خورشید قصوری اور آغا شاہی …دو باوقار وزرائے خارجہ!

امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کے ایک بار پھر برسراِ قتدار آنے کے بعد دنیا اور باالخصوص پاکستان پر اس کے اثرات کے حوالے سے گرماگرم بحث چھڑگئی ہے ۔ غزہ اور یوکرین پرامریکی صدر ٹرمپ اوران کی انتظامیہ کا موقف واضح ہے کہ وہ طاقتور کے ساتھ ہیں۔اس سے کشمیر پر ان کا کیا موقف ہوگا ، یہ سمجھنا چنداں مشکل نہیں۔بھارت نے کشمیر کو ہڑپ کرتے وقت کہا تھا کہ بات صرف پاکستانی کشمیر پر ہوگی اور وہی مقبو ضہ کشمیر ہے ۔ اس سے واضح ہے کہ اب بھارت پاکستان کے پاس موجود کشمیر کو لینے یاخودمختار بنانے پر کام کرے گا ۔ امریکی صدر ٹرمپ سے حالیہ ملاقات میں بھارتی وزیر اعظم مودی نے ایک بار پھر سرحد پار سے دہشت گردی کی ہرزہ سرائی کی ہے۔
ماضی میں میاں خورشید محمودقصوری اور آغا شاہی پاکستان کے دو بہت بڑے اہم وزرائے خارجہ رہے ہیں لیکن میںمیاں خورشیدمحمود قصوری کو دونوں میں سے بڑا سمجھتا ہوں کیونکہ آغا شاہی مختصربات کرتے تھے ، جبکہ خورشیدقصوری بڑی تفصیل سے گفتگو کرتے ہیں۔آج اس کالم کے ذریعے مجھے ان کے سامنے چند سوال رکھنے ہیں ۔ میں چونکہ آنکھوں کی بینائی سے محروم ہو چکا ہوں اور چلنے پھرنے سے معذور ہوں، اس لیے ان کے پاس جانے سے قاصر ہوں۔ میرے پاس کوئی ڈی ایس این جی بھی نہیں، جو میں ان کے ہاں بھیج سکوں۔میاں خورشید محمود قصوری جب میرے سوالات کے جواب دینے کیلئے تیار ہونگے تو میں ا ن سے بات چیت کی ریکارڈنگ کیلئے کسی ایمبولینس کے ذریعے ان کے پاس ضرور حاضر ہوجاؤں گا۔
جناب خورشید محمودقصوری صاحب نے اپنی کتاب میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کامیاب مذاکرات کے نتیجے میں کشمیر کے مسئلے کے حل کے لیے ایک قابل عمل معاہدے کا مسودہ تیار کر لیا گیا ہے ۔ اور اب اس کی شین قاف درست ہو رہی ہے یعنی قومہ اورفل سٹاپ وغیرہ۔ باقی اصولی باتیں طے ہو گئی ہیں۔میرا خورشید قصوری صاحب سے پہلا سوال یہ ہے کہ کیا اس معاہدے کے مسودے میں یہ شق بھی شامل تھی کہ انڈیا کشمیر پر آئینی جارحیت کرتے ہوئے اس کواپنے جغرافئے میں شامل کر لے گا اور کیا اب اس تبدیلی کے بعد کوئی راستہ باقی رہ گیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر جو انڈیا کے پاس ہے، اس پر ہم کسی پلیٹ فارم پر بھارت سے کوئی بات چیت کر سکیں؟کسی سلامتی کونسل میں، جنرل اسمبلی میں یا معاہدہ تاشقند کی رو سے جو دو طرفہ مذاکرات ہم کرتے رہے، کیا اب ان کا کوئی چانس باقی رہ گیا ہے۔
 میرا دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر دوحکومتوں کے درمیان مسئلہ کشمیر کے حل کے حوالے سے کوئی بات چیت ہوئی تھی توبھارت نے 5اگست 2019ء کو کشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل کرکے شب خون کیوں مارا۔کیا ایک زیرک سفارتکار کی حیثیت سے آپ سمجھتے ہیں کہ اس وقت کی حکومت پاکستان نے اس پر کوئی مناسب سفارتی ردعمل کا اظہار کیا اور بھرپور احتجاج کیا۔؟ اورکیا یہ مناسب تھا بھارت تو کشمیر کو ہڑپ کرے اور ہم راتوں رات کرتاپورمیں ایک عظیم الشان ر ا ہداری بھارت کے حوالے کردیں۔ سوال یہ ہے کہ جب ایک معاملہ طے پا گیا تو کیا حکومت بدلنے سے وہ انڈیا کا پورا موقف جو اس وقت کی حکومت نے طے کیا تھا ، کیا وہ بدل جانا چاہیے تھا یا بدلا جا سکتا ہے ۔ یہ جو کہتے ہیں کہ حکومتوں کے بدلنے کے ساتھ طے شدہ معاملات نہیں بدلتے تو یہ معاہدہ کیسے بدل گیا؟ کیا مودی نے اپنے ملک میں کوئی ریفرنڈم کروایا تھا کہ وہ جو فیصلہ کرے گا وہ ہی نافذ العمل ہوگا؟ اسی طرح جس کانگریس نے انگریز سے آزادی حاصل کی تھی، اس کے ہاتھ میں کیا آیاہے؟ اس کے تو رہنماراہول گاندھی کو سری نگر کے ایئرپورٹ سے واپس بھیج دیا گیا تھا ، جب وہ یہاںپانچ اگست کی صورتحال جاننے کیلئے پہنچا۔ کیایہ ہے انڈیا کی جمہوریت؟۔
 میرا تیسرا سوال یہ ہے کہ کیا ایسا ممکن ہے کہ دو ریاستوں کی حکومتیں کوئی بات چیت کریں اور اس کے بعد آنیوالی حکومتیں اس پر عملدر آمد نہ کریںتو ا س طرح کی وعدہ شکنی کو دنیا کی کسی عدالت میں چیلنج کیا جاسکتا ہے ، جس طرح بھارت نے پاکستان میں پکڑے گئے اپنے جاسوس کلبوشن کاکیس عالمی عدالت انصاف میں چیلنج کردیا تھا۔ قصوری صاحب ممتاز قانون دان بھی ہیں، اس لحاظ سے میں ان سے یہ بھی دریافت کرنا چاہوں گا کہ بھارت اور پاکستان کی سرحدوں کی تقسیم کا مسئلہ ریڈ کلف کے سپرد کیاگیا تھا۔اور اس کے جج بھی لاہور ہائی کورٹ کے ایک مخصوص کمرے میں عدالت لگا کر تمام فریق یعنی مسلمانوں،ہندوؤں، سکھوں اور دیگر اقلیتوںکوبھی سنتے رہے لیکن ریڈ کلف نے اپنا اعلان یا اپنا یہ ایوارڈ 14 اگست سے پہلے نہ دیا جبکہ 14 اور 15 اگست کو دونوں ملک آزاد ہو چکے تھے مگر انہیں معلوم نہیں تھا کہ ان کی سرحدیں کیا ہیں۔ 17 اگست کو لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے جو اس وقت برطانیہ کے وائسرائے نہیں رہے تھے ، بلکہ بھارت کے گورنر جنرل بن گئے تھے۔ انہوں نے ریڈ کلف ایوارڈ کااعلان کیا تھا تو کیا بھارت کا کوئی گورنر جنرل انڈیا اور پاکستان کی سرحدیں طے کر سکتا ہے؟ کیا وہ ریڈ کلف کے ترجمان بن سکتے تھے؟کیا انہیں ریڈکلف کی ترجمانی کرناچاہیے تھی اور اگر انہوں نے کی تو کیا ہمیں یہ ترجمانی قبول کرناچاہیے تھی؟ ہم نے اگر قبول کی تو کیوں کی؟
