سعودی عرب میں تقریباً ساڑھے 3 لاکھ افراد حلقہ بگوش ِ اسلام 

Feb 18, 2024

ڈاکٹر حافظ مسعود اظہر

ڈاکٹر حافظ مسعود اظہر
 
کچھ خبریں اور باتیں ایسی ہوتی ہیں جنھیں سن کر ایمان بڑھ جاتا اور دل خوشی سے بھر جاتا ہے۔ انھی میں سے ایک نہایت ہی خوش کن اور خوش آئند خبر یہ ہے کہ سعودی عرب میں 3لاکھ 47 ہزار 6 سو 46 افراد حلقہ بگوش ِ اسلام ہوئے ہیں۔ یہ ایمان افروز خبر سعودی عرب کے وزیر مذہبی امور ڈاکٹر عبداللطیف آل الشیخ نے ایک پریس کانفرنس کے ذریعے دنیا کو بتائی اور سنائی ہے۔ بلاشبہ یہ بہت ہی خوشی کی خبر ہے جس پر ہم خادم الحرمین ملک سلمان بن عبدالعزیز، ولی عہد محمد بن سلمان اور سعودی عوام کو دل کی گہرائیوں سے مبارک باد پیش کرتے ہیں اور دعا گو ہیں کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ اس سعی کو قبول فرمائے۔ دریں حالات جبکہ عالم اسلام سخت ابتلا و آزمائش کا شکار ہے ان حالات میں اس خبر سے اہل اسلام کے حوصلے بلند ہوئے اور دل خوشی و مسرت سے لبریز ہوئے ہیں۔ اس نوید مسرت سے ایک طرف اسلام کی صداقت و حقانیت واضح ہورہی ہے تو دوسری جانب مملکت سعودی عرب کے حکمرانوں کی اسلام کے ساتھ بے پایاں محبت بھی واضح ہے۔ یہ خبر اس امر کا اظہار بھی ہے کہ سعودی معاشرہ اور سعودی عرب کے حکمران اسلام کے سچے خادم ہیں، اسلام سے محبت کرتے ہیں اور اسلام کی تبلیغ واشاعت کے لیے تمام وسائل بروئے کار لارہے ہیں۔ جس مقصد کی خاطر سعودی عرب معرض ِ وجود میں آیا آج بھی اس پر قائم ہے۔ سعودی عرب کے بانیوں نے اپنے ملک کے قیام کے وقت اللہ سے جو وعدے کیے تھے۔ آج بھی ان وعدوں پر کاربند ہیں۔
اب ہم آتے ہیں اصل موضوع کی طرف۔ مضمون کی ابتدا میں ہم سعودی وزیر مذہبی امور ڈاکٹر عبداللطیف آل الشیخ کی پریس کانفرنس کا ذکر کرچکے ہیں۔ ڈاکٹر عبداللطیف نے حلقہ بگوش اسلام ہونے والوں کی جو تفصیل بتائی اس کی ترتیب درج ذیل ہے: سال 2019ء میں 21654 افراد نے اسلام قبول کیا۔ سال 2020ء میں 41441 افراد حلقہ بگوش اسلام ہوئے، سال2021ء میں 32733 افراد شرف ِ اسلام سے سرفراز ہوئے، سال 2022ء  میں 93899 افراد نے اسلام قبول کیا جبکہ سال 2023ء میں 163319 افراد شرف ِ اسلام سے سرفراز ہوئے اس طرح اسلام قبول کرنے والوں کی مجموعی تعداد 3 لاکھ 47 ہزار 6 سو 46 بنتی ہے۔ یہ اعداد و شمار صرف 2019ء سے اب تک کے ہیں۔ اگر سعودی عرب کے قیام سے اب تک اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد جمع کی جائے تو بلاشبہ وہ کروڑوں میں بنتی ہے۔ اسی طرح دوسرے ممالک میں سعودی داعی اور مبلیغین کی کوششوں سے بھی ہر سال ہزاروں لوگ حلقہ بگوش اسلام ہورہے ہیں۔ جیسا کہ یہ بات پہلے ذکر ہوچکی ہے کہ سال 2023ء سعودی عرب میں ایک لاکھ 63 ہزار 3 سو 19 افراد حلقہ بگوش اسلام ہوئے ہیں۔ اگر اس تعداد کو سال کے 365 دنوں پر تقسیم کیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ سعودی عرب میں ایک دن میں 447 افراد نے اسلام قبول کیا جو کہ الحمد للہ بہت بڑی تعداد ہے اور یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ دنیا کے کسی بھی ملک میں روزانہ کی بنیاد پر اتنی تعداد میں لوگ اسلام قبول نہیں کررہے ہیں۔ 
 سعودی عرب میں ہر سال بڑی تعداد میں غیر مسلم حلقہ بگوش اسلام ہورہے ہیں تو اس کی بہت سی وجوہ ہیں مثلاََ یہ کہ سعودی عرب کے حکمران اسلام سے محبت کرتے ہیں۔ حکومتی سطح پر بھی اور عوامی سطح پر بھی اسلام کی تبلیغ واشاعت کے لیے کوششیں کی جاتی ہیں۔ حکومتی سطح پر مملکت کے ہر خطے میں داعی اور مبلغین تعینات کیے گئے ہیں۔ اسی طرح سعودی عرب کے اہم ترین کارنامے جو دنیا بھر میں اسلام کی تبلیغ واشاعت کے لیے بے حد ممد و معاون ثابت ہورہے ہیں ان میں سے چند ایک یہ ہیں:
