آٹھ فروری کے انتخابات کی بنیاد پر تشکیل پانے والی قومی اسمبلی میں حکومت سازی کا مرحلہ بہرصورت یکم مارچ تک طے پانا ہے مگر انتخابی دھاندلیوں کے الزامات کی بنیاد پر ہماری سیاست میں گند اتنا اچھل رہا ہے کہ اس میں شائستگی و اقدار کا کہیں نام و نشان تک نظر نہیں آرہا۔ کل کے حلیفوں اور آج کے حریفوں کے مابین جاری کھینچا تانی پورے سسٹم کے درپے نظر آتی ہے۔ مسلم لیگ (ن)‘ پی ٹی آئی اور پیپلزپارٹی سمیت تقریباً تمام جماعتوں کی جانب سے اپوزیشن میں بیٹھنے کا عندیہ دیا جارہا ہے اور ساتھ ہی ساتھ اشتراک اقتدار کے تانے بانے بھی بنے جا رہے ہیں چنانچہ بلیم گیم کے کلچر میں سلطانء جمہور ڈگماتی نظر آرہی ہے۔
جی ڈی اے کے سربراہ صبغت اللہ راشدی پیر پگارا نے یقیناً اسی تناظر میں گزشتہ روز اظہار خیال کیا ہے کہ کھچڑی بن گئی ہے‘ حالات اچھے نظر نہیں آرہے‘ ہو سکتا ہے ایمرجنسی یا مارشل لاء لگ جائے۔ انکے بقول اگر حکومت تشکیل بھی پا گئی تو وہ آٹھ دس ماہ سے زیادہ نہیں چلے گی۔ فوج نے سب آزما لیا‘ اب آزمانے میں بچا ہی کیا ہے‘ پھر ایمرجنسی یا مارشل لاء کا آپشن ہی رہ جاتا ہے‘ یہی عدلیہ اسے لیگل کور دیگی۔ پیر پگارا خود بھی انتخابی دھاندلیوں کے الزامات لگا کر جامشورو میں دھرنا دیئے بیٹھے ہیں جن کے بقول الیکشن سے ڈھائی تین ماہ قبل الیکشن کا نتیجہ فکس ہو چکا تھا اور ’’پے منٹ‘‘ ہو چکی تھی۔ فوج ہماری ہے‘ وہ فیڈریشن کو سنبھالے ہوئے ہے۔ ہم سوچ بھی نہیں سکتے کہ ہم فوج سے دور ہونگے۔ اب فوج کے سوا کوئی وفاق کو نہیں سنبھال سکتا۔
اسی طرح پی ٹی آئی‘ جماعت اسلامی‘ جمعیت علماء اسلام (ف) سمیت متعدد جماعتیں مبینہ انتخابی دھاندلیوں کیخلاف صف آراء ہو چکی ہیں جو دھرنوں‘ ریلیوں اور یوم سیاہ منانے کے راستے اختیار کرکے اپنے اپنے احتجاج ریکارڈ کرا رہی ہیں جبکہ مولانا فضل الرحمان عمران خان کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک سے آٹھ فروری کے انتخابات تک اسٹیبلشمنٹ کے عمل دخل کے حوالے سے سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور جنرل فیض حمید کو ہدف بنا کر احتجاج کے جس راستے پر چلتے نظر آرہے ہیں جس میں انکے پی ٹی آئی کے ساتھ کھڑے ہونے کا عندیہ مل رہا ہے‘ اس سے آٹھ فروری کے انتخابات کے نتیجہ میں سیاسی عدم استحکام مزید گھمبیر ہوتا نظر آرہا ہے۔ گزشتہ روز کمشنر راولپنڈی نے یہ الزام لگا کر اپنے منصب سے استعفیٰ دیا کہ انہیں بعض حلقوں میں ہارے ہوئے امیدواروں کو جتوانے کا ٹارگٹ دیا گیا تھا۔ وہ ان امیدواروں سے معذرت خواہ ہیں جن کی جیت انکی ہار میں تبدیل کی گئی۔ اسی طرح ایک شہری کی جانب سے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی ہے جس میں استدعا کی گئی کہ 8 فروری کے انتخابات میں دھاندلیوں کے ٹھوس ثبوت موجود ہیں اس لئے یہ انتخابات کالعدم قرار دیکر دوبارہ انتخابات کرائے جائیں۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ مسٹر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بنچ کے روبرو یہ درخواست 19 فروری کو سماعت کیلئے مقرر بھی کر دی ہے چنانچہ یہ صورت حال ملک میں مزید افراتفری کی عکاسی کرتی نظر آرہی ہے۔
