’جیل بھروتحریک ‘ ۔ تاریخ کے جھروکوںسے (2)

Feb 18, 2023

سلیمان کھوکھر-----چہرے


”پاکستان قومی اتحاد“ بنیادی طورپر ایک انتخابی اتحاد تھا۔ اسکے مقاصد میں قومی انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونیوالی اسمبلی میں منتخب ہوکر اپنا آئینی وپارلیمانی کردار ادا کرنا تھا۔ ”اتحاد“ کے آغاز پر اس کے سواکوئی دیگر مقاصد نہ تھے۔ نہ نظام مصطفٰے کے اورنہ بھٹوکو طاقت سے ہٹانے کے نظام مصطفٰے کا لفظ اولین طورپر ”اتحاد“ کے جنرل سیکرٹری رفیق باجوہ نے اپنی تقاریر کو مذہبی رنگ دے کر نکھارنے کیلئے استعمال کیا جبکہ اس میں شامل دیگر سیاسی جماعتوں حتی کہ مذہبی جماعتوں نے بھی جمہوریت، عوام کی بالادستی اور صاف وشفاف آزادانہ منصفانہ انتخابات کو اپنا موضوع رکھا۔ بلاشبہ ”قومی اتحاد“ کے جنرل سیکرٹری رفیق باجوہ کی جماعت، جمعیتہ علماءپاکستان نے اکثر وبیشتر ”اتحاد“ کو بہت مذہبی رنگ دینے کی کوششیں کیں۔ جوں جوں انتخابی مہم آگے بڑھتی رہی توں توں پاکستان پیپلز پارٹی کے وفاقی وصوبائی وزراءکے رویئے جارحانہ ہوتے گئے، ذہن کے ساتھ ساتھ انکی زبان بھی پھسلتی چلی جاتی جس سے یہ احساس تقویت حاصل کرتا گیا کہ پیپلز پارٹی ہر حال میں اور ہر قیمت پر نہ صرف یہ انتخابات جیتنا چاہتی ہے بلکہ دوتہائی اکثریت بھی حاصل کرنا چاہ رہی ہے۔ اسکی بنیاد پر ”قومی اتحاد“ کی قیادت کو بھی اب اپنا موقف دوٹوک پیش کرنا پڑا کہ اگر انتخابات میں دھاندلی ہوئی تو ان کانہ صرف بائیکاٹ کیا جائیگا بلکہ ملک بھر میں تحریک چلائی جائے گی۔ ”اتحاد“ کی اس حکمت عملی کو دیوانے کا خواب سمجھا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹوسے لے کر پارٹی کے ایک عام رکن تک نے اس کا مذاق اڑایا کہ کیا یہ لوگ اس قابل ہیں کہ تحریک چلاسکیں؟ پھر وقت نے دیکھا کہ ”قومی اتحاد“ کو یہ نادر موقع خود ذوالفقار علی بھٹو اور چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کے علاوہ پیپلز پارٹی کے چوبیس کے قریب بلامقابلہ منتخب ہونیوالے ممبران قومی وصوبائی اسمبلی نے مہیا کر دیا۔ اب ”قومی اتحاد“ کی تحریک ایک نئے اور فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوگئی۔ اپنے بڑے بڑے جلسوں میں مرکزی قائد ین نے کھل کر اس بات کا اظہار کیا کہ انتخابات میں ذوالفقار علی بھٹو ملک بھر میں دھاندلی کریں گے جسے ہم عوامی طاقت کے زورپر روکیں گے۔ انتخابات ہوئے اور بلامقابلہ منتخب ہونے والوں کے علاوہ پیپلزپارٹی کے کمزور لوگ بھی اتحاد کے بڑے بڑے رہنماﺅں کو ”شکست فاش“ دینے میں کامیاب ہوگئے تو تحریک کا آغاز ہوگیا۔ لاہور کے نیلا گنبد کی مسجد سے تحریک استقلال کے سربراہ ایئر مارشل اصغر خاں اور تحریک استقلال کے ٹکٹ ہولڈر جاوید ہاشمی نے قرآن اپنے اپنے گلے میں ڈال کر مال روڈ کی طرف احتجاجی مارچ شروع کیا تو انہیں گرفتار کرلیا گیا۔ اب ذوالفقار علی بھٹو کےخلاف گرفتاریاں پیش کرنے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ بھٹو کےخلاف گرفتاریوں کا مرکز لاہور کے مال روڈ پر مسجد شہدا¿ ٹھہری جہاں سے روزانہ پانچ پانچ کارکن باقاعدگی سے گرفتاریاں پیش کرتے۔ یہ سلسلہ جو دراز ہوا تو چترال اور مالاکنڈ کی پہاڑیوں سے لےکر سندھ کے ریگزاروں، بلوچستان کے پہاڑوں اور پنجاب کے میدانوں تک ایسا پھیلا کہ چھوٹے سے چھوٹے قصبے بھی گرفتاریاں پیش کرنے میں کسی سے پیچھے نہ رہے۔ ایسا طوفان پاکستان کی سیاسی تاریخ نے اس سے قبل نہیں دیکھا۔ جتنا ہنگامہ خیز دوربھٹو کا تھا اس سے زیادہ ہنگامہ خیز اور تیزگام تحریک انکے خلاف چل نکلی۔
