پرویز مشرف اور  واجد علی شاہ   کا کوچ 


بریدہ سَر ... ملک کاشف اعوان
خبر موبائیل فون کی سکرین پہ جگمگائی۔ سابق  صدر، جنرل (ر) پرویز مشرف دبئی میں انتقال کر گئے۔ اندروں خانہ دل کوئی ارتعاش نہ ہوا۔ ساکت و جامد، سپاٹ جذبات اَو کہیں سے تو کوئی جذبہ پھوٹ ہی نکلے۔ کوئی دکھ، کوئی افسوس، کوئی پرسہ اور اگر ایسا کچھ بھی نہیں تو کوئی کمینی سی خوشی ہی سہی پر وہ بھی نہیں۔ مکمل بلیک آؤٹ تھا۔ یہ اپنے اپنے دور کے مقبول ترین لیڈر مکمل بلیک آؤٹ میں ہی کیوں جاتے ہیں؟ سوال کا سہما سہما چہرہ دیکھا تو دل میں ہَول سے پڑنے لگے۔ اس کو بہلانے کے لیے کہیں اور نگاہ کی تو دور سے کہیں پرانی تان اڑتی سنائی دینے لگی…!
راجہ پَرجا مل مل رَووَن،
ہِل مل رووے سارا سَنسَار
ہے گیا پردیس کو راجہ،
چھوڑ اپنا گھر سنسار
آج کے ِ رجب سے بیسیوں سال پہلے کے ایک رجب کا قصّہ ہے۔ بہت ہی پہلے کے ایک 5 رجب کی بات ہے جب قمری اسلامی کیلنڈر سن 1272 ہجری کا سَن ظاہر کر رہا تھا۔ ہندوستان کے قرب و جوار میں ٹَڈی دِل کی طرح پھیلتے انگریز سامراج اسے 12 مارچ 1856 عیسوی بروز بدھ کا ایک خوشگوار دن گردانتے ہیں۔ اپنے عہد کے منفرد و فطین حکمران نواب واجد علی شاہ نے فقط اس لیے اپنی جنم بھومی سے منہ موڑ لیا کہ کہیں ان کی آبائی ریاست اَودھ اپنا نام و نشان نہ کھو دے۔ انگریز ایسٹ انڈیا کمپنی پورے ہندوستان کو ہڑپ کرتی اَودھ کے دروازے آ پہنچی تھی۔ لکھنئو کے اس لطیف نواب نے انگریزوں سے اپنی ریاست اَودھ کو بچانے کے لیے خود لکھنؤ چھوڑ دیا تاکہ گورا بدمعاش نواب کی سلطنت اَودھ کو اس کے پرانے نظم و نسق پر ہی بحال رکھیں۔انگریزوں سے اختلاف کے 34 دن کے بعد جب اَودھ کو بچانے کا کوئی اور حل نہ نکلا تو پھر ایک شام خاموشی کے ساتھ واجد علی شاہ لکھنؤ سے چلا گیا۔ پورا شہر مہینے بھر سے گویا سلگتا بارود بنا ہوا تھا اور لوگ 7 فروری سے ہی ایک واضح جدوجہد کی سمّت سفر اور آغازِ جنگ کے منتظر تھے مگر نواب نے اپنی ریاست کے باسیوں کو اس جنگ کا ایندھن نہ بننے دیا۔
عظیم مورخ کمال الدین حیدر لکھتے ہیں کہ جس شام واجد علی شاہ نے لکھنئو کو خیرباد کہا اس شام پورے لکھنئو کی حالت بلامبالغہ ایسی تھی گویا کاٹو تو جسم میں لہو نہیں۔ معلوم ہوتا تھا کہ ''جانِ عالم'' کے جاتے ہی لکھنئو کے جسم سے جان نکل گئی ہو اور اس بستی کا جسم بے جان ہو کر رہ گیا ہو۔ کوئی گلی، کوئی بازار، کوئی کوچہ، کوئی چوراہا، کوئی گھر اور کوئی کٹیا ایسی نہیں تھی جس نے ''جَانِ عالم'' کی جدائی میں تڑپ کر ماتم نہ کیا ہو۔ آسمان بھی یقیناً گواہی دے گا کہ اس شب لکھنئو کا کوئی گھر ایسا نہ تھا جہاں سے کرب کی فریاد نہ سنی گئی ہو۔اَودھ کے لوگ اس روح فرسا حقیقت سے بہت رنجیدہ و کبیدہ خاطر تھے کہ فرنگی آئے اور ملک پر قبضہ جما لیا۔ شاید اس سے بڑھ کر انہیں رنج اس بات سے تھا کہ ان کے نواب واجد علی شاہ کو اذیّت ناک حالت میں اپنا آبائی وطن چھوڑنا پڑا۔
"رَاجہ پَرجا مِل مِل رَووَن
ہل مل رَووے سارا سَنسار
ہے گیا پردیس کو راجہ
چھوڑ اپنا گھر سَنسَار"
ہم عصر شاعر 'شہید نوحہ خواں ہوئے!
