آج کل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ’’زبانی جمع خرچ‘‘ کا حساب دیکھ کر جیمز بانڈ کی ایک فلم یاد آ گئی جس میں وہ اْلٹے سیدھے کرتب دکھاتا، عجیب و غریب گاڑیوں میں سفر کرتا امریکی سی آئی اے کے ایجنٹوں کے پاس جا پہنچتا ہے اور وہ صورتِ احوال دیکھ کر طنزیہ انداز میں کہتے ہیں ’’مسٹر بانڈ کیا کرتے پھر رہے ہو، کہیں تیسری عالمی جنگ تو نہیں لگوانا چاہ رہے‘‘؟
ٹرمپ جیمز بانڈ تو نہیں البتہ ’’مشن امپاسیبل‘‘ سیریزکی کسی فلم کے ایسے ہیرو ضرور محسوس ہو رہے ہیں جس کا مشن شروع سے آخر تک ’’امپاسیبل‘‘ (ناممکن) ہی رہے گااور آخر میں معلوم ہوگاکہ جسے مشن سمجھا جا رہا تھا وہ سرے سے کوئی مشن تھا ہی نہیں …بالکل اسی طرح جیسے پوری فلم دیکھنے کے بعد کوئی معصومیت سے کہہ دے فلم کی ’’سٹوری‘‘ تو اچھی لیکن کہانی بالکل فضول تھی۔کاغذ کی کشتیاں لیکر تلخ حقیقتوں کے سمندروں کے سفر پر روانہ ہونے کا نام ہی زندگی ہے اور اس تلخی سے گھبرا کر آنکھیں بند کرکے خوابوں کے جزیروں پر اْتر جانا بھی انسانی فطرت ہے۔ ایسے ایسے خواب کہ آنکھیں دیکھتی رہ جائیں۔ بعض اوقات لوگ ایسے خوابوں کے ’’سوداگر‘‘ بن کر معصوم انسانوں کو اپنا پیروکار بنا لیتے ہیں۔ اپنی اداؤں سے فی الوقت ٹرمپ بھی ایسے ہی ’’سوداگر‘‘ دکھائی دے رہے ہیں۔
ٹرمپ کے صدارتی الیکشن سے پہلے کے بیانات اور بعد کے ’’یْوٹرن‘‘ دیکھتے ہوئے سابق سوویت یونین کے حکمران سٹالن کی یاد آ گئی جس نے عوامی حمایت حاصل کرنے کیلئے روسی انقلاب کے روح رواں لینن کے نائب لیون ٹراٹسکی کی اقتصادی پالیسیوں کی دل کھول کر مخالفت کی، عوامی غیض و غضب اور اپنے ’’کارناموں‘‘ کے ذریعے ٹراٹسکی کو ملک سے بھاگنے پر مجبور کر دیا اور پھر بڑے آرام سے اسی کی اقتصادی پالیسیوں کو بہترین قرار دیکر نافذ کر دیا۔
کبھی کبھی ایک واہمہ کی طرح ٹرمپ میں ہٹلر کی شخصیت بھی چھپی نظر آتی ہے جو جمہوریت کے نام پر انتخابات میں زبردست اکثریت حاصل کرکے مطلق العنانیت کا ’’چیمپئن‘‘ بن گیا اور پھر دْنیا کے ساتھ جو کیا وہ ایک ڈراؤنے خواب کی طرح اب بھی سب کو یاد ہے۔
پھر خیال آتا ہے کہ ٹرمپ جیمز بانڈ کیساتھ سٹالن اور ہٹلر بھی نہیں بن سکتے کیونکہ یہ سب بننے کیلئے ’’ٹیم کا بھرپور تعاون‘‘ بہت ضروری ہوا کرتا ہے جو انہیں حاصل نہیں۔ بلکہ ان کی الیکشن مہم اور صدارتی دورانیئے کا آغاز ہی اپنی اسٹیبلشمنٹ سے شدید اختلافات کی کہانیوں سے ہوا ہے۔ ایسی کہانیاں جن کا انجام اچھا نہیں ہوا کرتا … جب یہ سوچتا ہوں کہ ٹرمپ آخر ہیں کیا؟ تو غلام عباس کا افسافہ بہروپیا بھی یاد آ جاتا ہے۔ جس میں بہروپیا کئی ’’سوانگ‘‘ رچاتا ہے۔ جب وہ عْمدہ کپڑے پہنے بڑی متانت سے کسی محفل میں داخل ہوتا ہے تو سب کو مرعوب کرتا ہے لیکن جیسے ہی ہیٹ اْتار اْتار کر داد اور پیسوں کا تقاضا کرتا ہے تو سب کی ہنسی نکل جاتی ہے۔
