آئی ایم ایف کے ٹھاکروں کا وفد 10دن تک وزارتِ خزانہ کے حکام کے ساتھ مذاکرات کے بعد اپنا غربت پھیلاو مشن پورا کرکے واپس جاچکا ہے،اور یہ مشن جاتے جاتے پاکستان میں بربادی کے نشانات چھوڑ گیاہے، مہنگائی کے عذاب کی شدت جہاں بڑھتی جا رہی ہے وہاں اس دوران حکمرانوں کی لوٹ مار اور عیاشیاں بھی کم نہیں ہو رہیں۔یہ درست ہے کہ حکومت کو اس بات کا یقین تھا کہ وہ آئی ایم ایف کے نمائندوں کو اس بات پر راضی کرلیں گے کہ ایک ارب 20کروڑ ڈالر کی معطل قرضے کی قسط جاری ہوجائے۔ مگر اس سے قبل انہیںعوام کا معاشی قتل عام اور ان کی چیخیں سنانا ضروری تھا، حکومت کو یہ فکر کھائے جارہی تھی کہ آئی ایم ایف کے ساتھ قرضوں کی بحالی میں مسلسل تاخیر ہوتی جارہی ہے،مزید تاخیر سے بچنے کے لیے آئی ایم ایف کے حکم پر عملدرآمد کرنے کے لیے وفاقی حکومت کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں 170 ارب روپے کے اضافی ٹیکس عائد کرنے کے لیے ضمنی بجٹ پیش کردیا ہے۔اور گزشتہ روز پیش ہونے والے اس منی بجٹ کے مطابق پیٹرول بائیس روپے مزید مہنگا،ہائی اسپیڈ ڈیزل اٹھارہ روپے سمیت گیس اور دیگر اس قسم کی مصنوعات پر بھاری بھرکم اضافے نے عوام کو زندہ درگور کردیاہے اس پر لگژری آئٹمز پر سیلز ٹیکس پچیس فیصد،سیمنٹ ،مشروبات،موبائلز ،الیکٹرونکس مصنوعات،ڈبہ بند اشیاءمیک کا سامان ،ائیر ٹکٹ شادی ہالز اور ہوٹل پر ایڈوانس ٹیکس اور مرنے کے بعد کفن دفن کا سامان بھی عوام کی قوت خرید سے کوسوں دور جاچکاہے، ملک خداد اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اس وقت چاروں طرف مہنگائی اور بے روزگاری کا طوفان قہقہ لگارہاہے،ایسا لگتاہے کہ اس حکومت سے ہر کوئی ناراض ہے خود مریم نواز نے یوتھ ونگ کے وفد سے ملاقات میں یہ بیان دیاہے حکومت سے ہمارا کوئی تعلق نہیں بلکہ ہماری حکومت تو ابھی نوازشریف کی قیادت میں آنی ہے، یعنی اس بات کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتاہے کہ یہ حکومت کارکردگی کے لحاظ سے اس قدر بری ہے کہ اسکے اپنے بھی ان پر لعن وتن کرررہے ہیں جبکہ قوم یہ بھی جانتی ہے کہ مریم نواز کا یہ بیان محض اگلی بار پھر سے حکومت بنانے اور قوم کو بے وقوف بنانے کے لیے ہے اگر ایسا نہیں ہے تو تاریخ اٹھاکردیکھ لیں حکومت کے دس ماہ میں حکومت نے صرف اور صرف اپنے زاتی مفادات سمیت نوازشریف اور خود مریم نواز پر قائم کیے گئے مقدمامت اور سزاوں کے خاتمے پر کام کیا باقی تو جوقوم کا حال ہے وہ سب کے سامنے ہے۔گزشتہ دنوں پشاور میں تاریخ کی بدترین دہشت گردی اور پہلے سے ہی حکومت کی جانب سے کی گئی ریاستی دہشت گردی ہونے کے باوجود آئی آیف کے ٹھاکرزرا برابر بھی خوش نہ تھے وہ مرے ہوئے لوگوں کومارنے کے مزید خواہش مند دکھائی دیے،اور ان کے منشی حضرات اپنے آقا کی ہر بات پر لبیک کہتے دکھائی دیے۔ یہ سب جانتے ہوئے کہ غریب توغریب متوسط طبقے کی زندگی بھی اجیرن ہوچکی ہے، اس کے باوجود آئی ایم ایف کا حکم ہے کہ کم از کم 170 ارب روپے کے مزید مستقل ٹیکس عائد کیے جائیں یعنی آنے والے دنوں میں جتنا عذاب ابھی اس قوم پر نازل کیا ہے اتناہی مزید نازل کرو،جس پر انہیں نو ٹینشن کا میسج دیکر تھوڑا سا مسکرانے کا موقع فراہم کیا گیااور یوں پاکستان میں تباہی پھیلاکرآئی ایم کا طوفان کچھ دن کے لیے واپس روانہ ہوا۔آج پاکستان میں مہنگائی سے پریشان عوام اب بمشکل ایک وقت کا کھانا ہی کھا سکتے ہیںپاکستان میں چالیس فیصد سے زائد افراد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں جو بڑھ کر اب ستر فیصد سے زیادہ ہوچکی ہے،غیر منصفانہ تقسیم کے باعث معاشرے میں غربت، بے چینی، مایوسی، افراتفری پھیلی ہے اور بے روزگاری کے باعث چوری، قتل، دھوکا دہی، ریپ کیسز اور دیگر جرائم میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ اور ان سارے مسائل کی ایک ہی جڑ مہنگائی اور غربت ہے۔