اسی طرح کل کومشرقی پنجاب کا کوئی وزیر اعلیٰ اٹھے اور کہے، نہیں جی یہ لاہور اور ننکانہ ہمارے ہیں،کیا اس کے کہنے سے سرحدیں تبدیل ہو جائیں گی؟ کل کوئی بھارت کا ایک ڈپٹی کمشنر اٹھے اورکہے کہ ساہیوال ہمارا توساہیوال ان کا ہو جائے گا؟ اگلے دن کوئی اٹھے اور کہے کہ ہم رحیم یارخاں آرہے ہیں توکیا رحیم یار خاں ان کو دے دیاجائے گا۔ ایک دن کوئی اٹھے اورکہے کہ سیالکوٹ تو ہمارے ساتھ شامل تھا، یہ ہمارا ہے تو کیا یہ ادھر شامل ہو جائے گا؟تو پھرپاکستان ایک آزاد ملک کیسے رہا اور ایک ایٹمی ملک ہونے کے باوجود بھی اس قدر کمزور کیوں ہے؟ کیا ہم خدا نخواستہ اسی حشر سے دوچار ہوں گے جس سے گوربا چوف دو چار ہوا تھا؟ ان کے پاس ہر قسم کے میزائل اور ایٹم بم ہزاروں کی تعداد میں موجود تھے،میزائل بردارجہازتھے مگرروس ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا، مشرقی یورپ اس سے پہلے ہی چھین گیا تھا ، پھر اس کے اپنے علاقے بھی چھن گئے، اس کی ریاستیں آزاد ہوتی گئیں۔ کیا خدانخواستہ ہم بھی اسی انجام کی طرف بڑھ رہے ہیں؟ میں امید رکھتا ہوں کہ جناب بیرسٹر صاحب میرے ان فکر افروزقومی سوالات پر غور فرمائیں گے اور اگر کوئی ضمنی سوال اٹھے تو وہ ان کا بھی جواب دیں گے، اس کے لیے وہ جب بھی کوئی وقت مقرر کریں، مجھے حکم دیں ، مجھے جیسے بھی ان کے پا س جانا پڑا ، ضرور جاؤں گا۔
 جناب خورشیدقصوری اور میرے خاندان کاصدیوں سے تعلق چلا آرہا ہے۔ جیسے شاہ اسماعیل شہید اور سید احمد بریلی نے تحریک جہاد شروع کی اور بعد میں یہ ریشمی رومال تحریک میں تبدیل ہو گئی ۔ میرے گاؤں فتوحی والا میں صوفی ولی محمد نے اس کے نمائندے کے طور پر ہمارے گھر میں ڈیرہ جمالیا تو اس وقت خورشید قصوری کے دو چچا باقاعدگی سے ان کے پاس تشریف لے جاتے تھے، ان سے انہوں نے باقاعدہ بیعت کر رکھی تھی اور ظاہری طور پر گمان کیا جا سکتا ہے کہ وہ ان کی دامے درمے سخنے مدد بھی کرتے ہوں گے۔ اس سلسلے میں قصوری خاندان پر دومعتبر کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔ ان میں سے ایک بائیں بازو کے دانشور عبداللہ ملک نے لکھی ہے اور دوسری دائیں بازوکے دانشور،عالم فاضل اور کئی کتابوں کے مصنف اسحاق بھٹی صاحب نے لکھی ہے۔ ان دونوں کتابوں میں میرے خاندان کے صوفی ولی محمد اور قصوری خاندان کے تعلقات کا تفصیلی ذکر موجود ہے اور میں اسی حوالے سے یہ امید کرتا ہوں کہ بیرسٹر قصوری صاحب مجھے گفتگو کے لیے جلد از جلد ٹائم عنایت فرما دیں گے۔
٭٭٭

اسد اللہ غالب....انداز جہاں

ای پیپر دی نیشن

فخر آدمیت یا شرم آدمیت 

پس آئینہ خالدہ نازش   لومڑی نے پورے جنگل میں افواہ پھیلا دی کہ جنگل کے بادشاہ شیر نے چھوٹے اور کمزور جانوروں کا شکار نہ ...