پیکاایکٹ – بائیکاٹ کا بھی بائیکاٹ۔

اندر کی بات
شہباز اکمل جندران
یہ بہت کٹھن مرحلہ ہے جس سے ملک بھر کے صحافیوں کو گزرنا پڑ رہا ہے- پیکا ترمیمی ایکٹ نے آج سب کو سڑکوں پر لا کھڑا کیا ہے- اس سے قبل بھی صحافی اپنے ''مطالبات'' کے حق میں سڑکوں پر آتے رہے ہیں اور احتجاج کا راستہ اختیار کرتے رہے ہیں- دوسروں کی خبر بنانے والے آج خود خبر بن گئے ہیں- ایک بڑے ایشو کے طور پر دیکھے اور محسوس کیے جا رہے ہیں- پیکا ترمیمی ایکٹ نے ملک بھر کے صحافیوں کو ایک آوازاور یک جان کر دیا ہے- 

پیکا ایکٹ کی ایک اہم بات یہ بھی ہے کے اس ایکٹ میں ''بائیکاٹ'' کی کسی بھی مہم کو بھی جرم قرار دیا گیا ہے- ترمیمی پیکا ایکٹ 2025ءکی یہ کلاز سردست صحافیوں اور اپوزیشن جماعتوں کی نظروں سے اوجھل محسوس ہوتی ہے کیونکہ ابھی تک پی ٹی آئی سمیت کسی سیاسی جماعت یا صحافی برادری کی طرف سے اس کلاز پر رائے زنی نہیں ہوئی۔یہ پیکا ترمیمی ایکٹ 2025کے سیکشن 2R کی ذیلی دفعہ 1 کی کلاز (d) ہے جو کہتی ہے کہ سوشل میڈیا کے ذریعے کسی کو کاروبار سے روکنا یا بائیکاٹ کی ترغیب دینا یا اس کے لیے مجبور کرنا ناقابل ضمانت جرم ہے- پیکا ایکٹ کے سیکشن 26A کے تحت اس جرم کی سزا تین سال قید یا 20 لاکھ روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں بھی ہو سکتی ہیں-

جیسا کہ ہمارے یہاں ''بائیکاٹ'' کا رواج عام ہے ہم کبھی بھی ،کہیں بھی کسی بھی وقت کسی بھی چیز، کسی بھی کمپنی یا کسی بھی پراڈکٹ کے بائیکاٹ کی پوسٹ اپلوڈ کر دیتے ہیں تاہم پیکا ترمیمی ایکٹ کی مذکورہ کلاز کے نفاذ کے بعد اب صورت حال مختلف ہو نے جارہی ہے ۔ ترمیمی ایکٹ کے باقاعدہ نفاذکے بعد کوئی بھی سیاسی جماعت یا لیڈر عوام و الناس کو کسی بائیکاٹ کے لیے نہیں اکسا سکتا-چاہے وہ اوورسیز کے لیے ترسیلات زر (Remittance) یا بجلی کے بلوں کی عدم ادائیگی کی بات کیوں نہ ہو-یا پھر عسکری کے نام سے مختلف پراڈکٹس اور سروسز کا معاملہ ہو یا غزہ میں اسرائیلی فوج کو کھانا سپلائی کرنے والے میکڈونلڈ کو سبق سکھانے کی خواہش، اب کوئی بھی شہری کسی کے خلاف بائیکاٹ کے متعلق کوئی بھی مواد سوشل میڈیا پر اپلوڈ نہیں کر سکتا- ایسا کرنے والا پیکا ایکٹ کے تحت مجرم قرار پائے گا اور اسے سزاکا سامنا ہوسکتا ہے۔
یہ بات بھی اہم ہے کہ اگر آپ مری جیسے کسی سیاحتی مقام پر ہیں، جہاں آپ کو کسی ناروا سلوک یا برتا¶ کا سامنا ہے یا کہیں آسمان کو چھوتی مہنگے داموں چکن،پھل اور روز مرہ کی اشیاءہیں لیکن اب آپ ان کے بائیکاٹ کی ترغیب سوشل میڈیا پر کسی کو نہیں دے سکتے- نہ ہی کسی کے کاروبار کے خلاف بائیکاٹ کی پوسٹ سوشل میڈیا پر اپلوڈ کر سکتے ہیں- ایسا کریں گے تو مستوجب سزا ہوں گے- پیکا ایکٹ حرکت میں آئے گا یوں آپ کسی طور بھی سزا سے نہیں بچ سکیں گے-
آپ دانستہ یا غیردانستہ طور پر بھی اگر ایسی کسی حرکت کے مرتکب پائے جاتے ہیں تو متعلقہ اتھارٹی آپ کے خلاف کیس بنا کر سوشل میڈیا پروٹیکشن ٹربیونل کو بھیجنے کی پابند ہو گی- جہاں آپ کے خلاف کارروائی کا آغاز ہو گا اور سیکشن 26اے کے تحت ٹربیونل آپ کو سزا کا حکم دے سکتا ہے-

لاہور سے متنازع پیکا ترمیمی ایکٹ 2025ءکو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کرنے والوں میں سینئر صحافی جعفر بن یاراور پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (ورکرز) ہے جس نے اپنے سیکرٹری جنرل راجہ ریاض کے توسط سے قانون کو چیلنج کیا ہے دونوں نے بطور ایڈووکیٹ میری خدمات حاصل کررکھی ہیں- جعفر بن یار اورراجہ ریاض دیگر صحافتی تنظیموں کے عہدیداران کا کہنا ہے وہ فیک نیوز کے خلاف ہونے والی کسی آئین سازی کے خلاف نہیں لیکن بہتر ہوتا کہ وفاقی حکومت ایسے کسی قانون کو لانے سے پہلے اس ایکٹ کی تمام شقوں پر مشاورت کرلیتی، تاکہ ابہام پیدا نہ ہوتا اور ہمیں سڑکوں پر نہ آنا پڑتا- عہدیداران کا کہنا ہے اب بھی وقت ہے کہ حکومت صحافتی تنظیموں کے ساتھ مشاورت کرے تاکہ باہمی گفت و شنید سے مسئلے کا حل نکالا جا سکے- وگرنہ ایکٹ کی واپسی تک احتجاج جاری رہے گا-

ادھر حکومت صحافتی احتجاج کے بعد صحافتی تنظیموں کے ساتھ گفتگو اور مذاکرات پر آمادہ نظر آتی ہے- وفاقی وزیر اطلاعات عطاءاللہ تارڑ برملا کہہ چکے ہیں کہ حکومت گفت و شنید کے بعد مسئلے کا حل چاہتی ہے- انہوں نے امید ظاہر کی کہ اس مسئلے کا بالآخر کوئی حتمی حل تلاش کر لیا جائے گا- دیکھتے ہیں آنے والے دنوں میں پیکا ترمیمی ایکٹ کا معاملہ کیا رخ اختیار کرتا ہے اور یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے

ای پیپر دی نیشن

فخر آدمیت یا شرم آدمیت 

پس آئینہ خالدہ نازش   لومڑی نے پورے جنگل میں افواہ پھیلا دی کہ جنگل کے بادشاہ شیر نے چھوٹے اور کمزور جانوروں کا شکار نہ ...