حکیمانہ …حکیم سید محمد محمود سہارن پوری
hakimsaharanpuri@gmail.com
12 ویں عام انتخابات کے چار روز بعد 12 فروری 2024ء کی دوپہر راولپنڈی کینٹ کی مصروف شاہراہ کچہری روڈ (جناح پارک) سے ملحق ٹریفک اشارے پر ایسی ظلم کی داستان لکھی گئی جس سے شہر راولپنڈی پرامن شہر کی فضاء افسوس وحسرت سے مکدر ہوگئی۔پنجاب اسمبلی کے سابق رکن اور سابق پارلیمانی سیکرٹری چوہدری محمد عدنان کو دن کی روشنی میں فائرنگ کرکے موت کی نیند سلا دیا گیا۔ حادثہ چکلالہ سکیم نمبر 3 میں ان کی رہائش سے زیادہ دور نہیں ،ان کی گاڑی ٹریفک سنگل پر جوں ہی رکی دوسرے لمحے گھات لگائے اور تعاقب میں موٹر سائیکل سواروں نے اندھا دھند گولیاں چلا دیں۔ چوہدری عدنان شدید زخمی ہوئے انہیں فوراً قریبی ہسپتال لے جایا گیا مگر وہ جانبرنہ ہوسکے اور راستے میں ہی اللہ کو پیارے ہوگئے۔ اگلے روز( منگل کی ) سہ پہر ان کی رہائش گاہ کے پاس نماز جنازہ ادا ہوا۔ جڑواں شہروں کا جمع غفیر چوہدری مرحوم کو آخری سلام اور آخری دیدار کے لیے موجود تھا۔ اہل شہر دن دیہاڑے اس ظلم اور سفاکی پر نوحہ کناں ہے۔ تین دن سے شہر کی فضاء افسردہ ہے۔ سماجی‘ عوامی اور سیاسی حلقے پولیس سے توقع کررہے ہیں کہ وہ اس بیہمانہ قتل کا سراغ لگا کر قاتلوں اور انکے سرپرستوں کو جلد بے نقاب کرے۔ اتنے مصروف او ر گنجان روڈ پر قاتلوں کا جائے واردات سے’’غائب‘‘ ہو جانا خود پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے سوالیہ نشان ہے؟ ہم یہاں قارئین کو یہ بتاتے چلیں کہ جناح پارک کا کچہری روڈ کیوں اہمیت کا حامل ہے۔ بانی پاکستان سے منسوب پارک اپنی کشادگی اور خوبصورتی کے باعث راولپنڈی کینٹ کا منفرد تفریحی مقام ہے۔ یہاںجدید سینما گھرز موجود ہیں عالمی برانڈ کے فاسٹ فوڈ کے سبب صبح سے رات گئے تک شہریوں کی اہل خانہ کے ساتھ آمد جاری رہتی ہے۔ اسی شاہراہ پر ضلعی کچہری ہے یہاں سی پی او آفس اور پولیس اسٹیشن بھی ہے، یہاں وویمن پولیس اسٹیشن اور پولیس خدمت مرکز بھی ہے۔ یہی وہ سڑک ہے جہاں ایک طرف دیوار کے ساتھ طویل قطار میں پولیس شہداء کے پورٹریٹ کندان ہیں، اسی شاہراہ پر آپ کو جابجا پولیس اہلکار ڈیوٹی پر مامور دکھائی دیں گے۔ 12 فروری کے حادثہ سے یہ سوال مسلسل پوچھا جارہا ہے کہ پولیس کے چاک وچوبند اہلکار کیا صرف پولیس آفیسرز کی حفاظت کے لیے موجود ہوتے ہیں؟ شہریوں کی حفاظت کاذمہ انہوں نے کس نے سر تھوپا ہے۔ اگر پولیس اہلکار تھوڑی سی کوشش کرلیتے تو اس روز قاتل یوں لمحوں میں فرار نہ ہوتے!! حیرت ہے ملزم آرام سے گاڑی کا پیچھا کرتے ہوئے کچہری روڈ پر آئے او جہاں گاڑی ڈیڑھ دو منٹ کے لیے رکی فائرنگ کر دی گئی اور پھر قاتل اسلحہ لہراتے ہوئے بچ نکلنے میں کامیاب بھی رہے!!
ہمیں اس سے غرض نہیں کہ مقتول چوہدری عدنان کے بھائی نے ایف آئی آر میں کن کن کو نامزد کیا ہے؟ سوال تو ہے کہ پولیس کے ’’اپنے علاقے‘‘ سے قاتلوں کا یوں فرار ہو جانا خود محکمے کے لیے لمحہ فکریہ ہے؟ 2013ء کے عام انتخابات میں چوہدری عدنان اسی انتخابی حلقے سے تحریک انصاف کے ایم پی اے بنے جب 2024ء کے انتخابات کا غلغلہ بلند ہوا تو انہیں پارٹی ٹکٹ سے محروم کرکے کسی دوسرے امیدوار کو سامنے لایا گیا، ردعل کے طورپر چوہدری عدنان نے خوب احتجاج کیا انہوں نے احتجاجی مظاہرے اور پریس کانفرنس میں راولپنڈی سے متعلق سابق ایک وفاقی وزیر پر الزام بھی عائد کیا کہ انہوں نے خان صاحب کے کان بھرے جس کے نتیجے میں وہ پارٹی ٹکٹ سے محروم ہوئے۔ یہ الگ بات ہے کہ بعد میں وہ سابق وفاقی وزیر خود مکافات عمل کا شکار ہو کر انتخابات میں اپنی ضمانت ضبط کروا بیٹھے۔
چوہدری عدنان نے عام انتخابات میں قومی اسمبلی کے حلقے این اے 57 اور پی پی 17 سے حصہ لیا۔ بڑی جماعتوں کے امیدواروں کی موجودگی میں آزاد امیدوار اپنا وہ رنگ نہ دکھا سکا جس کا شہر توقع کر رہتا تھا پھر بھی انہوں نے دونوں نشستوں پر ٹھیک ٹھاک ووٹ حاصل کئے انہیں کیا معلوم تھا کہ یہ الیکشن ان کی زندگی کا آخری انتخابی معرکہ ثابت ہوگا۔
شہری یہاں کمشنر چوہدری لیاقت علی چٹھہ اور سب سے بڑا کر صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر جمال ناصر سے ملتمس ہیں کہ وہ کچہری روڈ کے اس حادثہ کو نظر انداز نہ کریں۔ متاثرہ خاندان کی دل جوئی کریں قاتلوں کو گرفتار اور بے نقاب کریں گے توانصاف ہوگا جس سے چوہدری عدنان کی بوڑھی والدہ کو قرار اور اطمینان کی دولت نصیب ہوگی حکام یہ مشن اور عوامی مطالبہ فوری پورا کریں سینئر بیوروکریٹ مرحوم مصطفی زیدی یاد آگئے
میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے