فرینٹیر کور کے جوانوں کی کمان کا اپنا ہے مزا ہے۔ اسی دوران ہم نے 23 مارچ پریڈ میں فرینٹیر کور Contigent کے ساتھ حصہ لیا جسکی کمان لیفٹیننٹ کرنل اسد،11 کیولری کر رہے تھے۔ انھیں ایام میں سگریٹ نوشی سے آہستہ آہستہ بیزاری ہونے لگی۔ والد صاحب بھی کوئی خاص خوش نہ رہتے تھے۔ پریڈ کے اختتام پر ایک اتوار صدر راولپنڈی سے مطالعہ کے لئے کچھ پرانے رسائل اور کتابیں خریدیں۔
محمد گٹ واپسی پر ایک Reader'sDigest کے سرورق پر " HowToQuit Smoking" دیکھا تو پڑھنے کا اشتیاق ہوا۔ عمدہ اور معلوماتی تحریر تھی۔ ذیل میں چند قابل عمل نقاط تھے۔ 1۔ سگرٹ نوشی خوشحالی کے بجائے دگر گوں حالات میں ترک کریں۔ اگر پہلے ہی ٹینشن ہے تو پھر کچھ اضافہ ہو گیا تو کیا فرق پڑتا ہے۔2۔
سگریٹ یکمشت ترق کریں، بتدریج چھوڑنا ممکن نہیں۔
3۔ پہلے چوبیس گھنٹے بہت مشکل ہونگے۔ شاید رت جگراتا بھی کرنا پڑے۔ بس ثابت قدم رہیں۔
4 ۔پہلے دو دن کے بعد طلب بتدریج کم ہو گی۔ دن میں ایک آدھ بار طلب محسوس ہو گی۔ ایک ہفتہ بعد ایک آدھ دن یاد آئے گی۔ لیکن سگریٹ نوشوں سے دور رہیں۔ دھوئیں کا قرب ہوتے ہی زیادہ شدت سے طلب محسوس ہو گی۔
5 ۔چائے، مرغن اور مرچوں والے کھانے سے پرہیز کریں، یہ طلب کو دو آتشہ کر دیتے ہیں۔ کچی سبزیات، سلاد اور پھل کھانے پر زور دیں۔
6۔ جسمانی مشقت، ورزش اور دوڑ پر زور دیں۔ اس سے جسم میں شامل نیکوٹین کے جلد انخلاء میں مدد ملے گی اور سگریٹ کی طلب کم ہو گی۔
7 ۔ ایک مرتبہ چھوڑنے کی ہر گز دوبارہ ہاتھ تک نہ لگائیں ورنہ ساری محنت ضائع جائے گی۔
ان تجاویز کہ روشنی میں ہم نے سگریٹ ترک کرنے کا مصمم ارادہ کر لیا اور مناسب وقت کا انتظار کرنے لگے۔ ہماری ذمہ داری کے علاقے میں افغان سرحد کے عین اوپر NawaPass پر ایک کمپنی تعینات تھی۔ جسکی کمان کے لیے افسران کی پندرہ روزہ ڈیوٹی لگتی تھی۔ ہماری اگلی باری پر ہم نے اس لعنت سے چھٹکارا پانے کا ارادہ کر لیا۔ ناوا پاس پر دوسرے یا تیسرے دن ہم نے جذبات میں فیصلہ کن گھڑی کا انتخاب کر لیا اور اپنے پندرہ روزہ گولڈ لیف کے ذخیرے کو توڑ مروڑ کر افغانستان کی جانب گہری کھائی میں اچھال دیا۔ دن تو خیر جیسے تیسے گزر ہی گیا لیکن پہاڑ جیسی رات گزارنی ناممکن تھی۔ رات کے پچھلے پہر ہمت جواب دے گئی۔ سوچا ٹوٹی ہوئی ڈبیوں میں شاید کچھ مل ہی جائے۔ چنانچہ کمبل لپیٹ کر "ٹوٹے کی تلاش" میں زیر زمین بنکر سے جونہی سر نکالا تو قریب ہی تعینات مستعد سنتری نے اونچی پشتو میں للکارا۔ کچھ جواب نہ بن پا کر اس کو تعارف کے بعد سمجھانے کی کوشش کی کہ ہوا خوری کے لیے باہر نکلے ہیں لیکن وہ فرض شناس ساتھ ہی ہو لیا۔ چند قدم دور جا کر ٹارچ کے ذریعے کھائی میں گرائے ٹوٹوں کی تلاش کی لیکن راکھ کے ڈھیر میں شعلہ تھا نہ چنگاری۔ چنانچہ بے مراد ریڈر ڈائجسٹ کے لکھاری کو کوستے ہوئے واپس بنکر میں بنے بستر پر دراز ہو گئے ، نجانے کب آنکھ لگ گئی۔
صبح بیدار ہوئے تو سگریٹ کے بنا طبیعت مکدر تھی۔ البتہ عرصہ دراز بعد ناشتہ کرنے کو جی کیا۔ تیار ہو کر بنکر سے باہر آیے تو NawaPass برف کی سفید چادر اوڑھ چکا تھا۔ دوپہرکو ناوا پاس کی برف دیکھنے پشاور سے ایک ٹولی آئی جس میں چند چرب زبان حسینائیں بھی شامل تھیں۔ انھیں دیکھتے ہی نوجوان کپتان کا شوخی میں آنا تو لازم تھا۔ انھیں افغانستان، DurandLine اور سامنے بہتے دریائے کنر کی بریفننگ دیتے ہوئے یہ یاد ہی نہ رھا کہ سگریٹ ترک کیے پہلا دن ہے اور توازن میں مشکلات ہیں۔ اوسان اس وقت بحال ہوئے جب برف پر پھسلنے کے بعد زمین بوس ہوئے اور مہ لقائوں کے جلترنگی قہقہے ہمارے کانوں میں گونج رہے تھے۔ مشکل سے پاؤں پر کھڑے ہونے کے بعد مہمانوں کو بادل نخواستہ رخصت کیا اور بنکر کو چل دیئے۔ بعد از ترک سگریٹ نوشی، زندگی رواں رہی سوائے اس کے کہ بھوک زیادہ لگنے لگی اور وزن کچھ بڑھ گیا۔ کچھ دن بعد جب گھر چھٹی گئے تو اس امید کے ساتھ کہ اب اپنی شرط پوری ہونے پر والد صاحب شادی کی بات چلائیں گے، با آواز بلند اعلان کیا کہ سگریٹ چھوڑ دیئے ہیں۔ لیکن کسی کے کان پے جوں تک نہ رینگی۔ اور اگلے پانچ سال آزمانے کے بعد پھر گھر والے شادی پر رضامندی ہوئے حالانکہ ہونٹ تو عرصہ سے اپنی رنگت پر واپس آ چکے تھے۔
………………… (ختم شد)