رانا محمد اکرم
<rana.akram88@gmail.com>
اللہ نے اس کی مدد کی اور اس وقت کی جب کافروں نے اسے اس حال میں گھر سے نکالا تھا کہ(صرف دوآدمی تھے اور)دو میں دوسرا (اللہ کا رسول ﷺ) تھا اور دونوں غار ثور میں چھپے تھے اس وقت اللہ کے رسولﷺ نے اپنے ساتھی (ابوبکرؓ) سے کہا تھا :غم نہ کھا،اللہ ہمارے ساتھ ہے ۔(توبہ 40 ) یہ تھی قرآن کے الفاظ میں حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے مرتبہ عالی کی جھلک۔
آپ کا اسلامی اسم گرامی عبداللہ کنیت ابوبکر لقب صدیق اور عتیق ہیں آپ کے والد کا نام عثمان اور کنیت ابو قحافہ ہے والدہ کا نام سلمی اور کنیت ام الخیر ہے آپ کا تعلق قبیلہ قریش کی شاخ بنو تمیم سے ہے عہد جاہلیت میں آپ کا نام عبدالکعبہ تھا حضورﷺ نے بدل کر عبداللہ رکھ دیا تھا ۔آپ ؓ کی پیدائش عام الفیل سے دوسال چھ ماہ بعد ہجرت نبویﷺ سے پچاس سال چھ ماہ پہلے بمطابق 573عیسوی مکہ میں ہوئی آپ پیغمبر اسلام سے دو سال چھ ماہ چھوٹے تھے آپ کے والد اور والدہ دونوں کی جانب سے حضورﷺ سے سلسلہ نسب ساتویں پشت میں مل جاتا ہے۔آپؓ کا رنگ سفید ،رخسار ہلکے ہلکے چہرہ باریک اور پتلا ،پیشانی بلند منحنی جسم،چادر باندھتے تو نیچے ڈھلک جاتی اور داڑھی کو سرخ سیاہ مدبی لگایا کرتے تھے۔
آپ بچپن سے اعتدال ،پاکباز اور بلند اخلاق کے مرتبے پر تھے آپ نے جس ماحول میں آنکھ کھولی وہ کفر و شرک اور فسق و فجور کا دور تھا لیکن اس ماحول میں بھی آپ کو اللہ تعالیٰ نے ہر قسم کی برائی سے بچایا ہوا تھا آپ نے شراب کو اپنے اوپر حرام کیا ہوا تھا۔آپ نے جوان ہو کر کپڑے کی تجارت شروع کردی جس میں آپ کو غیر معمولی فروغ حاصل ہوا اور بہت جلد آپ کا شمار مکہ کے نہایت کامیاب تاجروں میں ہونے لگا آپ اپنی دولت کو غربا ،مساکین کی مدد کیلئے خرچ کرتے تھے آپ کو مکہ کے چیف جسٹس کی حیثیت حاصل تھی آپ کی چار بیویاں قتیلہ بنت عبد العزیٰ ،ام رومان بنت عامر ،اسما بنت عمیس اور حبیبہ بنت خارجہ تھیں آپ کے تین بیٹے عبد الرحمان ،عبداللہ اور محمد تھے،آپ کی تین بیٹیاں اسمائ،عائشہ اور ام کلثوم تھیں جب پیغمبر اسلام حضرت محمدﷺ نے ان کے سامنے اسلام پیش کیا تو انہوں نے بغیر کسی ترددکے اسلام قبول کر لیا اور یوں وہ آزاد بالغ مردوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے کہلائے ،عشرہ مبشرہ میں سے پانچ آدمی حضرت عثمان بن عفانؓ،حضرت زبیر بن عوامؓ،حضرت طلحہؓ ،حضرت سعد بن ابی وقاص ؓاور حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ آپ کی رہنمائی اور ترغیب سے دولت اسلام سے سرفراز ہوئے۔حضرت بلال حبشی ؓ کو آپ نے اس کے مالک امیہ سے پیسے دیکر آزاد کروایا۔تیرہ سالہ مکی دور جو سخت مصیبتوں اور تکلیفوں کا دور تھا اس میں آپ ہر قدم پر نبی پاک ﷺ کے ساتھ رہے بعد ازاں پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ کی رفاقت میں مکہ سے یثرب ہجرت کی ۔غزوہ بدر اور دیگر تمام غزوات میں نبی پاک ﷺ سے ہم رکاب رہے جب حضرت محمدﷺ مرض الوفات میں گرفتار ہوئے تو حضرت ابوبکر ؓ کو حکم دیا کہ وہ مسجد نبوی میں امامت کریں۔