منی بجٹ لانے اورنئے ٹیکس عائد کرنے سے پہلے حکومت نے صدارتی آرڈی ننس کے ذریعے ضمنی بجٹ نافذ کرنے کا فیصلہ کیا اور اس مقصد کے لیے وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی سے ملاقات کی، لیکن صدر مملکت نے صدارتی آرڈی ننس کے ذریعے ٹیکس لگانے سے انکار کردیا اور ساتھ ہی حکومت کو یہ مشورہ دیا کہ اس مسئلے پر پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینا ضروری ہے۔ صدر مملکت کے اعتراضات کے بعد حکومت نے غور و خوض شروع کردیا۔ فوری طور پر کابینہ کے ارکان کے پاس سرکولر بھیج کر بل کی منظوری حاصل کی گئی اور یوں گزشتہ روز بدھ کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں ضمنی بجٹ پیش کردیا گیا ، اسحا ق ڈار کی من مانیوں کی داستان گزشتہ برس موجودہ حکومت کے پہلے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کے فارغ ہونے کے بعد سے شروع ہوتی ہے ڈار صاحب نے وزارت خزانہ کا قلمدان سنبھالا تو آئی ایم ایف پروگرام اسی وقت معطل ہو گیا جب ان کی جانب سے آئی ایم شرائط پر عمل درآمد نہیں کیا گیا اور بڑی بڑی بڑھکیں ماری گئی ،ان میں سب سے بڑی شرط ایکسچینج ریٹ کو مارکیٹ فورسز پر چھوڑنا تھا۔ پہلے پہل تو ماضی کی طرح اسحاق ڈار کی جانب سے ڈالر کے ریٹ کو مصنوعی طور پر روکا گیا ۔اور اس کے ساتھ ساتھ پٹرولیم مصنوعات پر لیوی کو بھی فوری طور پر نہیں بڑھایا گیا جب کی دوسری جانب گیس اور بجلی کے شعبوں کے گردشی قرضوں کو ختم کرنے کے لیے ان کے نرخوں میں اضافہ نہ کرنے سے بھی پروگرام تعطل کا شکار ہو گیا۔ مگرآج اسحاق ڈار معافیاں مانگ رہاہے اور آئی ایم ایف کے سامنے اپنے کیے پر شرمندہ ہے مگر انہیں عوام کو زبح ہونے کا کوئی خوف نہیں کیونکہ وہ ہر حال میں اپنی خفگی مٹانے کے در پہ ہیں اور اس کے لیے چاہے انہیں اس ملک کی غریب عوام کی لاشوں پرسے ہی کیوں نہ گزرنا پڑے،حیرت تو یہ ہے کہ وزیراعظم کا خطاب جب بھی سنیں تو وہ یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ وہ اس ملک کی ترقی اور غربت کے خاتمے کے لیے بہت سنجیدہ ہیںلیکن حکومت کاعوام کے لیے سنجیدگی کاعالم یہ ہے کہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کی دو بندرگاہوں پر آٹھ ہزار سے زیادہ کنٹینر پھنسے ہوئے تھے جن میں خوراک سے لیکر ادویات جیسا سامان موجود تھا۔ ایک زرائع کے مطابق ان میں سے چند کنٹینر اب کلیئر ہو رہے ہیں جبکہ بڑی تعداد اب تک وہیں موجود ہے۔اور حکومت کی سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ لوگ سستے آٹے کے حصول میں لائنوں میں کھڑے دم توڑ رہے ہیں مگر ان کی کوئی سنوائی نہیں ہوتی، تحریر کے شروع میں جہاں میں نے مریم نواز کی حکومت سے علیحدگی پر ایک انوکھی منطق کا زکر کیاہے وہاں تحریر کے آخر میں بے روزگاری کے خاتمے کے لیے اس فارمولے کا زکر بھی کرنا چاہونگاجس پر انہوں نے تیزی سے کام شروع کردیاہے،یعنی مریم صاحبہ آجکل عوام کو خوشحالی اور گھروں میں خیروبرکت پیدا کرنے کے لیے پانچ سو کے نوٹ پر دستخظ کرکے پنڈال کی پہلی صف میں موجود لوگوں کو بانٹ رہی ہے تاکہ ان کے گھروں میں اس دستخط شدہ پانچ سو کے نوٹ سے مزیدنوٹوں کی ریل پیل ہوجائے اگر اسی طرح سے قوم کی غربت کا خاتمہ ہوتا ہے تو میں موجودہ حکومت کی چیف آرگنائزر مریم نوازصاحبہ سے درخواست کرونگاکہ ایک نوٹ آپ کے دستخظ والا ہمیں بھی عنایت کردیں میں وعدہ کرتاہوں کہ اپنے ارد گرد کے لوگوں کو اس نوٹ کے درشن ضرور کراونگا تاکہ میری طرح ان کے دن بھی پھر جائیں۔