چھٹی حِس کیا ہے اور ہمیں بُرے نتائج سے کیسے بچاتی ہے؟

آپ نے بہت سوں سے یہ سنا ہوگا کہ وہ عین آخری لمحے پر اپنے آپ کو آگے بڑھنے سے روک کر کسی بڑے حادثے سے بچ گئے۔ ایسا ہوا ہے کہ کسی نے اچانک ہی کسی پرواز میں اپنی سیٹ منسوخ کرائی اور خود اسے بھی اندازہ نہ تھا کہ اس نے ایسا کیوں کیا۔ پھر یہ ہوا کہ وہ پرواز حادثے کا شکار ہوگئی۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی کہیں جانے سے بلا وجہ ہی رک جاتا ہے اور وہاں کوئی حادثہ رونما ہو جاتا ہے اور حادثہ بھی ایسا جس میں اس کی جان جاسکتی تھی۔ایسا کیوں ہوتا ہے؟ آخر کس طرح کسی کو اچانک ہی کسی ایسی ویسی بات کا اندازہ ہو جاتا ہے اور وہ کسی برے یا ناخوش گوار نتیجے سے محفوظ رہ پاتا ہے؟عام طور پر ایسے کسی بھی احساس کو چھٹی حس کہا جاتا ہے۔ جو کچھ ہماری پانچ حِسیں مل کر نہیں سمجھ پاتیں وہ کسی ہمارا ذہن نام نہاد چھٹی حِس کی مدد سے سمجھنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔عام آدمی چھٹی حِس کے بارے میں زیادہ غور نہیں کرتا۔ بیشتر تو اس کے بارے میں سوچنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کرتے۔ یہ کوئی جادو ہے نہ شعبدہ بازی۔ اِسے وجدان بھی کہا جاسکتا ہے اور بصیرت بھی۔حقیقت یہ ہے کہ فطری علوم و فنون اور نفسیات دونوں ہی ہماری چھٹی حِس کی بنیاد ہیں۔ یونیورسٹی آف نیو ساؤتھ ویلز کے نیورو سائنٹسٹ اور ماہرِ نفسیات جوئیل پیئرسن کہتے ہیں کہ جو کچھ بھی ہمارے ذہن میں چل رہا ہوتا ہے وہ دراصل پورے ماحول سے اخذ کی ہوئی معلومات کا تفاعل ہوتا ہے۔ دن کا خاص وقت، روشنی کا معیار، چلنے کی رفتار، مختلف اشیا کے سائے اور دوسری بہت سی بلکہ سیکڑوں چیزیں مل کر ہمارے ذہن میں کسی خاص وقت کوئی ماحول تیار کرتی ہیں۔جوئیل پیئرسن مزید کہتے ہیں ’ہم جو کچھ دیکھتے، سیکھتے اور سمجھتے ہیں اسی کی بنیاد پر ہمارا ذہن کسی نتیجے تک پہنچتا ہے اور یوں ہم جو کچھ کہتے ہیں اسی کو پیش گوئی کرنا کہا جاتا ہے۔ ہم جن حالات سے دوچار ہوئے ہوتے ہیں اور جو کچھ ہم پر گزری ہوتی ہے اس کا جامع تجزیہ ہمارے ذہن کو کسی نتیجے تک پہنچنے میں مدد دیتا ہے۔اسے وجدان بھی کہا جاسکتا ہے۔ یعنی چند ایک اہم معاملات کا پہلے سے کچھ اندازہ ہو جانا۔ جیسے فضا میں کسی چیز کی بو سونگھ کر کوئی اندازہ لگانا۔ جن معاملات کو ہم اچھی طرح جانتے اور سمجھتے ہیں ان سے ملتے جلتے معاملات سامنے آتے ہوئے محسوس ہوں تو ہم کوئی درست اندازہ لگاسکتے ہیں۔ اس تصور پر جوئیل پیئرسن 25 سال سے کام کر رہے ہیں۔جوئیل پیئرس نے حال ہی میں ’دی انٹیوشن ٹول کِٹ‘ کے زیر عنوان کتاب لکھی ہے جس میں انہوں نے چھٹی حِس کی تعریف و توضیح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ بہتر فیصلوں اور اعمال کے لیے لاشعوری معلومات کا سیکھا ہوا اور مثبت استعمال ہے۔جوئیل پیئرسن نے یونیورسٹی آف نیو ساؤتھ ویلز میں ’فیوچر مائنڈز لیب‘ قائم کر رکھی ہے۔ اس میں وہ شعور کے حوالے سے تحقیق اور تجربوں میں مصروف رہتے ہیں۔ وہ خصوصی طور پر اس بات کا مطالعہ کر رہے ہیں کہ ہمارے لاشعور میں بسی ہوئی معلومات کس طور ہماری قوتِ فیصلہ سازی، احساسات اور اعمال پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ اور یہ کہ اس پورے عمل پر ہمارے جذبات کا اثر کس حد تک ہوتا ہے۔ اسے وہ سائیکو فزکس کہتے ہیں یعنی فطری علوم اور نفسیات کا سنگم۔جوئیل پیئرسن کہتے ہیں کہ یہ کوئی خون، ریشوں اور خلیوں کو پرکھنے اور سمجھنے کا معاملہ تو ہے نہیں۔ اس میں تو رویے اور اعمال کو سمجھنا ہوتا ہے۔ ذہن میں الجھن، اضطراب، ڈپریشن یا اور جو کچھ بھی ابھرتا ہے اُسے سمجھنا ہے۔جوئیل پیئرسن کا مقصد وجدان کو صرف سمجھنا نہیں بلکہ یہ بھی جاننا ہے کہ وہ کس طور واقع ہوتا ہے، کس طور ہم اسے بروئے کار لاتے ہیں اور ہم اسے کس طور بہتر طور پر استعمال کرسکتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وجدان سیکھا جاسکتا ہے، یہ بارآور ہوتا ہے اور یہ لاشعوری معلومات پر مدار رکھتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...