پیر 12ربیع الاول سنہ 11ہجری کو نبی پاک ﷺ کا وصال ہوا اور اسی دن حضرت ابوبکر کے ہاتھوں پر مسلمانوں نے بیعت خلافت کی ۔منصب خلافت سنبھالنے کے بعد آپ ؓکے سامنے چار بڑے مسائل تھے ۔حضرت اسامہ بن زید ؓکے لشکر کی روانگی،منکر ین زکوۃ،جھوٹے مدعیان نبوت اور فتنہ اتداد۔آپ نے بہت دور اندیشی سے ان سب مسائل پر قابو پالیا آپ نے اسلامی قلمرو میں والیوں ،عاملوں اور قاضیوں کو مقرر کیا جا بجا لشکر روانہ کیے جس سے تمام جزیرہ عرب اسلامی حکومت کا مطیع ہو گیا آپ کے عہد خلافت میں عراق کا بیشتر حصہ اور شام کا بڑا علاقہ فتح ہو چکا تھا ۔آپ دو سال اور تین ماہ خلیفہ رہے پیر22جمادی الثانی 13ہجری(23اگست634عیسویٰ) کو تریسٹھ برس کی عمر میں اس دار فانی سے کوچ کر گئے۔آپ ؓ کو حجرہ مبارک کے اندر رسول اللہ ﷺ کے پہلو میں دفن کیا گیا۔
انبیاء اور رسولوں کے بعد اس کائنات کی سب سے اعلی اور ارفع شخصیت حضرت ابوبکر صدیق ہیں قرآن مجید کی کئی آیات آپ کی فضیلت کی گواہی دیتی ہیں۔بے شمار احادیث میں آپ کی فضیلت بیان کی گئی ہے حضور انورﷺ نے فرمایا کہ کسی شخص کے مال نے مجھے اتنا فائدہ نہیں پہنچایا جتنا ابوبکر کے مال نے مجھے فائدہ پہنچایا ہے۔اس طرح آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں نے جس کو بھی اسلام کی دعوت دی اس کی طرف سے ایک گونہ تردد اور فکر پایا لیکن جب میں نے ابوبکر ؓ کو اسلام کی دعوت دی تو انہوں نے بلا تو قف و تردد اس کو قبول کر لیا ۔ایک دفعہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ابوبکر تم میرے رفیق حوض (کوثر) اور میرے رفیق غار ہو۔ ایک حدیث میں آپ نے فرمایا ہم پر کسی کااحسان نہیں جس کا بدلہ ہم نے دے نہ دیا ہو سوائے ابوبکر کے ان کا جو احسان ہمارے ذمے ہے اس کا بدلہ قیامت کے دن اللہ تعالی دے گا۔ایک حدیث میں ہے لوگو ’’ اللہ تعالیٰ نے مجھے تم سب کی طرف مبعوث فرمایا تو سب نے میری تکذیب کی جبکہ ابوبکر ؓ نے میری تصدیق کی‘‘۔حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے مروی ہے کہ شب معراج کے اگلے دن مشرکین مکہ حضرت ابوبکر کے پاس آئے اور کہا کہ ’’اپنے صاحب کی اب بھی تصدیق کرو گے ؟ انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ راتو ںرات بیت المقدس کی سیر کر آئے ہیں ‘‘ ابوبکر صدیق ؓ نے کہا کہ بے شک آپ ﷺنے سچ فرمایا ہے۔میں تو صبح شام اس سے بھی اہم امور کی تصدیق کرتا ہوں۔اس واقعہ سے آپ ؓ کا لقب صدیق مشہور ہو گیا۔ نبی کریم ﷺ کی محبوب ترین بیوی حضرت عائشہ ؓ آپ کی بیٹی تھیں۔حضرت عمرؓ فرماتے تھے کہ ابوبکر مجھ سے میری ساری زندگی کی نیکیاں لے لو اور غار والی رات کی نیکیاں مجھے دے دو بے شک آپ جامع الکمالات ،مجمع الفضائل ،اصدق الصادقین،سید المتقین ،افضل البشر بعد الانبیا،محبوب حبیب خدا ،صاحب صدق و صفا،خلیفہ اول ،جانشین محبوب رب،امیر المومنین اور عاشق شہنشاہ بحرو بر ہیں۔
اللہ تعالی کی بے شمار رحمتیں ہوں حضرت سیدنا ابوبکر صدیق ؓ پر اللہ تعالیٰ ہمیں ان کی اتباع کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔
پروانے کو چراغ تو بلبل کو پھول بس
صدیق کیلئے ہے خدا کا رسول بس
علامہ اقبال