 گوجرانوالہ سے بھی دو سو سے زائد کارکنوں نے گرفتاریاں پیش کیں۔ جن میں حامد ناصر چٹھہ، غلام دستگیر خاں، محمود بشیر ورک، چوہدری فقیراللہ، برادرم فاروق انصاری کے والد علامہ عزیز انصاری، چوہدری اسماعیل رئیس گرجاکھ، مولانا عبدالعزیز راجوروی، جماعت اسلامی کے قاضی فاضل، خواجہ عمادالدین، چوہدری اعجاز چیمہ، سعید جوندہ، چوہدری بشیر چٹھہ، خلیفہ امام دین بقائ، چوہدری سیف اللہ بٹر، امین پہلوان اور میرے علاوہ ہمارے دوست ”کنگ مال“ والے ملک ظہیرکے والد ملک رفیق بھی شامل تھے۔ مجھے گرفتار کرکے اس وقت کے اسسٹنٹ کمشنر اقبال بوسن نے سرعام پیٹا۔ اسکے علاوہ بھی جو سینکڑوں کارکن جیلوں میں گئے بہت سوں کے نام یاد نہیں آرہے۔ جن سے بہرطور معذرت خواہ ہوں۔ ڈسٹرکٹ جیل گوجرانوالہ میں چند ماہ رکھ کر ہماری ”چالی“ ڈسٹرکٹ جیل جھنگ میں کردی گئی۔
 جون 77ءکے اواخر میں ہم لوگ وقفے وقفے سے رہا ہونا شروع ہوگئے۔ اتنے میں 4جولائی کی رات اسلام آباد کے امریکی سفارت خانہ میں امریکہ کا یوم آزادی منایا گیا جس میں وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو اور فوج کے سربراہ جنرل ضیاءالحق نے شرکت کی ۔ واپسی پر صبح طلوع ہونے سے قبل ہی دوبجے رات کے لگ بھگ ذوالفقار علی بھٹو ،ان کے وزراءاور ”پاکستان قومی اتحاد“ کے تمام راہنماﺅں کو گرفتار کرکے مری کے دومختلف ریسٹ ہاﺅسسز میں ”حفاظتی تحویل“ کے نام پر قید کردیا گیا۔ اور یوں ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف گرفتاریاں پیش کرنے کی فلم ”کھڑکی توڑ“ کامیابی کے بعد ختم ہوگئی۔ اب نئی حکومت تھی۔ جنرل ضیاءالحق کی شکل میں ایک نیا حکمران تھا، انکے نئے نئے اور اچھوتے ارادے تھے۔ 1973ءکا متفقہ آئی، ”آکسیجن ٹینٹ“ میں داخل کردیا گیا اور اب مارشل لاءملک کا سپریم لاءتھا، اصغرخاں، ولی خاں اور مولانا شاہ احمد نورانی کے علاوہ سبھی سیاسی راہنما ضیاءالحق کے حضور سجدہ ریز تھے، اسلام آباد میں وزارتیں بانٹی جارہی تھیں اور تاجر مٹھائیاں بانٹ رہے تھے۔ مساجد ومدارس کے مجاوران نے جانا کہ حضرت عمر کا دور آگیا ہے (نعوذبااللہ) ملاﺅں پر نوازشات کا ابرکرم کھل کر برسا۔ غرض وہ سب کچھ ہورہا تھا جو مارشل لاءکے آغاز پر طالع آزما طبقات کرتے چلے آئے ہیں مگر عالمی دنیا ضیاءالحق کے اقتدار کو سند جواز دینے کیلئے تیار نہیں تھی۔ عرب ممالک باالخصوص سعودی عرب اور لیبیا سے تعلقات ”ٹھنڈے ٹھار“ رہے۔ رہا امریکہ اوریورپ تو انسانی حقوق کے حوالے سے انہوں نے بھی ضیاءالحق کے مارشل لاءکو ایک حد تک ہی تسلیم کیا۔ حالات خراب تر ہونا شروع ہوگئے کہ ایک اور روز قدرت ضیاءالحق کی مدد کو آگئی۔ پس تحریر:۔ کالم میں کئی جگہ پر آپکو واقعات وشخصیات کی بابت کچھ تکرار نظر آئے گی جو بہرطور کالم کے موضوع کا تقاضا ہے۔ باقی داستا ںاگلے ہفتے کے روز۔
 


 
 

مزیدخبریں