اولاََ، سعودی حکومت نے قرآن مجید کی تعلیمات کو عام کرنے کا خاص اہتمام کررکھا ہے۔ اس مقصد کی خاطر خادم الحرمین الشریفین شاہ فہد بن عبدالعزیز رحمہ اللہ علیہ نے اپنے دور میں کنگ فہد قرآن پرنٹنگ کمپلیکس کے نام سے مدینہ منورہ میں ایک عظیم الشان اشاعتی ادارہ قائم کیا جو بلاشبہ دنیا بھر میں قرآن مجید کی طباعت واشاعت کا سب سے بڑا ادارہ ہے۔ اس مبارک پراجیکٹ کا سنگ بنیاد2 نومبر 1982ء میں رکھا گیا۔ یہ کمپلیکس فن تعمیر کا دلکش اور خوبصورت شاہکار ہے۔ اس پرنٹنگ کمپلیکس میں اعلی معیار کے اور غلطیوں سے پاک قرآن مجید کے نسخے طبع کرکے پوری دنیا میں مفت تقیم کیے جاتے ہیں۔ قیام سے لے کر اب تک اس کمپلیکس سے مختلف انواع سائز کے کروڑوں کی تعداد میں 40 سے زبانوں میں نسخے شائع ہوچکے ہیں۔ شاہ فہد رحمہ اللہ علیہ نے قرآن مجید کو گھر گھر پہنچانے اور اس کی تعلیمات کو عام کرنے کے لیے دنیا کی مختلف زندہ زبانوں میں اس کے ترجمے و تفاسیر اور اس کی توضیح اور تقسیم کر کے کے جو عظیم کارنامہ سرانجام دیا ہے وہ قیامت تک یاد رکھا جائے گا۔ قرآن مجید کی طباعت و اشاعت کے علاوہ کتب ِ تفاسیر و احادیث اور دیگر کتب بھی شائع کرکے مفت تقسیم کی جاتی ہیں جن پر ہر سال کروڑوں ریال خرچ کیے جاتے ہیں۔ 
ثانیاََ، دینی تعلیم کے فروغ کے لیے 1944ء میں جامعہ ازہر کی طرز پرمدینہ منورہ میں الجامعۃ الاسلامیہ کے نام سے یونیورسٹی قائم کی جواس وقت علوم اسلامیہ کے فروغ میں اسلامی دنیا کی سب سے بڑی یونیورسٹی بن چکی ہے جہاں پوری دنیا سے طلبہ تعلیم حاصل کرنے کے لیے آتے ہیں اور حصول کے بعد سعودی عرب سمیت دنیا بھر میں اسلام کی تبلیغ واشاعت کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ 
ثالثاََ، سعودی حکومت نے اپنی مملکت سمیت پوری دنیا میں مستقل بنیادوں پراسلام کے مراکز، مساجد اور مدارس قائم کیے ہیں جن میں داعی، مبلغین، اساتذہ کرام، قرائے عظام اور علمائے کرام اور مبعوث تعینات کیے گئے ہیں جن کی تعداد کئی ہزار ہے۔ ان کی سرپرستی سعودی حکومت اور سعودی خیراتی ادارے کرتے ہیں۔ یہ مبلغین و معلمین خالص توحید اور قرآن و سنت کی روشنی میں لوگوں کو صحیح عقیدے کی دعوت دیتے ہیں جس کی وجہ سے بڑی تعداد میں لوگ اپنے عقائد کی اصلاح کرتے اور مشرف بہ اسلام ہوتے ہیں۔ 
رابعاََ، مملکت سعودی عرب میں دعوت و تبلیغ کے لیے 457 دینی و دعوتی جمعیتیں اور این جی اوز مختلف خطوں میں سرگرم عمل ہیں جو مملکت میں روزگار کے لیے غیر مسلموں کو اور سعودی عرب میں بغرض ِ سیاحت آنے والے غیر مسلموں کو اسلام کی دعوت دیتی ہیں۔     
آخر میں اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ اس سے پہلے کسی بھی سعودی بادشاہ کے دور میں اتنی بڑی تعداد میں لوگ مسلمان نہیں ہوتے تھے جس قدر پچھلے چند سال میں ہوئے ہیں اور روز بہ روز اسلام لانے والوں کی تعداد بڑھتی ہی جا رہی ہے، مطلب یہ ہوا کہ سعودی عرب میں اب دعوت دین پر پہلے سے زیادہ سنجیدگی سے اور بہتر انداز میں ہورہا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ سعودی حکومت اور وہاں کے علماء کی دین اسلام کی اشاعت کے لیے محنتوں کو قبول فرمائے اور رب کریم انھیں اس باسعادت مشن کے لیے مزید آگے سے آگے بڑھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین!

مزیدخبریں