’’روئے سخن کسی کی طرف ہو تو رُوسیاہ‘‘ 


ان دنوں میں عجیب شش و پنج میں پڑا ہوا۔ لکھتے ہوئے کبھی ذہنی کیفیت ایسی نہیں بنی تھی کہ اپنا مافی الضمیر بیان کرنے کیلئے احتیاط روی کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ’’مناسب‘‘ الفاظ کا چنائو کروں۔ مجھے الفاظ کے چنائو میں دقت محسوس ہوتی ہے تو طبیعت بوجھل ہو جاتی ہے کہ زہرِہلال کو قند بنا کر کیسے پیش کیا جائے تاکہ متعلقین کی جبینوں پر شکنیں پڑنے کی نوبت نہ آئے۔ آج کے حالات و واقعات کا جائزہ لیتے اور ان پر مافی الضمیر کے اظہار والے تبصرے کے ممکنہ نتائج کو پیش نظر رکھتے ہوئے کبھی دل بغاوت پر اکساتا ہے اور کبھی لمبی تان کر سو جانے کی ترغیب دیتا ہے۔ گویا…؎
ارادے باندھتا ہوں، سوچتا ہوں، توڑ دیتا ہوں
کہیں ایسا نہ ہو جائے، کہیں ایسا نہ ہو جائے
یہ کیفیت اس لئے بنی کہ مافی الضمیر کے اظہار کے معاملہ میں ماحول بہت غضبناک ہے اور عجزونیاز سے آگے بڑھ کر کسی کا دامن حریصانہ کھینچنے کی فضا ہرگز سازگار نہیں۔ بس زیرِلب یہی شکوہ کیا جا سکتا ہے کہ…؎
ستم تو یہ ہے کہ ظالم سخن شناس نہیں
وہ ایک شخص کہ شاعر بنا گیا مجھ کو 
سود امن اور بندِقبا کا موازنہ کرنے کے ارادے ٹوٹ جاتے ہیں اور دل میں یہ سوال اٹکھیلیاں کرتا نظر آتا ہے کہ…؎
رسن و دار اِدھر، کاکل و رخسار اُدھر
دل بتا تیرا کدھر جانے کو جی چاہے ہے 
ایسی کشمکش میں بھلا جرأت رندانہ کا خاک مظاہرہ ہو پائے گا۔ سو جی کا میلان یہی بنا ہے کہ کچھ عرصے کیلئے لکھنے کا سلسلہ موقوف کردیا جائے اور اپنے ذہن میں سمائے اچھے وقتوں کا انتظار کرلیا جائے۔ مگر بھائی صاحب! ایسے اچھے وقتوں کا انتظار کرتے کرتے توحیات کے آخری مراحل تک آپہنچے ہیں۔ مزید انتظار قبر تک جا پہنچائے گا مگر اپنے تصور میں بسے اچھے وقتوں کی کہیں جھلک نظر نہیں آئیگی کیونکہ شاعری کی راہ دکھانے والا کوئی ’’ظالم‘‘ سخن شناس خال خال ہی نکلے گا۔ اگر کان کو سیدھے سبھائو پکڑنے کی بجائے ہاتھ گھما کر پکڑ لیا جائے تو شاید زہرہلال کو قند بنا کر قبول کرنے میں کچھ آسانی ہوجائے۔ 
ایسی ہی شرارتی سوچ نے مجھے دوبارہ قلم اٹھانے پر مائل کرلیا کیونکہ ’’میکدے‘‘ کے حالات تو پہلے ہی اتنے کٹھن گزرے ہیں کہ…؎
ڈِھڈ بھر روٹی کھان نہ لَبھّی 
چھالے پئے گئے پیہندیاں چکیاں 