لکھنؤ بے کَس ہوا حضرت جو لندن کو گئے
ہم یہاں نالن ہیں ،وہ فریادِ دشمن کو گئے
خود واجد علی شاہ کے لیے یہ سانحہ جان لیوا تھا۔ انہوں نے اس ہجر میں خود بہت سے گیت، نوحے اور اشعار لکھے اور لکھنئو کی تہذیب چھٹ جانے کا ماتم مسلسل بَپا رکھا… 
بابل مورا نیہڑ چھوٹو جائے۔
کہیں پہ فریادی رنگ اپنایا… !
اے کل کے مددگار! مدد کرنے کو آؤ، فریاد کو پہنچو!
تو کہیں پہ دعائیہ انداز اختیار کیا… !
سارے اب شہر سے ہوتا ہے یہ اختر رخصت
آگے بس اب نہیں کہنے کی ہے یارب مجھے فرصت
ہو نہ برباد میرے ملک کی خِلقت
در و دِیوار پر حسرت سے نظر کرتے ہیں
خوش رہو اہل وطن ہم تو سفر کرتے ہیں
آپ کو واجد علی شاہ کی رخصتی کا پورا منظر روشن تقی کی کتاب ''لکھنؤ 1857 ئلکھنؤ میں دو جنگیں۔ایک دور کی شام'' میں ملے گا۔یہ ایک ایسے بادشاہ کی رخصتی تھی جس نے اپنی جلاوطنی تو قبول کی مگر اپنی رعایا کو ایسی جنگ کا ایندھن بننے سے بچا لیا جس کا فیصلہ پہلے ہی لکھا جا چکا تھا۔ ایک ایسا آمر جو لوگوں کے دلوں میں بستا تھا۔اور ایک یہ ہمارے آمر کی رخصتی تھی جس نے اپنے لوگوں کو پرائی جنگ کا ایندھن بنا ڈالا۔ ایک ایسی رخصتی جس پر کوئی آنکھ اشکبار نہ تھی۔ میں اس موت پہ کیا تبصرہ کروں کہ میاں محمد بخش رحمتہ اللہ علیہ تمام پنجابیوں کو نصیحت کر گئے ہیں…
''پنجابی اینا سفاک نئیں ہویا
جے مرے بندے نال وَیر وَڈے''
مشرف صاحب رَوانہ ہوئے تو میرا ان سے مواخذہ کسی اور بات پہ نہ سہی، اپنی جنم بھومی کے حوالے سے اَنمٹ رہے گا جسے الفاظ ہماری دھرتی کے بیٹے نعمان فاروق نے دئیے ہیں اور میں انہی الفاظ کو بازگشت بنا کر پرسے کے اذکار میں لپیٹ کر اَجل کے فرشتے کے ہمراہ کر رہا ہوں  ''یہی وہ شخص تھا جس نے حکومتی مشینری کا استعمال کر کے کہون کی وادی کو سیمنٹ مافیا کے ہاتھوں میں دیا۔ اسی ملعون نے کٹاس راج کو تباہ کر کے جہاں ایک تہذیب کا خاتمہ کر دیا وہیں بھارت اور دنیا بھر کی ہندو برادری کو پاکستان سے نفرت کا ایک ٹھوس جواز بھی فراہم کیا۔ یہی وہ ملعون تھا جس کے حکم پہ وادی کے لوگوں پر صرف اس لیے دہشت گردی کے جھوٹے مقدمے بنائے گئے کیونکہ انکی زمینوں پر قبضہ کرنا تھا۔''
باقی کے معاملات خالق و تخلیق کے سپرد مگر میرے سوکھے چشمے اور ترستے پکھو اِک دیوارِ گریہ پہ کھڑے بَین کر رہے ہیں...
دشمن مرے تے خوشی نہ کرئیے !

ای پیپر دی نیشن