ٹرمپ نے آتے ہی میکسیکو کے ساتھ دیوار بنانے کا عزم ایسے ظاہر کیا جیسے اب غیر قانونی تارکین کیلئے اسے ’’پھلانگ کر‘‘ امریکہ میں داخل ہونا ممکن نہیں رہے گا۔ چین اور کینیڈا پر ٹیرف کی پابندیاں لگا کر انہیں ’’زمین چاٹنے‘‘ پر اسی طرح مجبور کر دیا جس طرح ایک شخص نے بہادری کے ساتھ لڑی اپنی لڑائی کا ذکر کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ’’سب سے پہلے میں نے مخالف کا ہاتھ پکڑ کر زور سے اپنے منہ پر مارا، اس سے قبل کہ وہ کچھ اور کرتا اس کی ٹانگ پوری طاقت سے اپنے پیٹ پر دے ماری اور پھر میں غصے سے زمین پر بے سدھ لمبا لمبا لیٹ گیا‘‘
کینیڈا جیسے اتحادی کو ناراض کرنے کے بعد وہ یورپی یونین سے بھی ٹیرف کے حوالے سے دوٹوک بات کی ٹھان چکے ہیں۔ گویا وہ مخالفین کے ساتھ ساتھ اپنے سچل اور کھرے دوستوں پر بھی ہاتھ صاف کرنا ضروری خیال کرتے ہیں۔ یوکرائن سے معدنیات کے ’’لین دین‘‘ کی باتیں بھی اسی سلسلے کی کڑی ہیں۔
انہوں نے الیکشن مہم کے دوران جنگیں ختم کرکے ’’امن کا داعی‘‘ بننے کا ارادہ کئی بار ظاہرکیا تھا۔ حلف برداری تقریب میں بھی کم و بیش یہی الفاظ کہے، لیکن نیتن یاہو سے ملاقات سے پہلے اور وقت ملاقات نجانے کیا سوجھی کہ فلسطینیوں کو غزہ سے بے دخل کرنے کا اعلان کرکے ’’جنگوں کی ماں‘‘ شروع کرنے کا عندیہ دے دیا۔ ترجمان وائٹ ہاؤس نے اس ’’عقلمندانہ ارشاد‘‘ کی وضاحت میں کہا کہ غزہ میں فوج بھیجنے کا کوئی ارادہ نہیں تو اگلے ہی روز ’’بزرجمہر‘‘ کی قبر پر لات مار کر فرما دیا کہ جنگ کے بعد غزہ تو اسرائیلی فوج ہی ہمارے حوالے کر دے گی ہمیں اپنی افواج بھیجنے کی قطعاً ضرورت نہیں‘‘ یعنی ’’فوج اسرائیلی اور قبضہ امریکی‘‘ یہ اعلان سن کر کون سوچے گا کہ اب جنگیں ختم ہو جائیں گی اور سب ’’ہنسی خوشی‘‘ رہنے لگیں گے۔
ٹرمپ کے انتہائی قابل ’’مشیر باتدبیر‘‘ ایلون مسک تو الیکشن میں کامیابی کے فوراً بعد ہی ’’ہتھے سے اکھڑ‘‘ گئے تھے۔ الیکشن میں مداخلت کرکے جرمنی کو ’’پریشان‘‘ اور ’’ بے پر‘‘ کی ای میلز کے ذریعے برطانیہ کو ’’حیران‘‘ کر دیا۔ معدنی وسائل سے مالا مال گرین لینڈ بھی ٹرمپ ٹولہ سے نالاں دکھائی دیتا ہے۔
ٹیرف کی لڑائی اور اتحادیوں سے چھیڑ چھاڑ یقیناً امریکہ اور ٹرمپ دونوں کو بہت مہنگی پڑے گی۔ بلا سوچے سمجھے ’’ٹیرف پابندیاں‘‘ مہنگائی کا شدید طوفان لا سکتی ہیں جبکہ ٹرمپ مہنگائی اور ٹیکس کم کرنے کے وعدے پر منتخب ہوئے ہیں۔ اسی طرح غیر قانونی تارکین کی اچانک بے دخلی چھوٹے کاروباروں کیلئے ’’پیغام اجل‘‘ ہو سکتی ہے۔ اسی لئے تو سیانے کہتے ہیں کہ جو کام بھی کیا جائے تحمل سے ہونا چاہئے، ٹھوس منصوبہ بندی کے ساتھ انجام پانا چاہئے، آنکھیں بند کرکے ہوا میں تیر چھوڑنے سے کوئی تیر اپنی ’’فوج‘‘ کیلئے پورس کا ہاتھی بھی بن سکتا ہے۔