یہی سوچتے سوچتے غیرارادی طور پر وزیراعظم صاحب کے اس بیان پر نظر پڑ گئی جو انہوں نے اتحادی چودھری برادران کے ساتھ اپوزیشن قائدین کی شروع ہونیوالی ملاقاتوں پر تبصرہ کرتے ہوئے جاری کیا تھا۔ انکے ادا شدہ یہ الفاظ پڑھ کر ذہنِ کم ظرف ظرافت کا شاہکار بن گیا کہ اب انہیں علیل بڑے چودھری صاحب کی مزاج پرسی اور تیمارداری کا خیال بھی آگیا ہے۔ ایسے ہی میرا دل خلائوں میں کسی ایسے منظر کو ڈھونڈنے لگا جس میں محترم وزیراعظم صاحب اپنے قابلِ اعتماد اتحادی چودھری شجاعت حسین کی شدید ترین علالت کے دوران بھی انکے سرہانے کھڑے انکی مزاج پرسی کررہے ہوں۔ البتہ چودھری پرویز الٰہی کے اظہارِ ناراضگی پر مبنی ان کا ایک بیان ضرور نظر نواز ہوگیا جس میں وہ وزیراعظم کی مزاج پرسی تک کیلئے نہ آنے کا شکوہ کر رہے تھے۔ بھلا میری کیا اوقات کہ اس منظرنامے پر کوئی الٹا سیدھا تبصرہ کروں۔ سوشل میڈیا تو اتنا بے دھڑک ہے کہ ٹی وی اینکر ندیم ملک کو دیئے گئے عمران خان صاحب کے انٹرویو کا ایک کلپ اچھال اچھال کر پورا ماحول مکدر بنا رہا ہے۔ اس انٹرویو میں عمران خان صاحب جیسی برانڈڈ شخصیت نے بس اتنا ہی تو کہا تھا کہ میں اپوزیشن میں بیٹھنا قبول کرلوں گا مگر اقتدار کی خاطر چودھریوں اور ایم کیو ایم والوں کو ہرگز ساتھ نہیں ملائوں گا۔ میں نے ایسا کیا تو مجھ سے بڑا منافق کوئی نہیں ہوگا۔ یہ لکھتے ہوئے بھی میرے جسم میں سنسناہٹ سی پیدا ہو گئی کہ کہیں وزیراعظم صاحب کے اپنے ادا کردہ الفاظ دہرانا بھی انکی شان میں گستاخی نہ ٹھہر جائے۔ ایسی گستاخی کی پکڑ کے حالیہ مناظر کا تصور بھی ذہن کو گڑبڑانے لگا۔ اپنی توجہ ہٹانے کیلئے پھر اخبار پر نگاہیں جمالیں۔ فواد چودھری صاحب وفاقی کابینہ کے اجلاس کے فیصلوں سے میڈیا کو آگاہ کرتے ہوئے عدالتوں کے سٹے آرڈرز پر برافروختہ ہورہے تھے اور اسے انصاف میں تاخیر کیلئے استعمال کئے جانیوالے حربوں سے تعبیر کررہے تھے۔ معاً میرا ذہن پھرحسِ ظرافت کی طرف لوٹ گیا۔ الیکشن کمیشن نے فیصل واوڈا صاحب کو دو سال تک محض تاخیری حربے اختیار کرنے اور اپنی امریکی شہریت چھوڑنے کا سرٹیفیکیٹ مقررہ میعاد کے اندر پیش نہ کرنے پر تاحیات نااہل قرار دیا اور انکی سزا بطور پارلیمنٹیرین حاصل کی گئی تمام مراعات بھی واپس کرنے کی متعین کی تو انصاف کی عملداری میں یہ تاخیری حربہ کس کے کھاتے میں ڈالا جائے۔ ذہنِ رسا ٹامک ٹوئیاں مارتے اس منظر تک جا پہنچا جب وزیراعظم عمران خان صاحب نے فیصل واوڈا کو قومی اسمبلی کی رکنیت سے قانون سازی کے ایک مرحلے میں بطور رکن ان کا ووٹ ڈالوا کر مستعفی کرایا اور پھر انہیں سینیٹ کا ٹکٹ دیکر ایوان بالا میں بٹھا دیا اور اس طرح انکی وزارت انکے پائوں کے نیچے سے سرکنے کی نوبت بھی نہ آنے دی۔ جناب! صادق اور امین کا مستند سرٹیفیکیٹ اپنے کسی خاص دوست کو اپنی چھتری کے نیچے لا کر محفوظ کرنے کی گنجائش تو نکال ہی سکتا ہے۔ مجھے اس پر کوئی الٹا سیدھا تبصرہ کرنے اور اپنی جان شکنجے میں پھنسوانے کی بھلا کیا ضرورت ہے۔ 
