یکم مارچ تک نئی حکومت کی تشکیل

الیکشن نتائج سامنے آئے ایک ہفتہ گزر چکا ھے لیکن مہنگائی کی دلدل میں ڈوبی پاکستانی قوم ، میڈیا کی ’’ بین ‘‘ پر مست ھو کر ملک کو درپیش مسائل فراموش کر کے ابھی تک دن رات اسی فکر میں مگن ھے کہ حکومت کون بنا رہا ھے ؟ آزاد امیدوار کدھر جا رھے ھیں ، جب تک یہ قوم اس سیاسی الاپ سے باہر نکل کر اپنے حالات کی طرف توجہ نہیں دے گی ، اس کی تقدیر سْدھرتی دکھائی نہیں دیتی۔ انہیں ذرا احساس نہیں ہو رہا کہ حکومتی اقتدار کے چاہے جو بھی مزے لے رہا ھو اگلے دو سال تک مہنگائی کا عذاب ختم ھونے کا کوئی امکان نہیں ہے۔
  آٹا ، چینی ، بجلی ، گیس ، پٹرول جیسی بنیادی ضرورتیں اب عوامی قوت خرید سے باہر ہو چکی ہیں۔ تعلیم اور علاج معالجہ عام آدمی کی پہنچ سے بہت دور جا چکا ہے۔ کسی بھی حکومت کا بنیادی فرض ہوتا ہے اپنے ملک کے عوام کے لیے روزگار ، صحت ، تعلیم اور تحفظ فراہم کرنا ، لیکن یوں لگتا ہے کہ پاکستانی حکومتوں کا فوکس روزگار کے وسائل پیدا کرنے کی بجائے اس بات پر ہوتا ہے کہ عوام نے جو کمایا ھے اسے لوٹنا کیسے ہے۔ کیونکہ بجلی اور گیس کے بلوں کی قیمتیں اس قدر  بڑھا دی گئی ہیں کہ عام آدمی سارا مہنہ جو کماتا ہے وہ بجلی اور گیس کے بلوں کی ادائیگی پر خرچ ہو جاتا ہے۔
رہی بات متوقع حکومت کی تو وہ ہر حال میں یکم مارچ تک بن ہی جانی ہے کیونکہ کسی بھی الیکشن کے بعد 21 دن کے اندر اسمبلی کا اجلاس بلانا ضروری ہوتا  ہے۔ آٹھ فروری کے الیکشن کے بعد یکم مارچ کو یہ 21 دن پورے ہو جانے ہیں۔ اس دوران الیکشن نتائج پر ، سیاسی جماعتوں کے سارے اعتراضات اور تحفظات  اگر ایک طرف بھی رکھ دیں تو بھی یہ حیران کن عمل ضرور سوالیہ نشان ہے کہ کیسے پوری پاکستانی قوم اس ایک پوائنٹ پر یکجا ہو کر ووٹ ڈال گئی کہ مرکز میں کسی بھی سیاسی جماعت کو دو تہائی اکثریت دے کر حکومت نہیں بنانے دینی !!! 
