معراج النبی کی روشنی
بابو عمران قریشی
imran.tanveer@hotmail.com
سورہ بنی اسرائیل کا آغاز اس آیت مبارکہ سے ہوتا ہے۔"پاک ہے وہ ذات جو لے گیا ایک رات اپنے بندے کو مسجد حرام سے دور کی اس مسجد تک جس کے ماحول کو اس نے برکت دی ہے تاکہ اْسے اپنی کچھ نشانیوں کا مشاہدہ کرائے "ارشاد باری تعالیٰ کی ابتدا سبحان الذی اسراسے ہونا صاف ظاہر کر رہا ہے کہ بیان کرنے والا واقعہ غیر معمولی ہے ، یہاں یہ بتانا ضروری سمجھا گیا کہ جس پاک ذات اللہ نے اپنے جلیل القدر بندے کو یہ جسمانی سفر کرایا وہ تمام کمزوریوںاور نقائص سے پاک ہے۔اگر یہ سفر خواب میںیا کشف میں کرایا جاتا تو اسے بیان کرنے کے لئے اس تمہید کی ضرورت پیش نہ آتی۔درحقیقت یہ ایک روحانی تجربہ نہ تھا بلکہ ایک جسمانی سفر اور عینی مشاہدہ تھا جو اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضور اکرم ؐکو کرایا اور اس کا ذکر اپنی مقدس کتاب میں فرمایا۔یہ واقعہ اصطلا حاً معراج اور اسرائ کے نام سے مشہور ہے۔اسراء سے مراد زمینی سفر ہے یعنی رات کے ایک حصہ میں رسول اللہ? کا مسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ تک براق پر تشریف لے جانا پھر بیت المقدس سے سدرۃ المنتہیٰ تک کا عروج کرنا یا سفر کرنا معراج کہلاتا ہے۔علماء کرام کے آٹھ اقوال میں یہ رجحان ہے کہ حضرت خدیجۃ الکبرٰی کے بعد اور بیعت عقبہ سے پہلے معراج ہوئی۔یہ تاریخ سے ثابت ہے کہ حضرت خدیجۃ الکبرٰی کا وصال پنجگانہ نماز فرض ہونے سے پہلے ہوا تھا۔اس پر علماء کرام کا اتفاق ہے کہ معراج کا واقعہ نبوت میں طائف کے تبلیغی سفر کے بعد پیش آیااور ابن خلدون نے اپنی تاریخ میں اسی کی تصدیق کی ہے۔مئورخین اور سیرت نگاروں کا رجحان زیادہ تر ماہ رجب کی 27ویں رات اور نبوت کے بارہویں سال کی طرف ہے (واللہ اعلم با ثواب )
حضرت ابراہیم ؑنے عرض کیا اے پروردگار عالم مجھے یقین ہے کہ ہم مرنے کے بعد جی اْٹھیں گے لیکن دل کے اطمینان کیلئے نشانی دیکھنا چاہتا ہوں۔اللہ تعالیٰ کے حکم سے بوٹیوں اور پروں نے پرندوں کی شکل اختیار کرلی اور فضا میں اْڑ گئے۔حضرت موسیٰ ؑ کو کوہ طور پر جلوہ ربانی دکھایا گیا اور حضرت عیسیٰ ؑ نے پوری رات پہاڑی پر گزار کر پہاڑی کا خطبہ ارشاد فرمایا جو ان کی معراج تھی اور آخر میں نبی آخر الزمان ؐکو جسمانی معراج کرایا گیا جس نے فکر انسانی کو ایک نیا موڑ عطا کیا۔وحی،براق،اسرائ،معراج ،جنت اور دوزخ جنہیں اس وقت کے لوگ ناقابل فہم سمجھتے تھے ان کو حضرت ابو بکر صدیقؓ جیسی بالغ النظرشخصیت نے بغیر حضورؐ سے دریافت کئے تصدیق کر کے صدیق کا لقب پا لیا تھا۔قرآن کریم کے علاوہ حدیث مبارکہ میں بھی معراج کا ذکر تفصیل سے موجود ہے۔معراج کی غرض و غایت قرآن کریم یہ بیان کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نبی پاکؐ کو اپنی آیات دکھانا چاہتا تھاجبکہ حدیث مبارکہ میں واقعہ معراج کی تفصیل بتائی گئی ہے۔