مگر میں کیا کروں۔ غربت اور مہنگائی کے مارے بھوکوں ننگوں کی دھمال مجھ سے دیکھی نہیں جاتی…؎
یہ مہنگائی‘ اللہ اللہ 
اور بے کاری‘ ماشاء اللہ
نہ کچھ کپڑا‘ نہ کچھ غلّہ 
آئو ڈالیں خوب دھمال
حضور چاہے دیکھو یا نہ دیکھو مگر کتھارسس کیلئے یہ دھمال ڈالنا انتہائی ضروری ہوگیا ہے۔ بے شک ’’جے بولے تے مار دین گے‘ نہ بولے تے مر جاواں گے‘‘۔ ارے! کیا  اس سے بڑا مذاق کوئی اور ہو سکتا ہے کہ عالمی منڈی میں پٹرولیم مصنوعات کے گرتے نرخوں کو بڑھتا ہوا دکھا کر ملک کے عوام کیلئے یہ نرخ جان لیوا بنا دیئے جائیں جس سے ہر چیز کے نرخ آسمانوں پر پہنچ کر خطِ غربت کی جانب دھکیلے جاتے عوام کو انکے آخری ٹھکانے قبر کی یاد دلا رہے ہوں اور اس ماحول میں بھی ایک شاعرِ عوام کے چکنے چکنے پات مسندِ وزارت پر بیٹھ کر ان قہرزدہ عوام کے ساتھ یہ مخول ٹھٹھہ کررہے ہوں کہ اگر پٹرول مہنگا ہے تو وہ اس کا استعمال کم کردیں۔ اس پر انہیں ایک شاہِ معظم کا یہ ضرب المثل فرمان یاد دلانے سے بھی کہیں انکی شان میں گستاخی نہ ہو جائے کہ روٹی نہیں ملتی تو کیک کھالیں۔ حضور! آپ اپنی رعایا کو بھوکوں ماریں گے۔ انہیں ڈسنے کیلئے بے روزگاری کا ازدہا کھلا چھوڑیں گے تو جان کی امان پاتے کیا وہ تنگ آمد بجنگ آمد کا راستہ بھی اختیار نہیں کر پائیں گے…؎
بھکھے کولوں برُکی کھوہ کے کہندے او کہ بولے نہ 
جس دا جُھگاّ بھّجے آخر اوہ تے رولا پاوے گا 
سو اب حضور! عوام کے سراپا احتجاج ہونے کے نظارے آپ کو نہ چاہتے ہوئے بھی دیکھنا پڑیں گے کیونکہ…؎
رہیں نہ رند، یہ واعظ کے بس کی بات نہیں
تمام شہر ہے‘ دو چار دس کی بات نہیں 
ہمارے دانشور دوست سابق ڈائریکٹر جنرل پبلک ریلیشنز ڈاکٹر اسلم ڈوگر صاحب نے مجھے ابھی ابھی ایک پیرا وٹس ایپ کیا ہے۔ ان سطور کا اختتام میں اسی پیرے کے ساتھ کررہا ہوں۔ گر قبول افتدز ہے عزو شرف۔
’’مخالفین کو مکمل کنٹرول کرنے کی خواہش کی وجہ سے جب امریکی صدر نکسن ذلت آمیز انداز میں وائٹ ہائوس سے رخصت ہو رہا تھا تو اس نے ایک ضرب المثل فقرہ ادا کیا کہ دنیا میں لوگ آپ کیخلاف ہوتے ہیں مگر آپ کا زوال اس وقت شروع ہو جاتا ہے جب آپ لوگوں کیخلاف ہوتے ہیں۔‘‘
جناب! روئے سخن کسی کی طرف ہو تو روسیاہ۔
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن