واقعہ معراج ایک عظیم معجزہ

Feb 18, 2023

علامہ منیر احمد یوسفی …


معراج النبی  ﷺ اور مشاہدات
علامہ منیر احمد یوسفی
  واقعہء معراج  دین اسلام کا عظیم ترین باب ہے معراج عروج سے نکلا ہے جس کے معنی اُوپر چڑھنا کے ہیں۔ چونکہ اَحادیث مبارکہ میں آپ  ؐ سے عُرِجَ لِیْ  مجھ کو اوپر چڑھایا گیا‘ مروی ہے۔ اِس لئے اِس کا نام معراج ہے۔ قرآنِ مجید فرقانِ حمید میں فرمان ربانی ہے۔ سُبْحَانَ الَّذِیْ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلًا  ’’یعنی پاک ہے وہ ذات جو اپنے (محبوب) بندے (حضرت محمد مصطفی  ﷺ) کو لے گیا‘‘۔ اس آیتِ مبارکہ میں تین کلمات قابلِ توجہ ہیں (۱)اَسْرٰی  (۲)عَبْدِہٖ  اور (۳)لَیْلًا۔  اَسْرٰی رات کو لے جانا اور  لَیْلًا  سے مراد رات ہی کو ہے۔  لَیْلًا  کا لفظ دو زبر کی وجہ رات کی قلت کو بیان کرتا ہے یعنی رات کے تھوڑے حصّے میں یعنی راتوں رات۔ اِس سیر کے کرانے کا دعویٰ ربِّ ذوالجلال والاکرام کا ہے۔ چونکہ سفر محیر العقول ہے اِس لئے رَبِّ کائنات نے پہلے اپنی تسبیح بیان فرما دی تاکہ پڑھنے‘ سننے والے کے دِل میں یہ بات اُتر جائے کہ جس ذاتِ برحق نے سیر کرائی ہے وہ ہر قسم کی کمزوری‘ خامی اور نقص سے پاک ہے۔  اگر معراج شریف کا واقعہ روح کی سیر یا خواب کا واقعہ ہوتا یعنی رسولِ کریمؐ فرماتے کہ اللہ (تبارک وتعالیٰ جل مجدہُ الکریم) نے میری روح کو سیر کرائی ہے یا مجھے خواب میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ کی طرف اور پھر آسمانوں کی سیر کرائی اور رات کے کچھ میں سب کچھ رونما ہوا تو کوئی شخص بھی اِنکار نہ کرتا۔ دعویٰ بیداری کی حالت میں سیر کرانے کا ہے۔ اِس لئے عظمت رَبِّ ذوالجلال والاکرام اور مقام مصطفی ؐکے منکروں نے جھگڑا کھڑا کر دیا۔ لیکن قدرت کا کمال دیکھئے کہ اگر ایک طرف منکرین‘ اِنکار پر مصر ہیں تو دوسری طرف نبی کریم رؤف ورحیمؐ کے محسن حضرت سیّدنا صدیق اکبر ؓواقعہ کی تصدیق کر رہے اور فرما رہے کہ میں تو اِس سے بھی بڑی باتوں کی تصدیق کرتا ہوں اور اللہ رب العزت کی طرف سے لقب ’’صدیق‘‘ حاصل کر رہے ہیں۔مقام غور ہے‘ رَبِّ ذوالجلال والاکرام نے اپنی کتاب لاریب کی سورۃ النمل میں حضرت سیّدنا سلیمانؑ کے ایک اُمّتی کا واقعہ بیان فرمایا ہے جس نے آنکھ جھپکنے سے پہلے ۳۰۰۰ (تین ہزار میل) یعنی چار ہزار پانچ کلو میٹر کا سفر طے کر کے ملکہ بلقیس کا تخت حضرت سلیمانؑ کی خدمت میں حاضر کر دیا۔
جب خالقِ کائنات کے عظیم بندوں کا یہ کمال ہے جو ربِّ ذوالجلال والاکرام کی دی ہوئی طاقت اور فضل سے اِتنا لمبا سفر آنکھ جھپکنے میں طے کر سکتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ تو تمام اور لا محدود طاقتوں کا مالک ہے اُس نے رات کے کچھ حصّے میں اِتنا لمبا سفر طے کروا دیا کہ عقل اِنسانی حیرت میں مبتلا ہے۔ رَبِّ ذوالجلال والاکرام نے آنکھوں سے سب پردے ہٹا دئیے‘ دنیاوی قوانین منسوخ فرما دئیے مکان و زمان کی تمام فرضی  قیود کیو مٹا دیا اور آسمان و زمین کے مخفی مناظر بے حجابانہ آپ ؐکے سامنے آجاتے ہیں۔
 حضرت انسؓ سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں‘ رسولِ کریم رؤف ورحیم ؐنے فرمایا کہ معراج کی رات جب میں حضرت موسیٰؑ کی قبر (منور) سے گزرا تو میں نے  موسیٰ ؑ کو قبر (اَنور) میں نماز پڑھتے دیکھا 
آپ  اِس سفر معراج کیا کچھ ملاحظہ فرمایا چند واقعات بطور عبرت و درس قارئین کرام کی نذر کئے جاتے ہیں۔
زبانیں اور ہونٹ کاٹنے والے:
 حضرت ابوہریرہ اور حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ سرکارِ مدینہ ؐ نے ایک جماعت کو ملاحظہ فرمایا جن کی زبانیں اور ہونٹ لوہے کی قینچیوں سے کاٹے جا رہے ہیں (اور عجیب بات تو یہ ہے کہ) اُدھر کٹ رہے ہیں پھر اُسی وقت دوبارہ صحیح ہو جاتے ہیں پھر کٹتے ہیں پھر صحیح ہو جاتے ہیں۔ اِسی طرح برابر یہ سلسلہ جاری ہے۔ پوچھا یہ کون لوگ ہیں جن کی زبانیں اور ہونٹ کاٹے جا رہے ہیں؟  عرض کیا گیا یہ وہ فتنہ پرور واعظیں‘ مدرسین اور مقررین ہیں ( جو کہتے کچھ تھے کرتے کچھ تھے)۔  
 سودخوروں کا اَنجام:
 حضرت ابوسعید خدری ؓسے روایت ہے ‘ فرماتے ہیں ‘ رسول اللہ ؐنے فرمایا کہ میں نے کچھ لوگوں کو دیکھا جن کے پیٹ بڑے بڑے گھڑوں جیسے ہیں۔ جب وہ اُٹھنا چاہتے ہیں تو گر پڑتے ہیں اور مسلسل یہ کہہ رہے ہیں کہ اے اللہ جل جلالک قیامت قائم نہ ہو۔ یہ لوگ فرعونی جانوروں سے روندے جاتے ہیں اور بارگاہِ ربِّ ذوالجلال والاکرام میں آہ و زاری کر رہے ہیں۔ میں نے (حضرت) جبرائیلؑ سے پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟ اُنہوں نے عرض کیا‘ یا رسول اللہؐ یہ سود خور لوگ ہیں اور سودخور اُن لوگوں کی طرح ہی کھڑے ہوں گے جنہیں شیطان نے پاگل بنا رکھا ہے۔
اُلٹی لٹکی ہوئی عورتیں:
نبی مکرم ؐفرماتے ہیں کہ کچھ دُور چلا تو کیا دیکھتا ہوں کہ کچھ عورتیں سینوں سے بندھی اُلٹی لٹکی ہوئی ہیں‘ ہائے وائے کر رہی ہیں۔ میں نے پوچھا یہ کون عورتیں ہیں؟ تو بتایا گیا یہ بدکار عورتیں ہیں (اور اپنی اَولاد کو قتل کرتی تھیں)۔
غیبت کرنے والے:
 پیارے کریم آقاؐفرماتے ہیں‘ میں نے کچھ لوگ دیکھے جن کے پہلوئوں سے گوشت کاٹ کاٹ کر فرشتے اُنہیں کھلا رہے ہیں اور کہتے جاتے ہیں کہ جس طرح دُنیا میں تم نے اپنے (مردہ) بھائیوں کا گوشت کھایا اِسی طرح اَب یہ گوشت بھی کھائو۔ رسول اللہ ؐ کو بتایا گیایہ عیب جو اور آوازیں کسنے والے لوگ ہیں۔
 آبرو  ریزی کرنے والے:
 حضرت انس ؓسے روایت ہے ‘ فرماتے ہیں‘ نبی کریم ؐ نے فرمایا جب مجھے میرے اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف عروج دیا گیا تو میں ایک قوم کے پاس سے گزرا جن کے ناخن نحاس یعنی تانبے کے تھے وہ اُن ناخنوں سے اپنے سینوں اور چہروں کو خراش رہے تھے۔ میں نے پوچھا! اے جبرائیل (علیک السلام)‘ یہ کون لوگ ہیں؟  جبرائیل ؑنے عرض کیا‘ یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کی آبرو ریزی کرنے اور غیبت کے در پے رہتے تھے۔
 یتیم کا مال کھانے والے:
