” معزز قارئین! پاکستان سمیت دُنیا بھر کے مسلمان ہر سال 26 رجب اُلمرجب کو اپنے اپنے انداز میں عقیدت و احترام سے شب ِمعراج مناتے اور اللہ تعالیٰ سے دُعائیں بھی مانگتے ہیں ۔ سبھی مساجد، سرکاری اور غیر سرکاری عمارتوں پر چراغاں کِیا جاتا ہے ۔ اِس بار بھی 26 رجب اُلمرجب 1444 ہجری (18 فروری 2023ءکی شب ) کو ہوگی۔” آج کی شب پاکستان کی مساجد اور سرکاری اور غیر سرکاری عمارتوں پر کس طرح چراغاں کا بندوبست کِیا جائے گا، یا دِلوں کے چراغ ہی جلائے جا سکیں گے ؟“۔
رحمت اُللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم ” برّاق“ پر سوار ہو کر جبرائیل ؑکی مُعیت میں معراج کے سفر پر روانہ ہُوئے۔ لفظ بُراق، بَرق(بجلی) کی طرح چمکیلا اور تیز رفتار۔ براق کے بارے میں علاّمہ اقبالؒ نے فرمایا کہ
اِک نُکتہ میرے پاس ہے ، شمشِیر کی مانِند !
بُرّندہ وصیقل زدہ ، رَ وشن و برّاق!
کافر کی یہ پہچان کہ ، آفاق میں گُم ہے!
مومن کی یہ پہچان کہ ، گُم اُس میںہیں آفاق!
یعنی” مَیں تجھے ایک نُکتہ بتاتا ہوں جو تلوار کی طرح کاٹ کرنےوالا ۔ صَیقل کِیا ہوا اور رَوشن ۔ کافر کی پہچان یہ ہے کہ وہ خود کو کائنات میں گُم کردیتا ہے جبکہ مومن کی پہچان یہ ہے کہ کائنات اُس میں گُم ہو جاتی ہے “ ۔
معزز قارئین! سب سے اوپر کا آسمان (آٹھواں آسمان ) ” عرش ِ اعظم“ اور ”کُرسی “ کہلاتا ہے اور دُنیوی ریاست ، سلطنت ، تاج و تخت اور حکومت کو ” کُرسی © ¿ ثانی “ کہا جاتا ہے ۔ حضرت غوث اُلاعظم شیخ عبداُلقادر جیلانی نے ”کُرسی ¿ ثانی“ پر بھی رونق افروز قصر رسالت (رسالت کے محل ) سے مخاطب ہو کر فرمایا تھا کہ
اے قصرِ رسالت از تو، معمور!
منشورِ لطافت از تو، مشہور!
خُدّامِ تُرا غُلام گشتہ!
کیخُسرو کیقباد و فغفور!
یعنی ” یا رسول اللہ ! رسالت کا قصر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے معمور ہے ۔ لُطف و کرم کا منشور آپ ہی کے الطاف سے مشہور ہے ۔ کیخُسرو، کیقباد اور فغفور ( قدیم ایران اور چین کے عظیم حکمران ) سب آپ کے خادموں کے غُلام ہیں“۔
معزز قارئین! ” نائب رسول فی الہند“ خواجہ غریب نواز، حضرت مُعین اُلدّین چشتی ؒ کا کمال ملاحظہ فرمائیں۔ آپؒ نے نہ جانے کسے مخاطب کرتے ہُوئے کہا کہ
راہ بکشای کہ دِل میل ببالا دارد!
پردہ بر گیر کہ جاں عزم تمایا دارد!
یعنی ” راستہ کھول دو ! کہ دل آسمانوں کی طرف جانا چاہتا ہے ۔ پردہ ہٹا دو! کہ ( اے محبوب ) میری جان تیری دِید کرنا چاہتی ہے! “۔
”شیخ سعدی شیرازیؒ !“
معزز قارئین ! ایران کے نامور صوفی شاعر حضرت مصلح الدین شیخ سعدی شیرازیؒکا یہ نعتیہ کلام دُنیا بھر میں پسند کِیا جاتا ہے ، فرماتے ہیں ....