اس محیر العقول واقعہ کو 28صحابہ کرام نے بیان فرمایا ہے جن میں سے سات راوی وہ ہیں جومعراج کے وقت مسلمان تھے۔انہوں نے اس واقعہ کی تفصیل آپ ؐ سے خود سْنی۔حضرت مالک بن صحصہ اور حضرت ابو ذر غفاری نے یہ تصریح فرمائی ہے کہ انہوں نے معراج کے واقعہ کو لفظ بلفظ حضور اکرمؐ کی زبان مبارک سے خود سْنا تھا۔واقعہ معراج کی تفصیلات مذکورہ صحابہ کرام کے علاوہ دوسرے مقتدر صحابہ کرام سے بھی مروی ہیں لیکن مفصل ترین روایات انہی سے مروی ہیں اور ان کے ساتھ ساتھ حضرت انس بن مالک اور حضرت ابو ہریرہ جیسے اوللعزم صحابہ کرام بھی ان میں شامل ہیں۔واقعہ معراج کے بعض اقزاء کے بارے میں بیان کرنے والوں میں حضرت عمر فاروق ۔حضرت علی ۔حضرت عبد اللہ بن مسعود ۔حضرت عبد اللہ بن عباس حضرت ابو سعید خذری ۔حضرت حذیفہ بن یمان اور حضرت عائشہ صدیقہ شامل ہیں۔جب یہ کہا جائے کہ یہ کام خود اللہ نے کیا ہے تو اس کے بارے میں کسی قسم کی بحث کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔معراج کا واقعہ بھی اسی نوعیت کا ہے جس کے بیان کے شروع کرنے میں پہلے ہی بتا دیا گیا ہے کہ وہ ذات اللہ تعالیٰ پاک ہے جو اپنے مقبول بندے حضورؐکو مسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ تک لے کر گیا۔چنانچہ منکرین حدیث کی طرف سے کئے گئے اعتراضات کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔اسراء اور معراج کے واقعہ کی تفصیلات یْوں بیان کی گئی ہیں کہ جاروز نامی جنتی براق پر آپ ؐ مکہ معظمہ سے بیت المقدس پہنچے۔بیت اللحم میں آپ ؐنے نماز ادا کی۔اور پھر مسجد اقصیٰ پہنچ کر آپ ؐ براق سے اْترے۔فرشتوں نے السلام علیک یا رسول اللہ۔یا اوّل یا آخر یا حاشر کہہ کر آپؐ کا استقبال کیا۔ہیکل سلیمانی میں انبیاء و رسل نے آپؐ کی اقتدا میں نماز ادا کی۔بعد میں تعارف ہوا اور حضرت ابراہیم نے سب انبیاء کرام کی طرف سے نمائندگی کرتے ہوئے کہا "آپؐ تمام انبیاء سے افضل ہیں ". اس کے بعد دودھ کا پیالہ پسند فرما کر آپؐ نے گویا فطرت کو پسند کرنے کی تصدیق کر دی اور شراب کی نفی کر دی۔حضرت جبرائیل کے ہمراہ مقام صخرا سے آسمانوں کی طرف عروج کیا جسے معراج کہتے ہیں۔اس سفر میں حضرت جبرائیل آپ ؐکے ہم سفر رہے لیکن مقام سدرۃ المنتہیٰ پر رک گئے اور حضورؐ اکیلے آگے بڑھے۔سدرۃ المنتہٰی عالم خلق اور رب السمٰوٰت وا لا رض کے دمیان حد فاصل ہے۔یہاں تمام خلائق کا علم ختم ہو جاتا ہے۔اس سے آگے عالم غیب ہے جس کا علم نہ کسی مقرب فرشتے کو ہے اور نہ کسی رسول کو۔مقام محمود کے مالک حضوری حق سے سرفراز ہوئے۔معراج کا تحفہ پانچ فرض نمازوں کی صورت میں عطا ہوا۔جن کا ثواب پچاس نمازوں کے برابر ہو گا۔سورئہ بقرہ کی آخری دو آیات بغیر واسطے کے عطا ہوئیں۔شرک کے سوا تمام گناہوں کے بخشے جانے کا امکان ہوا۔یہ گرانقدر تحائف بھی اللہ کے حبیب کوعطا کئے گئے۔جس نے نیکی کا ارادہ کیا اور اس پر عمل نہیں کیا اس کے لئے ایک نیکی لکھی جائے گی اگر عمل کیا تو دس نیکیوں کا ثواب ملے گا۔جس نے برائی کا ارادہ کیا اور عمل نہیں کیا تو نامہ اعمال میں کچھ نہیں لکھا جائے گا عمل کرے گا تو صرف ایک گناہ لکھا جائے گا۔واپسی پر پہلے آپؐ بیت المقدس پہنچے اور پھر وہاں سے مکہ معظمہ کے سفر کیلئے روانہ ہوئے۔راستہ میں چند قافلوں کے اوپر سے گزر ہوا۔حضورؐنے جبریل سے پوچھاکہ کیا قریش مکہ میرے معراج پر جانے کے واقعہ کو مان لیں گے تو حضرت جبریل نے عرض کیا یا رسول اللہؐ ! سب سے پہلے ابو بکر بن قحافہ اس واقعہ کی تصدیق کریں گے۔چنانچہ جب آپ واپس پہنچے، واقعہ کی تفصیل سنائی تو ابو جہل کو حضورؐکے خلاف محاذ آرائی کا موقع مل گیااور پھر وہ سب سے پہلے حضرت ابو بکرؓ ہی نے آگے بڑھ کر اس واقعہ کی تصدیق کردی اورن صدیق کا لقب پایا۔