ملک کی موجودہ پارلیمنٹ اور اتحادی حکومت کا ایک سال مکمل ہونے جارہا ہے،پہلا بھرپور سال ،احتجاج ،جلسے جلوس لانگ مارچ،دارلحکومت پر چڑھائی بھرپور سیاسی کشیدگی کیساتھ ساتھ سفارتی تنہائی کا خاتمے اور معاشی استحکام کی جانب سفر سب اس پہلے سال کا خاصہ بھی رہا اور خلاصہ بھی،بات شروع کریں آٹھ فروری 2024 کے انتخابات ، دھاندلی کے الزامات اور فارم پینتالیس سینتالیس کی بحث سے، جس نے ان انتخابات کو اتنا متنازعہ بنادیا کہ کوئی چاہتے ہوئے بھی ان کا دفاع نہیں کرپاتا،حالانکہ اگر کوئی سیدھا سیدھا ہاں ناں میں جواب پوچھے کہ فروری 2024 کے انتخابات دھاندلی زرہ تھے یا نہیں تو سیدھا جواب یہی ہوگا نہیں۔ کیونکہ اگر ہاں کہا جائے تو اسے ثابت کرنے کیلئے ہمارے پاس دعوؤں اور الزامات کے سوا کچھ نہیں اور قانون کا سیدھا سا اصول ہے کہ آپ معصوم ہیں جب تک آپ مجرم ثابت نہیں ہوجاتے اور الیکشنز 2024 سوشل میڈیا کے علاوہ کہیں بھی اب تک دھاندلی زدہ ثابت نہیں ہوئے ،ایک جماعت کا دعویٰ بلکہ بیانیہ ہے کہ انہیں 180 نشستیں ملیں اور حکمران جماعت کو 17۔ اب اگر آپ ان سے اس دعوے کا ثبوت تو کیا محض مخالف جماعت کے ان 17 لوگوں کے نام ہی مانگ لیں جو ان کے مطابق واقعی جیتے ہیں تو وہ یہ سترہ نام بھی بمشکل ہی پورے کر پائیں گے کیونکہ وہ کسی ایک بھی مخالف کی جیت تسلیم کرنے کو تیار نہیں اور تو اور، ان سے ان کے جیتنے کے دعویدار 180 ارکان کے نام مانگ لیں تو وہاں بھی شاید جھگڑا شروع ہوجائے گا کیونکہ کوئی امیدوار خود کو شکست خوردہ ماننے کو تیار نہیں۔ سبھی اپنی شکست کو فارم پینتالیس اور سینتالیس کے بیانیے کے پیچھے چھپا رہے ہیں۔ اس جماعت کا ایک بھی امیدوار ایسا نہیں ملا جس نے اپنی شکست یا مخالف کی کامیابی کو کھلے دل سے تسلیم کیا ہو ،الیکشن کمیشن کے ایک سابق سینئر اہلکار کہا کرتے تھے کہ اگر گھر میں چند سو لوگوں کو شادی کی تقریب میں مدعو کیاجاتا ہے تو وہاں بھی کچھ نہ کچھ بد انتظامی ہوجاتی ہے یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک ایسا کام جس میں کروڑوں لوگوں شریک ہوں وہ کسی بدانتظامی کے بغیر ہوجائے لیکن ان بدانتظامیوں کو بدنیتی سے جوڑ دینا مناسب نہیں۔ انتخابی دھاندلی کے حوالے سے قانونی مراحل موجود ہیں، الیکشن ٹریبونلز ہیں جہاں ملک بھر میں دھاندلی کے الزامات کے برعکس صرف تین سو کے لگ بھگ انتخابی عزرداریاں یعنی دھاندلی کی شکایات داخل کی گئی ہیں اور وہ بھی کسی ایک نہیں بلکہ مختلف جماعتوں کے امیدواروں کی جانب سے ہیں اور یہ معاملہ وہاں سے اعلی ترین عدالت تک بھی چلا جاتا ہے۔ دھاندلی ثابت کرنے کا قانونی طریقہ یہی ہے۔ ایک سال میں کوئی ایک امیدوار ہی کسی بھی عدالتی فورم پر اپنے فارم پینتالیس کو درست ثابت کر دکھاتا تو ان کے بیانیے میں وزن پیدا ہوجاتا لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا تو جب الیکشن ٹریبونلز میں یا کسی دوسری عدالت میں اب تک دھاندلی ثابت نہیں ہوسکی تو پورے انتخابی عمل کو کیسیدھاندلی زدہ قرار دیا جاسکتا ہے ،2014 میں بھی ایسے ہی دھاندلی کے الزامات پر مہینوں تک ملک کو ہیجان میں مبتلا رکھا گیا۔دارلحکومت کے ریڈ زون میں تین ماہ تک دھرنا دیئے رکھا گیا اور وزیر اعظم سے استعفی مانگا گیا، جب عدالتی کمیشن کی تحقیقات ہوئیں تو دھاندلی کے الزامات مسترد ہوگئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عام انتخابات میں تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدوار اکثریت میں جیتے اگر سیاسی سمجھ بوجھ کا مظاہرہ کیا جاتا تو دوسری جماعتوں کیساتھ مل کر حکومت سازی کی کوشش کی جاسکتی تھی اور حکومت بنا کر دھاندلی ثابت کرنے کیلئے جو کمیشن وغیرہ بنانا تھا بنایا جاسکتا تھا لیکن مقصد اگر نظام کو متنازعہ بنانا ہو تو وہ حکومت بنالینے سے پورا نہیں ہوسکتا تھا۔حقیقت یہ ہے کہ ایک سال قبل ملک کے جو حالات تھے حکومت کی ذمہ داری سنبھالنا آسان ہرگز نہ تھا۔ ملک کے دیوالیہ ہونے کی باتیں بدستور ہورہی تھیں۔ دنیا کیساتھ تعلقات شکوک و شبہات کا شکار تھے۔ آئی ایم ایف ماضی کے تجربے کی وجہ سے نیت اور اہلیت دونوں پر شک کا اظہار کرتے ہوئے سخت ترین شرائط لگا رہا تھا ایسے میں حکومت چلانا کانٹوں کی راہ گزر ہی تھا۔ اب انتخابات کو ایک سال مکمل ہوچکا ہے اس عرصے میں کیا کچھ ہوا، ملکی معیشت نہ صرف سنبھلی بلکہ معاشی اعشاریئے حالات کی بہتری کی نوید سنا رہے ہیں۔ سٹاک مارکیٹ جہاں دہائیوں میں پہنچی اس سے زیادہ مہنیوں میں اوپر چلی گئی۔ مہنگائی بڑھنے کی شرح چالیس فیصد سے کم ہوکر سنگل ڈیجٹ میں آگئی۔الیکشن سے قبل ایسی ہیشگوئی کوئی عالمی ادارہ نہیں کررہا تھا،پاکستان کی سفارتی تنہائی ختم ہوئی شنگھائی تعاون تنظیم کا اسلام آباد میں سربراہی اجلاس ہوا اور پھر دہائیوں بعد پاکستان میں آئی سی سی کے کرکٹ ٹونامنٹ کا انعقاد۔ اس ایک سال میں قوم نے ناامیدی سے امید اور بے یقینی سے یقین کا سفر طے کیا اور یہ کسی ایک جانب کی رائے یا دعویٰ نہیں بلکہ حالیہ دنوں میں ہونے والے سرویز بتارہے ہیں کہ بہتر مستقل کی امید رکھنے والے پاکستانیوں کی تعداد بڑھ گئی ہے۔تو حقائق یہی ہیں ،سال اچھا رہا شروعات اچھی ہیں،کچھ ملک کیلئے اچھا ہورہا ہیتو اسے سپورٹ کیا جائے سیاسی جانبداری کی عینک اتار کے دیکھا جائے اصل پکچر سامنے آتی ہے۔