معلوم ہوتا ہے ٹرمپ ایک دم سے ان خیالات کا اظہار کرکے دنیا کو ڈرانا اور اپنی اسٹیبلشمنٹ کو الجھانا چاہتے ہیں۔ لیکن وہ بھول چکے ہیں کہ ’’آسمان ان کا پہلے بھی امتحان کر چکا ہے اور بظاہر سنجیدہ نظر آنے والے ٹرمپ کی پوٹلی سے ’’مسخرے اقدامات‘‘ برآمد ہو چکے ہیں۔ ٹرمپ کو معروف امریکی صحافی فرید ذکریا کی کتاب پوسٹ امریکن ورلڈ(Post American World) نہیں بھولنی چاہئے جس میں وہ بتا چکے ہیں کہ ’’امریکہ اب اکلوتی سْپرپاور نہیں رہا بلکہ دنیا کے دوسرے ممالک بھی مقابلے کی دوڑ میں نہ صرف شریک ہو گئے ہیں بلکہ کئی پہلوؤں سے آگے جا رہے ہیں‘‘ دوسرے لفظوں میں یہ کہنا آسان ہوگا کہ اب ڈرا دھمکا کر یا ’’نائن الیون‘‘ والا جملہ بول کر کام نہیں چلے گا کہ ’’آپ ہمارے ساتھ ہیں یا دہشتگردوں کے‘‘؟۔ اگر تدبر سے کام نہ لیا گیا تو ’’پوسٹ امریکن ورلڈ‘‘ کا سفر سوچ سے بھی جلد طے ہو جائے گا اور ’’بنجارہ‘‘ سب لاد کر چلتا بنے گا‘‘
امریکہ کے سابق مشیر قومی سلامتی اور ٹرمپ کے پہلے دور کے ساتھی جان بولٹن نے اپنی یاد داشتوں پر مبنی ایک کتاب(The Room Where it happened) لکھی تھی جس سے نہ صرف ٹرمپ کی شخصیت بلکہ ان کے حکومتی امور انجام دینے کے طریقہ کار کا بھی بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے۔ بولٹن نے لکھا ہے کہ ’’ٹرمپ ہفتے میں دوبار انٹیلی جنس بریفنگ لیا کرتے تھے اور اس دوران وہ بریفنگ دینے والوں سے بھی زیادہ خود ’’اظہار خیال‘‘ کرنا پسند کرتے تھے اور ایسا کرتے ہوئے اس بات کا بالکل بھی خیال نہیں رکھتے تھے کہ ان کی گفتگو بریفنگ سے مطابقت بھی رکھتی ہے یا نہیں۔ جو اکثر بریفنگ سے ہٹ کر کچھ اور ہی ہوا کرتی تھی‘‘ ایک جگہ وہ ٹرمپ دور میں میٹنگز کے دوران فیصلوں کا ذکر کرتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ ’’اکثر ماحول ایسا ہوا کرتا تھا جیسے کالج کے طالبعلم کیفے میں لڑ پڑیں اور کھانے کی پلیٹیں ایک دوسرے پر اْچھالنے لگ جائیں‘‘
ٹرمپ اس بار اپنی دوسری اور آخری اننگز کھیل رہے ہیں ممکن ہے وہ کئی ایسے اقدامات کرنے کا بھی سوچیں جو پہلے دور کے دوران احتیاطاً نہیں کر سکے۔ ممکن ہے ان کی یہ اننگز جارحانہ ہو جو دنیا کو تیسری عالمی جنگ کے دہانے پر پہنچا دے۔ کچھ بھی ہو سوچے سمجھے بغیر کئے گئے فیصلوں کا انجام برا ہی ہوا کرتا ہے۔ ان فیصلوں کو دنیا تو بھگتے گی ہی لیکن امریکہ کو بھی بہت زیادہ اور ناقابل تلافی نقصان ہو سکتا ہے۔اس کے علاوہ ’’دلفریب خواب‘‘ شرمندہ تعبیر نہ ہونے پر ٹرمپ کے حامیوں میں اضطراب پیدا ہوسکتا ہے اوراضطراب ترقی نہیں تنزلی کی علامت ہوا کرتا ہے۔ ایسا سوچ کر افتخار عارف کا شعر یاد آ گیا:
تیری شوریدہ مزاجی کے سبب تیرے نہیں
اے میرے شہر تیرے لوگ بھی اب تیرے نہیں