بَلَغَ ال±عُلیٰ بِکَمالِہ .... کَشَفَ الدُّ جیٰ بِجَمَالِہ
حَسُنَت± جَمِی±عُ خِصَالِہ.... ” صَلوُّ عَلَی±ہِ وَ آ لِہ “
”(آپ)اپنے کمال کی وجہ سے بلندی پر پہنچے
”(آپ نے )اپنے جمال سے تاریکیوں کو روشن کِیا۔ ”(آپ کی ) سب ہی عادتیں بھلی ہیں
”(آپ پر) اور آپ کی اولاد پر درود پڑھو“
رسالت مآب اور آپ کی اُولاد پر دُورد پڑھنے والوں کا کون مقابلہ کرسکتا ہے ؟۔
” مُشاہداتِ معراج ! “
معزز قارئین ! تاریخی کُتب اور کُتب روایات کی رُو سے ” مُشاہداتِ معراج کے مطابق” آپ نے کچھ لوگوں کو دیکھا کہ جِن کی زبانیں اور ہونٹ کاٹے جا رہے تھے“ ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا کہ ” یہ آپ کی اُمّت کے وہ واعظ اور خطیب ہیں جو دوسروں کو لمبی چوڑی نصیحتیں کرتے ہیں مگر خود اُن پر عمل نہیں کرتے! “ ممکن ہے کل شب ۔ معراج کی رات نوابوں اور جاگیرداروں کی سی زندگی بسر کرنےوالے واعظ اور خطیب حضرات نے اپنی اداﺅں پر واقعی غور کرینگے ؟ معراج کے مشاہدات میں نبی اکرم نے کچھ ایسے لوگوں کو بھی دیکھا جو سڑا ہوا گوشت کھا رہے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوو بتایا گیا کہ ”یہ وہ لوگ ہیں جو سرمایہ پرستی کی ہوِس میں مبتلا تھے اور حقوق اُلعباد سے پہلو تہی کِیا کرتے تھے! “۔معراج کے مشاہدات میں نبی اکرم نے سُود خوروں کو اِس حال میں دیکھا کہ” اُنکے پیٹ سانپوں سے بھرے ہوئے ہیں “ ایک اور روایت کے مطابق ”ایک سُود خور خون کی ندی میں تیر رہا ہے اور جب وہ ندی سے باہر نکلنا چاہتا ہے تو لوگ اُسے پتھر مارتے ہیں اور وہ پھر ندی کے اندر چلا جاتا ہے!“۔معزز قارئین ! مَیں تو ایک عام اِنسان کی طرح ”برسرِ زمیں “ ہُوں ، نہ جانے کب ”زیر زمیں “ ہو جاﺅں ؟ پھر بھی مَیں ”عرشِ بریں “۔ ” عرشِ اعظم“ کے بارے میں بات کرتا رہتا ہُوں ۔ یوں بھی اِنسان کے دِل کو ”عرشِ اکبر“ بھی کہا جاتا ہے۔ مَیں نے 12 سال پہلے ”رَحمتہ اُل±لِعالمِین “ کے عنوان سے نعت لکھی جو آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں ....
اے اِمام اُل±ان±بیا ، محبوبِ ربّ اُل±عَالَمِیں!
آج تک چشم فلک نے ، آپ سا دیکھا نہیں!
رَح±مَتُہ لِل±عَالَمِیں
آپ کے قدموں کو ، سینے پر لِیا ، خندہ جبیں!
کِس قدر خُوش بخت ہے ، مکّہ ، مدینہ کی زمیں!
رَح±مَتُہ لِل±عَالَمِیں
آپ تو بِعثَت سے پہلے ہی تھے ، صادِق اور امیں!
آپ کا کردار ہے ، ہر دَور میں ، اعلی تریں!
رَح±مَتُہ لِل±عَالَمِیں
بارگاہِ حقّ میں لے کر ، جب گئے ، رُوح اَُل±امَیں!
آپ کی خاطر بنا ، عرشِ بریں ، فرشِ زَمیں!
رَح±مَتُہ لِل±عَالَمِیں
فرشِ سے تاعرش پَھیلا ، آپ کا نُورِ حسیں!
آپ کا نامِ گرامی، اِسمِ اعظم کے قرَیں!
رَح±مَتُہ لِل±عَالَمِیں
آپ کے خُدّام ہیں ، سارے جہانوں کے مکِیں!
فخرِ مَوجُودات ہو ، فخرِ الہٰ، و العَالَمِیں!
رَح±مَتُہ لِل±عَالَمِیں
آپ کے صدقے بنائی، حقّ نے ، دُنیائے حسِیں!
آپ کے قبضہ¿ قُدرت میں ہے ، فِردوس بَریں!
رَح±مَتُہ لِل±عَالَمِیں
مطلع¿ انور سے ہے ، آپ کی روشن جبِیں!
سامنے اِس کے ، بَنات اُلنّعش تو ، کچھ بھی نہیں!
رَح±مَتُہ لِل±عَالَمِیں
اپنے قدموں میں بٹھا لیں ، کاش خَتم اُلمُرسَلیں!
پوری ہوگی ، اے اثر، تیری تمنّا بالیقِیں!
رَح±مَتُہ لِل±عَالَمِیں