات لگائے جاتے رہے ہیںاور کہا جاتا رہا ہے کہ آئی ایم ایف سے قرضہ لینا نادانشمندانہ فیصلہ ہے۔ آئی ایم ایف کے خلاف دھواں دھار تقریریں کرنے والوں کی اکثریت آئی ایم ایف کے باے میں صحیح اور مکمل معلومات نہیں رکھتی۔
آئی ایم ایف 190ملکوں کی ایک تنظیم ہے۔ جو اقوام متحدہ کے تحت جولائی 1944ء میں وجود میں آئی، وجہ یہ تھی کہ 1930ء کی دہائی میں کم وسائل رکھنے والے بیشتر ممالک مالی مشکلات سے دوچار ہوگئے۔ ان کی مشکلات کم کرنے کیلئے دنیا کے 44ممالک سرجوڑ کر بیٹھے تاکہ کوئی ایسا مشترکہ بنیادی ڈھانچہ تشکیل دیا جائے جس کے ذریعہ بین الاقوامی مالیاتی تعاون کی راہ ہموار ہو سکے اور ممبر ممالک کو ضرورت پڑنے پر مالی امداد فراہم کی جا سکے تاکہ ان ممالک میں تجارتی سرگرمیوں کو فروغ دے کر روزگار مہیا کیا جائے اور غربت کو کم کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس وقت 190ممالک میں سے 150ممالک سے اس تنظیم کیلئے عملہ حاصل کرکے اس کا انتظام چلایا جا رہا ہے۔اس وقت اس عملہ کی تعداد2700ہے۔تمام ممالک اپنی حیثیت کے مطابق ظے شدہ طریقہ کارکے مطابق رقم فراہم کرتے ہیں۔ جو ان ممالک کی امداد کیلئے استعمال ہوتی ہے جو کسی نہ کسی وجہ سے مالی مشکلات سے دوچار ہوں۔ اَب تک ارجنٹائن، مصر، یوکرین اور پاکستان سب سے زیادہ قرضہ لے چکے ہیں۔ اس تنظیم کا ایک بورڈ آف گورنر ہے اور 24ممبران پر 
مشتمل ایک ایگزیکٹو بورڈ ہے۔ اس تنظیم کا سربراہ منیجنگ ڈائریکٹر ہوتا ہے جس کی مدد چار ڈپٹی منیجنگ ڈائریکٹرز کرتے ہیں۔ آج کل بلغاریہ سے تعلق رکھنی والی ماہراقتصادیات کرسٹالینا جیورجیوا Kristalina Georgieva منیجنگ ڈائریکٹر ہیں جو 2019ء سے یہ خدمت سرانجام دے رہی ہیں۔ جب بھی کوئی ممبر ممالک آئی ایم ایف سے قرض کیلئے درخواست کرتا ہے تو 24ممبران پر مشتمل ایگزیکٹو بورڈ ، منیجنگ ڈائریکٹر کی سربراہی میں اجلاس کرکے اس کی درخواست کا جائزہ لیتا ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ کیا اس کی مالی مشکلات واقعی اتنی سنگین ہیں کہ اگر اس کی مدد نہ کی گئی تو ملک میں غربت میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔ وہ اس بات کا بھی اندازہ لگاتا ہے کہ کم از کم کتنی رقم درکار ہوگی اور کتنے عرصے میں اُس قرض کی واپسی ممکن ہوگی۔ چونکہ آئی ایم ایف کے وسائل ممبر ممالک کی فراہم کردہ امدادی رقوم پر مشتمل ہوتے ہیں اس لئے اس بورڈ کی یہ بھی ذمہ داری ہوتی ہے کہ قرض لینے والے ملک کو اس بات پر آمادہ کرے کہ بورڈ کی طرف سے قرض واپس کرنے کے طریقہ کار کی توثیق کرے اور اس کی ہدایات پر عمل کرے۔ اِسی لئے ہر قرض کی ہرقسط کی ادائیگی سے پہلے گزشتہ اقساط کی واپسی پر عمل درآمد کا جائزہ بھی لے۔ کئی  مرتبہ قرض لینے والے ممالک قرض کی اقساط کی واپسی کیلئے طے پانے والے طریقہ کار سے انحراف کرنے کی وجہ سے مزید اقسا ط لینے کے نااہل ہو جاتے ہیں اور آئی ایم ایف قرض فراہم کرنے کے معاہدے کو ختم کر دیتا ہے۔ ایسے ممالک کو دوسرے بین ا لاقوامی مالیاتی ادارے مثلاً عالمی بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک، بین الاقوامی مالیاتی کمیشن، کینڈین بین الاقوامی ترقیاتی فنڈ، اقوام متحدہ کا ترقیاتی پروگرام، جاپان کا بین الاقوامی ترقیاتی ادارہ بھی امداد کرنے سے ہاتھ کھینچ لیتے ہیں۔ نتیجتاً ایسا ملک مالی بحران کا شکار ہو جاتا ہے اور وہاں غربت اور مہنگائی میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔
آئی ایم ایف سے قرضہ لینے والے ملک کو دوسرے مالیاتی ادارے بھی قرض دینے پر راضی ہو جاتے ہیں کیونکہ یہ اس بات کی ضمانت ہوتی ہے کہ ملک کی اقتصادی صورتحال اتنی مستحکم ہے کہ اس میں قرضہ اد
