سماجی مواصلاتی انقلاب


فریب سود و زیاں …حیدر عباس کلیال 
haiderabbasraja556@gmail.com

انگریزی لفظ revolution (انقلاب) لاطینی لفظ revolutio سے ماخوذ ہے جس کا اردو ترجمہ بدلاؤ یا تبدیلی کیا جا سکتا ہے۔ انقلاب کی بہت سی قسمیں ہیں جن میں سب سے مناسب اور دیرپا نرم انقلاب یعنی soft revolution ہے۔ مختلف ماہرین نے نرم انقلاب کی مختلف تشریحات کی ہیں جن کو مد نظر رکھتے ہوئے نرم انقلاب کی یہ تعریف کی جا سکتی ہے کہ یہ ایسا انقلاب ہے جو آہستگی سے خاموشی سے جڑیں پکڑے یا اندر ہی اندر بٹھی میں کندن بنتا جائے اور پھر یکبارگی انتہائی سرعت سے نظام پہ چھا جائے۔ جس میں خون خرابہ،جنگ و جدل وسیع پیمانے پہ ریاستی طاقت کا استعمال کم سے کم ہوا ہو۔ اس انقلاب کی ذیلی اقسام بھی ہوتی ہیں, حالیہ سالوں انقلاب کی ایک ذیلی قسم سماجی مواصلاتی انقلاب media revolution socialکا اضافہ ہوا ہے۔نرم انقلاب عام طور پڑھے لکھے، دانشور اور ذی شعور لوگ عوام کی معاشرتی، سماجی اور علمی سطح پہ تربیت سے بپاء کرتے ہیں۔ پاکستان کے حالیہ انتخابات میں نرم انقلاب کی کافی حد تک جھلک نظر آئی ہے۔ عوام نے روایتی اور فرسودہ طریقہ انتخابات کو کافی حد تک مسترد کر دیا ہے،بیشمار اپر مڈل کلاس کے نسبتاً غیر معروف اشخاص انتہائی کم خرچ میں الیکشن کمپین چلا کر کامیاب ہوئے یا پھر رنر اپ رہے۔ سیاسی وابستگی سے قطع نظر یہ بہت حوصلہ افزاء بات ہے۔ ان انتخابات میں ووٹر کے رحجان کو دیکھا جائے تو دو باتیں سامنے آتی ہیں۔ اول یہ کہ لوگ ترقیاتی کاموں اربوں کے فنڈز اور طویل سیاسی وابستگیوں سے زیادہ مرغوب نہیں ہوئے اکثریت نے بیانیے کو ترجیح دی جس کا منطقی نتیجہ یہی نکلنا تھا کہ جس جماعت کا بیانیہ مضبوط تھا اس نے بڑی تعداد میں ووٹرز کو اپنی جانب کھینچ لیا۔ حیرت انگیز طور پر مذہبی ووٹ کی بڑی اکثریت بھی اسی بیانیے کی طرف کھچی چلی گئی جبکہ روایتی مذہبی جماعتوں کو بہت کم حصہ ملا۔دوم یہ کہ اس مرتبہ اس نظام اور نظام کے محرکین پہ لوگوں کا غصہ نمایاں طور پر نظر آیا جس کی زد میں بڑی سیاسی جماعتیں آ گئیں۔ حالانکہ یہ بات بھی اپنی جگہ قابل توجہ ہے کہ دیگر سیاسی جماعتوں میں سے کسی نے بھی اپنا بیانیہ بنانے کی کوشش نہ کی بلکہ پی ٹی آئی کے بیانیے کا توڑ کرنے کی کوشش میں لگی رہیں جس میں کامیابی کا چانس نہ ہونے کے برابر تھا کیونکہ پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا بہت ہی متحرک اور فعال تھا اس ونگ کا کوئی متبادل کسی کے پاس نہ تھا شاید دیگر جماعتیں بروقت ادراک نہ کر سکی کہ اب رحجان سازی پرنٹ میڈیا کے بس کا کام نہیں رہا۔اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ دیگر جماعتیں نوجوانوں کی توجہ حاصل کرنے میں بری طرح ناکام ہوئیں۔ سوشل میڈیا نے معاشی، معاشرتی، سماجی، حتیٰ کہ مالیاتی انتظامی اور مواصلاتی امور تک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ان حالات میں کیسے ممکن ہے کہ سیاسی میدان اس کے وسیع اثرات سے کیسے محفوظ رہ سکتا تھا۔سوشل میڈیا کی طاقت اور اثر پذیری کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سینئر اور نامور میڈیا اینکرز بھی تیزی سے سوشل میڈیا پہ منتقل ہو رہے ہیں۔ سمجھ سے بالاتر ہے کہ ن لیگ سمیت قومی سطح کی سیاسی قیادت اتنے اہم فورم کی اہمیت سے صحیح طور پر آگاہ نہ ہو سکی اور لہذا بہت محدود پیمانے پہ مستفید ہو پائی۔ان جماعتوں نے میڈیا تشہیر کو ہی کافی جانا اور ہر جیب میں موجود سوشل میڈیا ڈیوائس کی طاقت سے بے خبر رہے۔انتخابات کے نتائج اور سوشل میڈیا کی قوت کو مدنظر رکھتے ہوئے انتہائی وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ بیشمار محرومیوں کے باوجود تحریک انصاف کی کاکردگی نرم انقلاب کی ذیلی شاخ یعنی سماجی مواصلاتی انقلاب کے مرہون منت ہے۔

ای پیپر دی نیشن