ویلنٹائن ڈے کے اسلامی معاشرے پر اثرات  

 
کالم نگار: ڈاکٹر جمشید نظر
ویلنٹائن ڈے کا آغاز قدیم روم میں ہوا تھا جہاں اسے یومِ تولید یا بارآوری کے طور پر منایا جاتا تھااس دن کو منانے کے لیے عمر کی کوئی قید نہیں سمجھی جاتی تاہم نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اس میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں۔ویلنٹائن ڈے ایک عالمی دن نہ ہونے کے باوجوددنیا کے اٹھائیس ممالک میں باقاعدہ طور پر منایا جاتا ہے،یہ دن اقوام متحدہ یا اس کے ممبر ممالک کی منظوری یا اعلان پر نہیں منایا جاتا بلکہ یہ ان عاشقوں کی مرضی اورخواہش پر منایا جاتا ہے جو محبت کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں۔مغربی معاشرے میں ویلنٹائن ڈے کے موقع پرنوجوان لڑکے سرراہ اپنی گرل فرینڈز کومحبت کی دیوی کا پسندیدہ پھول’’گلاب‘‘ پیش کرکے اس سے اظہار محبت کرتے ہیں اور یہ یقین دلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ ہمیشہ اس سے سچی محبت کرتے رہیں گے۔ویلنٹائن ڈے کے موقع پر تحفے اور تحائف کا تبادلہ بھی کیا جاتا ہے لیکن گلاب کے پھول زیادہ پیش کئے جاتے ہیں۔ایک سروے کے مطابق دنیا بھر میں ویلنٹائن ڈے کے موقع پر تقریبا 50   ملین سے زیادہ گلاب کے پھول فروخت ہوتے ہیں اورایک ارب سے زائد ویلنٹائن کارڈ بھیجے جاتے ہیں۔اٹلی میں اس دن کو ’’میٹھا‘‘کہا جاتا ہے جبکہ جاپان میں ویلنٹائن ڈے کے موقع پر مٹھائی اور کپڑے دینے کا رواج ہے۔ دنیا میں ویلنٹائن کا پہلا کارڈ برٹش میوزیم میں رکھا گیا ہے۔
مغرب میں نوجوان ویلنٹائن ڈے یعنی محبت کے اظہار کا دن جس طرح مناتے ہیں اسے اسلامی معاشرے میں ایک غیر اخلاقی اور بے ہودہ روایت کہاجاتا ہے کیونکہ اس دن کو بھرپور انداز میں مناتے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اخلاقیات کی تمام حدیں عبور کرتے ہوئے بے حیائی کو فروغ دیتے نظر آتے ہیں۔امریکہ کی تیسری قدیم ترین ییل یونیورسٹی کی ایک تحقیقاتی رپورٹ بعنوان’’پوری دنیا میں شادی کے بغیر پیدا ہونے والے بچے‘‘کے مطابق دنیا کے بعض خطوں میں بغیر شادی کے پیدا ہونے والے بچوں کی تعداد کل بچوں کے70 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ امریکہ میں یہ تعداد40 فیصد جبکہ شمالی یورپ کے ممالک میں یہ شرح70فیصد تک چلی گئی ہے۔ایک مرتبہ امریکہ کے سابق صدر کلنٹن نے اپنے ایک خطاب میں بھی اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ امریکہ میں ناجائز بچوں کی بڑھتی ہوئی شرح ایک آفت،ایک تباہی ہے۔
محبت کے اظہار کے نام پرویلنٹائن ڈے کا تصور سننے اور کہنے کو بڑا بھلا اور سچی محبت بھرا لگتا ہے لیکن درحقیقت اس دن کی آڑ میں سب سے زیادہ بے حیائی ہوتی ہے جو اس بات کو ثابت کرتی کہ عاشقان جس سچی محبت کا ذکر کررہے ہیں دراصل وہ سچی نہیں بلکہ ہوس بھری ہے کیونکہ دنیا میں 75 فیصد سے زیادہ خودکشیوں کو اس ناخوشگوار محبت کی وجہ قرار دیا گیا ہے۔ امریکہ کے سکولوں میں بچوں کو  جنسی تعلیم بھی دی جاتی ہے اس کے باوجود وہاں ناجائز بچوں کی پیدائش کی ایک بڑی وجہ ویلنٹائن ڈے جیسے غیر اخلاقی تہوار ہیں۔ویلنٹائن ڈے کی روایت کو اب ایشیائی ممالک کے نوجوان بھی مغربی طرز پراپنا رہے ہیں جوکہ بڑی تشویش کی بات ہے۔ایک بین الاقوامی سروے کے مطابق محبت کایہ خاص تہوار نوجوان لڑکے،لڑکیاں اور غیر شادی شدہ افراد زیادہ جوش و خروش سے مناتے ہیں۔
ویلنٹائن کے حوالے سے بہت سی رومانوی داستانیں مشہور ہیں۔ ایک مشہور داستان کے مطابق قدیم روم میں ایک تہوار’’لوپر کالیا‘‘منایا جاتا تھااس دن کم عمر اور جواں سالہ لڑکیاں اپنے نام کی پرچیاں بوتلوں میں ڈال کر رکھ دیتی تھیں بعد میں لڑکے قرعہ اندازی کرتے،جس لڑکی کا نام قرعہ اندازی میں نکل آتا اسے اگلے لوپر کالیا تہوار تک اس لڑکے کے ساتھ جائز وناجائزتعلقات قائم کرنے کی آزادی ہوتی تھی اگرچہ ان رومانوی داستانوں کاکہیں بھی مستند حوالہ نہیں ملتا اس کے باوجود14 فروری کو ویلنٹائن ڈے بڑے جوش وخروش سے منایا جاتا ہے۔14فروری کو کمپیوٹر انجینئرکا عالمی دن بھی ہوتا ہے لیکن نوجوان کمپیوٹر انجینئر ڈے کو بھول کر ویلنٹائن ڈے منانا زیادہ پسند کرتے ہیں۔اسلام میں ویلنٹائن ڈے کو ایک ناپاک محبت کی غیر اسلامی روایت سمجھا جاتا ہے۔ایک لڑکا اپنی محبت کا یقین دلانے کے لئے کسی لڑکی کو گلاب کا پھول دینا توجائز سمجھتا ہے لیکن جب کوئی دوسرا لڑکا اس کی بہن کو گلاب کا پھول پیش کرتا ہے تو وہ اس کو غلط سمجھتا ہے۔اسلامی معاشرے میں رہنے والے نوجوانوں کو چاہیئے کہ دنیا اور آخرت میں سرخرو ہونے کے لئے اپنی زندگی اسلام کے اصولوں کے مطابق بسر کریں۔

ای پیپر دی نیشن