 حضرت ابوسعید خدریؓسے روایت ہے‘ فرماتے ہیں‘ حضور  ؐنے فرمایا: میں نے کچھ قومیں دیکھیں جن کے ہونٹ مثل اُونٹ کے ہیں اور اُن کے منہ کھولے جاتے ہیں اور بدبودار گوشت اُن کے منہ میں ڈالا جاتا ہے اور پاخانے کے راستے سے نکل جاتا ہے وہ چیخ و پکار کر رہے ہیں۔ میں نے سنا وہ اللہ تبارک و تعالیٰ سے چیخ کر فریاد کرتے ہیں۔ جبرائیلؑ سے پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟ عرض کیا یا رسول اللہ ؐیہ وہ لوگ ہیں جو یتیموں کا مال ظلم سے کھاتے تھے (اور اپنے مال سے صدقہ نہ دیتے تھے) اب یہ آگ کھاتے ہیں اور عنقریب دوزخ میں پہنچیں گے۔
بے نمازی کا حشر:
 حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے‘ فرماتے ہیں‘ حضورؐکا گزر ایک اَیسی قوم پر ہوا۔ جن کے سر پتھروں سے کچلے جا رہے تھے۔ بار بار کچلے جاتے پھر صحیح ہو جاتے تھے۔ اِسی طرح بار بار ہو رہا تھا سر کچلے جاتے تھے‘ ٹھیک ہو جاتے تھے۔ ایک پل کے لئے بھی اُنہیں مہلت نہ دی جاتی تھی۔ سرکار کائنات  ؐ فرماتے ہیں، یہ وہ لو گ تھے جو نمازیں نہیں پڑھا کرتے تھے۔اسی طرح زکوٰۃ نہ دینے والوں کو دیکھا جو اُونٹوں اور جنگلی جانوروں کی طرح کانٹوں والے جہنمی درخت کھا رہے ہیں۔ جہنم کے پتھر اور اَنگارے نگل رہے ہیں۔
پتھرکے سوراخ سے بیل کا نکلنا:
حبیب کبریا‘ محبوبِ کائنات ؐ نے دیکھا کہ ایک بہت بھاری بھر کم قوی ہیکل بیل ایک پتھر کے چھوٹے سے سوراخ سے نکل رہا ہے‘ جب باہر آ جاتا ہے پھر اُسی سوراخ میں گھسنے کی کوشش کرتا ہے مگر ناکام رہتا ہے ۔یہ اُس شخص کی مثال تھی جو منہ سے بڑی بات نکالتا تھا پھر خود ہی نادم ہو جاتا تھا اور چاہتا تھا کہ میری بات واپس لوٹ آئے لیکن اَیسا نہیں ہوتا۔
علاوہ ازیںآپ ؐ  نے بڑے حسین منظر بھی دیکھے جنت اور دوزخ کو بھی ملاحظہ فرمایا۔ایک قوم کو دیکھا جو ایک روز کھیتی بوتی ہے اور دوسرے دن کھیتی کاٹتی ہے جونہی کاٹ کر فارغ ہوتی ہے تونئی کھیتی بڑھ جاتی ،آپ ؐ سے عرض کیا گیایا حبیب اللہ ؐیہ اللہ جل شانہٗ کی راہ میں جہاد کرنے والے ہیں جن کی نیکیاں ختم ہی نہیں ہوتیں۔ سات سات سو گنا تک بڑھتی ہیں اور جو خرچ کریں اُس کا بدلہ پاتے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس ؓسے مروی ہے کہ حضورؐ فرماتے ہیں ایک مقام سے مجھے نہایت ہی اعلیٰ خوشبو کی مہک آنے لگی۔ میں نے کہا یہ کیسی خوشبو ہے؟  جواب ملا کہ فرعون کی بیٹی کی کنگھی کرنے والی (خادمہ) اور اُس کی اَولاد (کے محل) کی ہے۔ درحقیقت یہ خادمہ فرعون کے ظلم وستم کے سامنے جھکنے کے بجائے  اللہ کی وحدانیت کا اقرار کرتی رہی۔
حضرت عبداللہ بن عباس ؓسے روایت ہے‘ اِس کو حضرت اِمام احمد بن حنبلؒ نے روایت کیا کہ سرکارِ کائنات ؐنے فرمایا جب میں جنت میں داخل ہوا تو میں نے وہاں (حضرت) بلالؓ کے پائوں کی آواز کو سنا۔ (حضرت) جبرائیل ؑ سے پوچھا تو اُنہوں نے عرض کیا یہ آپ کے مؤذن (حضرت) بلال ؓہیں۔ جب رسولِ کریم رؤف ورحیمؐ واپس تشریف لائے تو فرمایا کہ فلاح پائی (حضرت) بلالؓ نے اور حضرت سیّدنا بلال سے پوچھا اے بلالؓ ہم نے جنت میں تیرے پیروں کی پاچوں کی آواز سنی ہے تو کیا عمل کرتا ہے؟ عرض کیا‘ یا رسول اللہؐمیرے ماں باپ آپؐ پر قربان ہو جائیں مجھے تو کوئی بات معلوم نہیں۔ سوائے اِس کے کہ جب بھی میں نے وضو کیا تو دو رکعت نماز تحیتہ الوضو پڑھی (سوائے مکروہ اوقات کے)۔