 اور اگر الیکشن میں ہوئی کسی بھی مْبینہ بے انصافی کو درست تسلیم نہ کیا جائے تو بھی حیرانی خود ورطہ حیرت میں چلی جاتی ہے کہ اس تخیلاتی نظام کے پیمانے کس قدر انصاف پر مبنی ہیں جنہوں نے بغیر کسی پلاننگ کے میاں نواز شریف ، عمران خان ، اور بلاول بھٹو پر وزیراعظم ہاؤس کے دروازے یکساں طور پر بند کر دئیے۔
سیاسی بساط کے اس کھیل میں چلی گئی تمام چالیں اب آہستہ آہستہ سمجھ میں آنی شروع ہو چکی ہیں ، میاں نواز شریف کا مانسہرہ جیسے قلعے سے ہار جانا ، کسی سیاسی جماعت کو دو تہائی اکثریت نہ ملنا ، کسی وقوعہ کے ایسے شواہد ہیں جو اپنے ماخذ کی نشاندہی کرتے ہیں ، جس کا کنکشن سابقہ پی ڈی ایم کے قیام سے قبل کی منصوبہ بندیوں کی حتمی شکل بھی اب سامنے لا رہا ھے۔ 
الیکشن 2024 ء کے نتائج کے مطابق کوئی بھی سیاسی جماعت پورے ملک کی نمائندگی کرنے میں ناکام ہو چکی ہے ، تینوں بڑی سیاسی جماعتیں صرف صوبائی سطح کی جماعتیں بن کر رہ گئی ہیں۔ پیپلز پارٹی سندھ تک مسلم لیگ ن پنجاب تک اور پی ٹی آئی ، کے پی کے تک محدود ہو چکی ہے۔          
جس طرح سے پاکستان کی تمام اکائیوں کو ملا کر ایک وفاق بنتا ھے اسی طرح سے پاکستان مسلم لیگ ن بھی ایک مثالی خاندانی ’’ اتفاق ‘‘ پر قائم تھی جو موجودہ صورتحال میں خالص اتفاق کی بجائے ملاوٹی اتفاق سے کام چلاتی دکھائی دے رہی ہے ، کیونکہ میاں نوازشریف تو چوتھی بار وزیراعظم نہ بن سکے لیکن میاں شہباز شریف دوسری بار وزیراعظم بننے ضرور جا رھے ہیں۔ اور محترمہ مریم نواز شریف ، پنجاب کی پہلی خاتون وزیراعلی تقریبا بن چکی ہیں۔ صوبے میں ان کے پاس کلیئر مجارٹی ہے۔
 آزاد امیدوار اگر کسی سیاسی جماعت میں چلے بھی جائیں تو بھی مسلم لیگ ن اور پی پی پی کے علاوہ کسی سیاسی جماعت کو مخصوص سیٹیں اس لیے نہیں مل سکتیں کہ ان کے علاوہ کسی سیاسی جماعت نے مخصوص سیٹوں پر اپنے امیدواروں کی لسٹیں ہی الیکشن کمشن کو جمع نہیں کرائی تھیں لہذا پچاس سے زائد خواتین کی  مخصوص سیٹیں بھی پنجاب میں مسلم لیگ ن کو ہی ملنے کا امکان ہے۔ پنجاب میں ابھی تک گورنر پنجاب بھی مسلم لیگ ن کا ہی ھے جس نے حکومت بنانے کی دعوت دینی ہے۔ پی ٹی آئی بھی پنجاب میں اپوزیشن بینچوں پر بیٹھنے کا عندیہ دے چکی ہے۔ 
پی ڈی ایم کے سابق وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ جو اپنی قومی اسمبلی کی سیٹ سے محروم ہو چکے ہیں اگر وہ اگلا ضمنی الیکشن نہیں لڑتے تو اگلے گورنر پنجاب کے لیے ان کا نام پہلے نمبر پر ھو گا۔ رہے میاں نواز شریف تو اگلے سیاسی لائحہ عمل میں وہ اب مریم نواز کے آئندہ کے سیاسی کیریر پر توجہ دیتے دکھائی دیں گے اور ان کے حکومتی تجربات سے وفاق کی بجائے پنجاب زیادہ مستفید ھوگا۔ 
وفاقی حکومت جب تک آئی ایم ایف کے پروگرام سے باہر نہیں آتی ملک کے اندر کسی بہتری کی امید نہیں اور نہ ہی اگلے دو سال تک یہ ممکن ہے۔ 
عمران خان کی سیاست کے تنے کو جتنا کاٹنے کی کوشش کی گئی ہے ، وہ اْتنا ہی تناور ہو چکا ہے۔ 
  گزشتہ رات روس میں صدر پوٹن کے واحد مخالف اولیکسی ناولنی کی جیل میں موت واقع ھونے کی خبر سامنے آئی ہے وہ بیس سال کے لیے روس کے ٹھنڈے ترین علاقے خارپ شہر کی جیل میں قید تھے۔ دوسال قبل بھی بیس اگست کو ماسکو جاتے ھوئے انہیں زہر خورانی کے باعث ہسپتال لایا گیا تھا ان کی اہلیہ نے انہیں نویچویک زہر دئے جانے کا الزام عائد کیا تھا۔ ان کو سرکاری رقم خرد برد کرنے کے الزام میں تاحیات سیاست کے لیے نا اہل بھی قرار دیا جا چکا تھا۔

ای پیپر دی نیشن