پی ڈی ایم حکومت پاکستانی عوام کیلئے زلزلہ سے کسی بھی طرح کم ثابت نہیں ہورہی کیونکہ اس کے آفٹر شاکس ہیں کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے بلکہ ہر جھٹکا پہلے والے سے طاقتور ثابت ہورہا ہے حالانکہ کون نہیں جانتا کہ آفٹر شاکس کی شدت بتدریج کم ہوتی جاتی ہے۔ آئی ایم ایف کو رام کرنے کے لئے پیش کردہ منی بجٹ نے تو عوام کی چیخیں ہی نکال دی ہیں جس کے بعد محسوس ہورہا ہے کہ تبدیلی اقتدار کے بعد معیشت کو لگنے والے جھٹکے تو محض ٓفٹرشاکس تھے جو اس بار”آفٹر“ کے بجائے زلزلہ سے پہلے ہی آگئے تھے۔یوں تو مہنگائی کا سلسلہ سابقہ عمران خان دور کے اواخر میں شروع ہوچکا تھا جس سیاسی عدم استحکام کا سبب گردانتے ہوئے عوام جھیل گئے کہ سیاسی حالات بہتر ہوتے ہی معاملات سدھر جائیں گے مگر کسے معلوم تھا کہ حالات سنبھلنے نہیں بلکہ مزید بگڑنے ہیں۔ پی ڈی ایم کو حکومت منتقلی کے ساتھ ہی نقارہ پیٹا جانے لگا کہ سابقہ حکومت کی بد اعمالیوں کے نتیجہ میں ملک ڈیفالٹ کو پہنچ رہا ہے مگر ایسا نہیں ہونے دیا جائے گا ‘ کئی بار کے تجربہ کار حکمران ملک کو قطعاً نقصان پہنچنے نہ دیں گے البتہ عوام کو بھی کچھ سخت فیصلوں کے لئے تیا ررہنا ہوگا۔ قومی خزانہ کے مشیر مفتاح اسماعیل تو اس حوالہ سے اتنا بدنام ہوئے کہ ان کی ہر پریس کانفرنس سے قبل ہی مارکیٹوں میں افراتفری پھیلنے لگی۔ اسی دوران ڈالر اور سونے کے بھاو¿ کو پر لگ گئے اور ڈالر کی شرح تبادلہ بڑھنے کے سبب روز ہی ” منی بجٹ“ آنے لگا جس کے بعد اسحٰق ڈار کو مسیحا بناکر وطن واپسی کی راہیں ہموار کی گئیں۔ اگرچہ ان کی آمد کے ساتھ ہی مختصر وقت کے لئے ”یومیہ منی بجٹ“ کا سلسلہ ضرور تھما مگر اس کے بعد آئی ایف ایم وہ آنکھیں دکھانا شروع کیں کہ ”ٹارزن کی واپسی“ کا سارا بھرم جاتا رہا اور عوام چاروں خانے یوں چت ہوئی کہ اب اٹھا بھی نہیں جارہا۔ رہی سہی کسر آئی ایم ایف کو رام کرنے کی آخری کوشش کے لئے اسحٰق ڈار کے منی بجٹ نے پوری کردی کہ جس کے بعد یوں محسوس ہو چلا ہے کہ اس بار پاکستان میں آفٹر شاکس پہلے اور زلزلہ بعد میں آیا کیونکہ اس بار قیمتیں پیٹرول مہنگا ہونے کے سبب نہیں بلکہ باقاعدہ طور پر اور براہ راست بڑھائی گئیں ہیں اور مضحکہ خیز امر یہی ہے کہ اس بار بھی اس کا اثر ” غریب پر نہیں پڑے گا“ کا مژدہ بھی سنایا گیا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ رمضان سر پر ہے‘ مارکیٹ سے اشیائے خوردونوش یا تو غائب ہیں یا پھر مہنگے بلکہ منہ مانگے داموں فروخت ہورہی ہیں۔ چاول درجہ اول 380‘ درجہ دوم320 جبکہ ٹوٹا چاول 190روپے فی کلو پر جا پہنچا ہے۔ مرغی کا گوشت تاریخ میں پہلی بار سات سو روپے سے بھی آگے پہنچ رہاجبکہ خوردنی تیل ساڑھے چھ سو روپے کو چھو رہا ہے۔ ایسے میں غریب ہی نہیںبلکہ متوسط طبقہ بھی پریشان ہے کیونکہ اس بار اسے رمضان میں بچوں کو روزہ رکھوانے کیلئے اسے بہت ہی بڑی قیمت ادا کرنی پڑے گی‘ ہر سحری اور ہر افطار میں خون کے گھونٹ پینا پڑیں گے۔ حکومت کو چاہیئے کہ کم از کم وہ کام تو کر لے کہ جس سے آئی ایم ایف نے بھی نہیں روکا بلکہ اس کی گاہے بگاہے ہدایت کرتی رہی ہے کہ عوام کو ریلیف دینے کے اقدام کئے جائیں۔ اور وہ اسی صورت ممکن ہے کہ انتظامیہ ناجائز منافع خوری اور ذخیرہ اندوزوں کو لگام دے مگر لگتا یوں ہے کہ ناجائز منافع خور مافیا نے انتظامیہ کی لگامیں یوں کسی ہوئی ہیں کہ ان کی آنکھیں بھی بند ہیں اور اور وہ سماعت ہی نہیں بصارت سے بھی محروم ہو گئے ہیں‘ وہ عوام کے بارے میں کچھ سوچنے سے بھی قاصر ہیں ورنہ یہ کیونکر ممکن ہے کہ انتظامیہ دودھ کے نرخ مقرر کرے مگر اس پر کھلم کھلا اعلان کردیا جائے کہ اس ریٹ پر نہیں بیچیں گے اور بعد میں ایسا ہی ہوتا نظر بھی آئے۔ حکومت آٹا کا ریٹ مقرر کرنے کا نوٹیفکیشن تو جاری کرے مگر اسے یہ دیکھنے کی توفیق ہی نہ ہو کہ اس پر عمل بھی ہورہا یا نہیں۔ خدارا عوام کو نرخ مقرر کرنے اور ریٹ لسٹ آویزاں کرنے کے بیانات سے بہلانے کا سلسلہ بند کیا جائے اور انتظامی مشینری کے اندر موجود ” ناجائز منافع خور مافیا “ کو نشان عبرت بناکر عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے اقدامات کئے جائیں۔
منی بجٹ‘ آفٹر شاکس کے بعد زلزلہ!
Feb 18, 2023