جنت کی حسین وادی:
 حضرت ابوہریرہؓ ے روایت ہے کہ رئوف و رحیم آقا ؐایک وادی میں پہنچے جہاں نہایت نفیس‘ معطر‘ خوشگوار ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی اور نہایت راحت و سکون کی مبارک آوازیں آ رہی تھیں آپ ؐنے سن کر فرمایا جبرائیل ؑ یہ کیسی خوشگوار‘ معطر‘ مبارک‘ راحت و سکون والی آوازیں ہیں۔ عرض کیا اے محبوب کائنات  صلی اللہ علیک وسلم یہ جنت کی آوازیں ہیں‘ وہ کہہ رہی ہیں کہ اے بار الٰہ میرے ساتھ تو نے جو وعدہ کیا تھا وہ پورا فرما۔ میرے بالا خانے موتی‘ مونگے‘ سونا‘ چاندی‘ جام‘ کٹورے‘  شہد‘ پانی‘ دودھ‘ شراب طہور وغیرہ وغیرہ نعمتیں بہت زیادہ ہو گئی ہیں۔ اسے رب کائنات کی طرف سے جواب ملا کہ ہر ایک وہ مسلمان جو مجھے اور میرے انبیاؑ کو مانتا ہے اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا  وہ سب تجھ میں داخل کئے جائیں گے۔پھر فرمایا اے جنت سن جس کے دل میں میرا خوف ہے وہ ہر خوف و خطر سے محفوظ ہے۔ مجھ سے سوال کرنے والا محروم نہیں رہتا۔ مجھے قرض دینے والا بدلہ پاتا ہے جو میرے اوپر بھروسہ کرتا ہے اسے خوب عطا فرماتا ہوں۔ کفالت کرتا ہوں ‘ میں سچا معبود واحد ہوں میرے سوا کوئی اور عبادت کے لائق نہیں۔
دوزخ کی خوفناک وادی:
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے‘ کہ سید کونین  ؐ نے ایک اور وادی دیکھی جہاں سے نہایت بھیانک اور خوفناک آوازیں  اور سخت بدبو آ رہی تھی۔ آپ ؐ نے اس کے بارے میں (حضرت) جبرائیلؑ سے پوچھا اُنہوں نے عرض کیا یا رسول اللہؐ یہ جہنم کی آواز ہے جو یہ کہہ رہی ہے مجھے وہ دے جس کا تو نے مجھ سے وعدہ کیا تھا۔ میرے طوق و زنجیریں‘ میرے شعلے‘ تھوہر لہو او رپیپ‘ میرے عذاب اور سزا کے سامان بہت وافر ہو گئے ہیں۔ حضرت ابوسعید خدریؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے فرمایا ابھی میں براق پر سوار ہو کر چلا ہی تھا تو مجھے کسی پکارنے والے نے دائیں طرف سے پکاراآپؐ فرماتے ہیں‘ نہ میں نے جواب دیا نہ ہی میں ٹھہرا۔ پھر جب تھوڑا آگے بڑھا تو بائیں طرف سے کسی پکارنے والے نے اِسی طرح پکارا: ’’اے محمدؐ میری طرف دیکھئے میں کچھ پوچھنا چاہتا ہوں‘‘۔ سرکار کائنات ؐ فرماتے ہیں نہ میں نے اُس کی طرف دیکھا اور نہ میں ٹھہرا۔ پھر کچھ آگے گیا تو ایک عورت دُنیا بھر کی زینت کئے ہوئے بازو کھولے کھڑی ہے۔ اُس نے مجھے اِسی طرح آواز دی لیکن میں نے نہ تو اس کی طرف توجہ فرمائی اور نہ ہی وہاں ٹھہرا۔ جب بیت المقدس پہنچ کر آپ ؐمتفکر تھے ، عرض کیا گیا  یا رسول اللہ پہلا شخص تو یہودی تھا ، دوسرا نصرانیوں کا دعوت دینے والا تھا۔ اور وہ عورت دُنیا تھی اگر آپ ؐجواب دیتے یا وہاں ٹھہرتے تو آپؐکی اُمّت دُنیا کو آخرت پر ترجیح دے کر گمراہ ہو جاتی۔ اللہ اکبر!

مزیدخبریں