آٹھ فروری کے انتخابات کے بعد حکومت سازی کے معاملہ میں اب تک کے زمینی حقائق یہی ہیں کہ کوئی بھی سیاسی جماعت تنہاء حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں۔ اس وقت مسلم لیگ (ن)‘ پیپلزپارٹی‘ ایم کیو ایم‘ مسلم لیگ (ق) اور استحکام پاکستان پارٹی باہم مل کر مخلوط حکومت تشکیل دینے کی پوزیشن میں ہیں جس کیلئے ان پارٹیوں کے مابین تقریباً اتفاق رائے بھی ہو چکا ہے تاہم مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کی قیادتوں کے مابین بدگمانیوں اور ایک دوسرے کے ساتھ تحفظات کا سلسلہ بھی ہنوز جاری ہے جس کے باعث اب تک حکومت کے خدوخال واضح نہیں ہو پائے۔ بلاول بھٹو زرداری حکومت میں کوئی وزارت قبول نہ کرنے کا پہلے ہی اعلان کر چکے ہیں جبکہ صدر مملکت سمیت وفاق اور صوبوں کے آئینی مناصب پیپلزپارٹی کو دینے پر مسلم لیگ (ن) کی جانب سے تحفظات سامنے آرہے ہیں۔ اس صورتحال میں بلاول بھٹو زرداری پیپلزپارٹی کے اپوزیشن بنچوں پر بیٹھنے کا بھی عندیہ دے رہے ہیں جبکہ گزشتہ روز میاں نوازشریف کی زیرصدارت منعقدہ مسلم لیگ (ن) کے مشاورتی اجلاس میں بعض سینئر لیگی عہدیداروں کی جانب سے بھی یہی مشورہ دیا گیا کہ مسلم لیگ (ن) کو وفاقی حکومت نہیں لینی چاہیے۔ ان دونوں جماعتوں کے مابین حکومت سازی کیلئے کیا حتمی اتفاق ہوتا ہے، اسکی تصویر ابھی تک واضح نظر نہیں آرہی۔
اسکے علاوہ حکومت سازی کیلئے پی ٹی آئی اور پیپلزپارٹی کے مابین بھی کوئی معاملہ طے ہو سکتا ہے کیونکہ پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر منتخب ہونیوالے آزاد ارکان پیپلزپارٹی کے ساتھ مل کر قومی اسمبلی میں سرکاری بنچوں پر بیٹھنے کیلئے سادہ اکثریت حاصل کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔ اس معاملہ میں بعض سیاسی حلقوں کے مطابق پی ٹی آئی اور پیپلزپارٹی کے مابین سنجیدہ مشاورت کے راستے کھل بھی چکے ہیں تاہم فی الحال ان دونوں جماعتوں کی قیادتوں کی جانب سے ایک دوسرے کیخلاف دیئے گئے بیانات باہمی اتفاق رائے کی فضا میں حائل ہیں تاہم سیاست میں کوئی حرف آخر نہیں اس لئے کل کے حریفوں کے ایک دوسرے کا حلیف بننے کا راستہ چند ساعتوں میں ہی ہموار ہو سکتا ہے البتہ یہ ممکنہ صورتحال مولانا فضل الرحمان کو ضرور سیاسی جھٹکا لگا سکتی ہے جو اس وقت پی ٹی آئی کے ساتھ شیروشکر ہونے کا راستہ اختیار کئے ہوئے ہیں اور پی ٹی آئی ہی کی طرح اسٹیبلشمنٹ کی طرف انگلی اٹھا رہے ہیں۔ اگر یکم مارچ سے پہلے پہلے مسلم لیگ (ن)‘ پیپلزپارٹی‘ ایم کیو ایم‘ مسلم لیگ قاف اور استحکام پاکستان پارٹی کے مابین یا پھر پی ٹی آئی اور پیپلزپارٹی کے مابین حکومت سازی کا معاملہ طے پا گیا تو ہر دو صورتوں میں مولانا فضل الرحمان کا اپوزیشن بنچوں پر بیٹھنا ہی مقدر بنے گا جبکہ پی ڈی ایم پارٹ 2 کا حصہ بن کر وہ وفاقی حکومت اور بلوچستان و سندھ حکومت میں شامل ہو سکتے ہیں۔ اگر وہ پی ٹی آئی کے ساتھ مل کر اپوزیشن کی سیاست میں آتے ہیں تو وہ صرف کے پی کے حکومت کا حصہ بن سکتے ہیں جس کیلئے پی ٹی آئی کے آزاد حیثیت میں منتخب ہونیوالے ارکان کو جمعیت علماء اسلام (ف) کے پلیٹ فارم پر آنا ہوگا۔
یہ صورتحال ذاتی مفادات اور سہولتوں کی سیاست کا ہی عندیہ دے رہی ہے جس میں سیاسی انتشار پھیلنے کا بادی النظر میں زیادہ امکان ہے۔ اگر اس فضا میں مبینہ انتخابی دھاندلیوں کا شور و غوغا زیادہ تقویت حاصل کر گیا تو ماضی جیسے کسی ماورائے آئین اقدام کیلئے یہ جواز ہی کافی ہو سکتا ہے کہ ملک کی معیشت قومی خزانے پر دوبارہ انتخابات کے اخراجات کا بوجھ اٹھانے کی متحمل نہیں ہو سکتی جبکہ دہشت گردی کا پھیلتا ناسور دوبارہ انتخابات کی صورت میں ملک کی سلامتی کیلئے بھی سنگین خطرات لاحق کر سکتا ہے۔
یہ صورتحال قومی سیاسی قیادتوں کے سنجیدہ فکر وتدبر کی متقاضی ہے کہ انہوں نے باہم شیروشکر ہو کر جمہوریت کے تسلسل و استحکام کی جانب بڑھنا ہے یا باہم دست و گریباں ہو کر جمہوریت کا اب تک کا سفر کھوٹا کرنا ہے۔ عوام تو سلطانیٔ جمہور سے پہلے ہی مایوس ہو چکے ہیں جنہیں کبھی اسکے ثمرات مل ہی نہیں پائے۔