ا کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔پاکستان 1950ء میں آئی ایم ایف کا ممبر بننے کے بعد سے اَب تک 22مرتبہ قرضہ لے چکا ہے۔ 2008ء میں یوسف رضا گیلانی کی حکومت نے 7.6ارب ڈالر کا قرضہ لیا اور عمران خان کی حکومت نے 2019ء میں 6ارب ڈالر کا قرضہ لیا جس کی ایک ارب ڈالر کی چھٹی قسط اس ماہ کے شروع میں موصول ہوگئی ہے۔ سوشل میڈیا پر حکومت کو بلاوجہ شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور الزام لگایا گیا کہ ملک کی خودمختاری کا سودا کر لیاگیا ہے اور آئی ایم ایف پاکستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی کا کردار ادا کر رہا ہے۔اس قسم کی تنقید کرنے والے دو قسم کے لوگ ہیں۔ پہلی قسم ان لوگوں کی ہے جو آئی ایم ایف کے بارے میں کچھ نہیں جانتے ور سنی سنائی باتوں اور پروپیگنڈہ کا شکار ہو کر آئی ایم ایف پر الزامات لگا دیتے ہیں۔ دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جو جان بوجھ کر سیاسی وجوہات کی بنا پر الزامات لگاتے ہیں جبکہ وہ خود یہ بات اچھی طرح جانتے ہیںکہ حکومت کیلئے آئی ایم ایف جانے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں رہ گیا تھا۔ چونکہ ملک کی معاشی صورتحال بہت خراب تھی۔ یہ بات بھی تنقید کرنے والوں کی درست نہیں ہے کہ آئی ایم ایف گیس، بجلی اور پٹرول کی قیمتیں بڑھانے کیلئے حکومت پر دبائو ڈالتا ہے اور اس طرح مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے۔ آئی ایم ایف قرضہ لینے والے تمام ممالک کو ہمیشہ یہی مشورہ دیتا ہے کہ اپنے وسائل بڑھا کر آئی ایم ایف کا قرضہ ادا کریں۔ پاکستان سے بھی یہی کہا گیا تھا کہ ٹیکسوں کے نظام میں اصلاحات لاکر ان لوگوں پر ٹیکس لگائیں جو ٹیکس دینے کے قابل ہیں لیکن حکومت اپنی پوری کوشش کے باوجود ٹیکسوں کے نظام میں اصلاحات کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی۔ اگرچہ ٹیکس حدف سے زیادہ حاصل کر لئے لیاگیا لیکن درآمدات کی مدد میں زیادہ اضافہ ہونے کی وجہ سے تجارت کا خسارہ بڑھ گیا۔ اس لئے آئی ایم ایف نے حکومت کو ایک ارب ڈالر کی چھٹی قسط دینے سے پہلے شرط عائدکی کہ اگر ٹیکس نہیں بڑھا سکتے تو 350ارب روپے کی ٹیکسوں میں دی گئی چھوٹ کو ہی ختم کر دیں۔چنانچہ حکومت کو آئی ایم ایف کی یہ بات ماننی پڑی جس کیلئے اقدامت کرنے پڑے۔ جسے لوگوں نے منی بجٹ Mini Budgetکا نام دیا۔
 آئی ایم ایف یا دوسرے ذرائع سے قرض لینا کوئی بُری بات نہیں۔ شرط یہ ہے کہ ملک میں ان قرضوں کو ادا کرنے کے وسائل اور صلاحیت موجود ہو۔ امریکہ دنیا میں سب سے زیادہ قرضہ لینے والا ملک بن گیا ہے جس کا کل قرضہ 30ہزار ارب ڈالر سے بڑھ گیا ہے۔
 اس طرح جاپان جو کہ دنیا کی تیسری بڑی معیشت ہے جنوری 2022ء تک 581ہزار ارب جاپانی ین کا مقروض ہو چکا ہے۔پاکستان میں حکومت شدید تنقید کی زد میں ہے کہ قرضوں کا حجم بڑھتا جا رہا ہے لیکن بہت کم لوگوں کو اس بات کا اندازہ ہے کہ مزید قرضے پہلے لئے گئے قرضوں کی ادائیگی کیلئے لئے جا رہے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر ہم 100ڈالر قرض لیتے ہیں تو 85ڈالر پرانا قرضہ ادا کرنے میں صرف ہو جا تے ہیں اور صرف 15ڈالر بچتے ہیں۔ قرضوں کی اس دلدل سے نکلنے کا واحد راستہ درآمدات میں کمی ہے۔ برآمدات ہم ایک حد سے زیادہ نہیں بڑھا سکتے لیکن درآمدات میں کمی ہمارے ہاتھ میں ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ جو اشیاء پاکستان میں تیار ہوتی ہیںاُن کی درآمد پر پابندی لگا دی جائے۔ بڑی بڑی مہنگی گاڑیوں کی درآمد کا کوئی جواز نہیں ہے۔ تجارتی خسارہ کم کئے بغیر اور اپنے وسائل بڑھائے بغیر ہم ترقی نہیں کر سکتے۔ ٹیکسوں کے نظام میں اصلاحات لانے کی اشہد ضرورت ہے تاکہ نا ٹیکس دہندگان کو قرار واقعی سزائیں دی جا سکیں۔

مزیدخبریں